سیاست میں امی ابو وغیرہ کا کردار


یقین مانیے ڈاکٹر فاروق ستار نے گزشتہ دنوں واقعی ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت بلکہ سیاست ہی چھوڑ دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا اگر ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ انھیں اپنا فیصلہ بدلنے کا عین وقت پر حکم نہ دیتیں۔

مگر یہ سہولت الطاف حسین کو حاصل نہ تھی۔ انھیں خود ہی کارکنان کی حالتِ زار پر ترس کھا کر ہر بار ‘نہیں بھائی نہیں بھائی’ کے جذباتی شور میں زیادہ سے زیادہ 12 گھنٹے کے اندر اپنا استعفی واپس لینا پڑتا تھا۔

الطاف بھائی نے 50 سے زائد مرتبہ استعفی دیا اور ہر بار ‘نہیں بھائی نہیں بھائی’ ان کے پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ بالآخر تنگ آ کر انھوں نے گذشتہ برس 22 اگست کو ایسا ماحول پیدا کردیا کہ کارکنان ‘نہیں بھائی نہیں بھائی’ تک نہ کہہ سکے۔ یوں پہلی بار الطاف بھائی کو اپنی مرضی سے رخصت ہونے کا آزادانہ موقع مل گیا۔

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ سیاستدان کہ جن کے سیاسی و غیر سیاسی والدین کا سایہ سر پر رہتا ہے۔ دنیا کے کون سے ماں باپ ہوں گے جو اولاد کا برا چاہیں یا انھیں آگے نہ بڑھانا چاہیں یا بوقتِ ضرورت ان کے لیے ڈھال نہ بن جائیں یا انھیں گڑھے یا آگ میں گرنے سے نہ روکیں۔

پرانی سیاسی پیڑھی میں جہاں بہت سی خرابیاں گنوائی جا سکتی ہیں وہاں ایک خوبی مشترک تھی۔ وہ اپنی اولاد کو دعائیں تو دیتے مگر خود غیر سیاسی زندگی گزارتے یا اگر خود سیاستدان ہوتے تو اپنی اولاد کو سیاست پر تھوپنے یاجانشین بنانے کی شعوری کوشش سے بھاگتے تھے۔

جیسے گاندھی جی کے بیٹوں کا نام ان کی زندگی میں کسی نے نہیں سنا۔ اندرا گاندھی کو کم ازکم جواہر لال نہرو نے اپنا جانشین بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اندرا کی سیاست نہرو کی وفات کے بعد شروع ہوئی مگر اندرا نے اس روایت سے بغاوت کی اور اپنے بیٹے سنجے کو بطور جانشین بڑھانے کی کوشش کی۔

جناح صاحب کی صاحبزادی کو تو خیر سیاست سے کبھی کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں۔ ہمشیرہ فاطمہ جناح اگرچہ بھائی کے شانہ بشانہ رہیں مگر بطور ایک ذاتی مددگار۔ جناح صاحب نے کبھی اشارتاً بھی نہیں کہا کہ میرے بعد فاطمہ۔

البتہ جناح صاحب کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے ازخود مختصر عرصے کے لیے سیاست میں آنے کا بہ امرِ مجبوری حالات کے دباؤ کے تحت فیصلہ کیا۔ پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان سے ذوالفقار علی بھٹو تک کسی نے بھی اپنے منصب و حیثیت کے بل بوتے پر اپنی اولاد کو سیاست میں چمکانے کی کوشش نہیں کی۔ بھٹو صاحب کے ٹیلنٹیڈ کزن ممتاز بھٹو بھی بہت زیادہ نہیں چل پائے۔

پاکستان کے فوجی آمروں میں لاکھ خامیاں سہی مگر پہلے فوجی حکمران کو چھوڑ کے جنھوں نے اپنے بیٹے گوہر ایوب کو سیاست میں متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی کسی اور فوجی حکمران نے اپنی اولاد کے لیے لابنگ نہیں کی۔ بھلے وہ یحیی خان ہوں، ضیا الحق یا پرویز مشرف۔

محمود خان اچکزئی کا عبدالصمد اچکزئی کے ہوتے کسی نے نام بھی نہ سنا تھا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان کو اپنے والد مفتی محمود کی 1980 میں وفات کے بعد سیاست میں آنے کا موقع ملا۔ البتہ فضل الرحمان نے والد کے برعکس ہمیشہ اپنے بھائیوں کا مثالی خیال رکھا۔

سندھ میں رسول بخش پلیجو اور فاضل راہو بائیں بازو کی قوم پرست عوامی تحریک کا انجن تھے۔ مگر فاضل راہو کے قتل کے بعد عوامی تحریک کی جانشین روایات بھی روایت سے ہٹ گئیں اور رسول بخش پلیجو نے پارٹی اپنے صاحبزادے ایاز لطیف کے حوالے کردی۔ اور پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ والد صاحب پارٹی کی سمت اور صاحبزادے کی کارکردگی سے مطمئن نہ رہ پائے اور دونوں نے ایک دوسرے سے سیاسی لاتعلقی کا اعلان کر کے اپنی اپنی عوامی تحریک بنا لی۔ ایک دھڑا سیاسی روحانیت پر چل رہا ہے اور دوسرا دھڑا سیاسی دنیا داری کو افضل سمجھتا ہے۔

البتہ اگر کوئی پرانی فطری پولٹیکل فیملی کہی جا سکتی ہے تو وہ اتمان زئی چارسدہ کا سیاسی خانوادہ ہے۔ خان عبدالجبار خان، چھوٹے بھائی خان عبدالغفار خان، اور غفار خان کی زندگی میں ہی ان کے صاحبزادے عبدالولی خان اور بہو نسیم ولی خان سیاست میں آئے۔

ولی خان کے بڑے صاحبزادے اسفند یار ولی قوم پرست طلبہ سیاست کے پلیٹ فارم سے قومی دھارے میں داخل ہوئے اور اپنے والد کی زندگی میں ہی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔ ولی خان اسفند یار اور سوتیلی والدہ نسیم ولی خان کے مابین سیاسی رسہ کشی اور گروہ بندی دیکھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔

باچا خان فیملی میں اسفند یار ولی کی نسل تک سوائے خان عبدالجبار خان کے کسی نے اقتدار قبول نہیں کیا۔ سنہ 1972 میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں پہلی بار نیشنل عوامی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع ملا۔ مگر باچا خان فیملی نے کوئی وزارتی قلمدان براہ راست اپنے پاس نہیں رکھا۔ البتہ یہ حکومت چند ماہ بعد بھٹو صاحب کے ہاتھوں برطرف ہوگئی۔

لگ بھگ تین عشرے بعد اسفند یار کے سوتیلے ماموں اعظم خان ہوتی کو وزارت اور اعظم خان کے صاحبزادے امیر حیدر ہوتی کو اقتداری مصلحتوں کے سبب وزارتِ اعلی پر متمکن ہونے کا موقع ملا۔

اکیسویں صدی کی عوامی نیشنل پارٹی جو باچا خان کی تیسری اور چوتھی نسل کے ہاتھ میں ہے، نام کی حد تک تو باچا خان کا دم بھرتی ہے مگر عملاً باچا خان کے آئیڈیل ازم کے بجائے ‘جہاں اور جیسا ہے’ کی بنیاد پر دیگر جماعتوں جیسی سیاست کر رہی ہے کہ جس میں اقربا پروری سمیت جو بھی ممکن ہو جائز ہے۔

رہی بات پیپلز پارٹی کی تو بھٹو صاحب کے زمانے میں بے نظیر بھٹو کا کوئی سیاسی تعارف نہیں تھا۔ بیگم نصرت بھٹو بھی خاتونِ اول ہی تھیں۔ مگر نئی پیپلز پارٹی میں نام تو بھٹو اورچہرہ بھٹو کے نواسے کا ہے لیکن پارٹی بھٹو صاحب کے داماد اور ان کی ہمشیرہ کے کنٹرول میں ہے۔ مارکیٹنگ کے تقاضوں کے تحت کبھی نواسے کو آگے لے آیا جاتا ہے کبھی پیچھے کھینچ لیا جاتا ہے۔

اس دوران سوشلزم ہماری معیشت ہے کا بنیادی نعرہ بھی عملاً معیشت ہماری معیشت ہے سے بدل گیا ہے۔ کبھی صاف پتہ چلتا تھا کہ پیپلز پارٹی سب سے بڑی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہے مگر اب نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کون زیادہ اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور نہ ہی سندھ سے باہر پارٹی کا پتہ چلتا ہے۔

لیکن ایک مثال ایسی ہے جو بے مثال ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو تنِ تنہا غیر سیاسی ابا جی نے کھڑی کر دی۔ میاں محمد شریف نے جنرل ضیا کے غیر سیاسی دور میں اپنے دو صاحبزادوں کو اسٹیبلشمنٹ سے متعارف کروایا اوراسٹیبلشمنٹ نے دونوں کو اقتدار کی اے بی سی ڈی سے متعارف کروایا۔

جب تلک دونوں لڑکے بڑے شریف صاحب کے مشوروں پر سعادت مندی سے چلتے رہے اسٹیبلشمنٹ بھی بامروت رہی۔ جیسے ہی ان لڑکوں نے اپنا دماغ لڑانے کی کوشش کی تب سے ستارے گردش میں آ گئے۔ جس طرح ابا جی نے دو بیٹوں کو لیڈر بنایا اسی طرح دونوں بیٹوں نے اپنے بیٹے بیٹی کو جانشین بنانے کی کوشش کی۔ مگر جب ابا جی نے تجربہ کیا اس وقت زمانہ دوسرا تھا۔ اب نہ ابا جی ہیں نہ وہ زمانہ، چنانچہ پورا خاندان بنا ہوا ہے نشانہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).