فنکاروں کا ریٹ کیا ہے؟


سوشل میڈیا پر ہمارے ایک دوست نے یہ اعتراض اٹھایا، کہ ہیں تو آپ شوبز سے، لیکن آپ سیاست پر لکھتے ہیں۔ یہ کیوں؟ آپ شوبز کی داستان سنایا کریں۔ گویا سیاست پر بات کرنا شوبز والوں کو زیبا نہیں۔ چند ماہ پہلے سیال کوٹ جانا ہوا، تو وہاں بھی ایک چاہنے والے نے کچھ اسی طرح کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”فن کار“ کو سیاست یا سیاست پر تبصرے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ (”میں آرٹسٹ ہوں“ اس طرح کے دعوے مجھے مسائل سے فرار، یا کام چوری کے بہانے لگتے ہیں) میں نے یونھی ایک دو مثالیں دیں، پوچھا کہ کیا شاعر ادیب رومان کی بات کرے تو ہی فن کار کہلائے گا؟ ان یوروپی امریکی ادیبوں کے حوالے دیے، جو سیاسی نقطہ نظر رکھنے کے باعث معتوب ٹھیرے۔ طنز کیا گیا کہ کیا آپ اپنے آپ کو ان ادیبوں کے ہم پلہ سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے میرا خاموش رہ جانا ہی مناسب تھا۔

پہلے اس دوست کے اعتراض یا فرمایش کا احترام کرتے، آپ کو شوبز سے متعلق ایک فسانہ سناتا ہوں، جن کا کہنا ہے کہ مجھے شوبز ہی کی داستان کہنی چاہیے۔ اس کے بعد چند گزارشات پیش کرتا ہوں۔

نثار قادری پاکستان ٹیلے ویژن سے شناخت پانے والے بہ ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ایک بار وہ کراچی سے اسلام آباد کے لیے جہاز میں سوار ہوئے۔ جہاز میں زیادہ سواریاں نہیں تھیں۔ تھوڑی دیر بعد میزبان قریب آئی اور اشتیاق سے پوچھا، ”آپ نثار قادری ہیں، ناں؟“ پھر قادری صاحب کے لیے چند تعریفی کلمات کہے اور انتہائی احترام سے انھیں اکانومی کلاس سے بزنس کلاس میں لے گئیں۔ قادری صاحب کہتے ہیں، کہ ایک فضائی میزبان کی طرف سے ایسی توجہ، ایسا خلوص پاکے مجھے لگا، کہ میں ملک کے معزز ترین افراد میں سے ایک ہوں۔ بتاتے ہیں، کہ میں نے بزنس کلاس میں جاتے ہی اپنا کوٹ اتار کے سیٹ کی پشت پر پھیلایا، گردن میں سریا تان کے یوں ٹانگیں پسار دیں، جیسے مہمان خصوصی میں ہی ہوں۔

قادری صاحب جن جزئیات سے یہ کہانی سناتے ہیں، اسے یاد کرکے ہنسی ہے کہ رُکتی نہیں۔ کہتے ہیں مزید وقت گزرا تو میرے دائیں ہاتھ پر زرا فاصلے پر بیٹھے ایک شخص نے مجھے غور سے دیکھا، اور اٹھ کے میرے قریب آ گیا۔ مجھے انداز ہوگیا کہ یہ بھی میرا کوئی پرستار ہی ہے، اس اندازے نے میری گردن کے سریے کو مزید تقویت دی۔ اس شخص نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس کے بڑھے ہاتھ کو اپنی دو انگلیاں چھو کر وعلیکم السلام کیا۔

”مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اداکار ہیں!“ اس نے جب یہ کہا تو قادری صاحب کو لگا، جانتا تو ہوگا، ایویں ای ان جان بن رہا ہے، کہ ”بتایا گیا ہے“۔ قادری صاحب نے رُکھائی سے جواب دیا، ”جی جی“۔ اب اس شخص نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف اس وقت کی سندھ حکومت کی کابینہ کا ایک وزیر تھے۔ (اس ملاقات کے بعد اس وزیر کی ایک وجہ شہرت پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک اداکارہ بھی ہوئیں) قادری صاحب کا بیان ہے، وہ ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا، اور خوش دلی سے باتیں کرنے لگا۔ اب ایک فن کار کو یہ احساس کہ میں اتنا پاپولر ہوں، کہ فضائی میزبان پروٹوکول دیتی ہے، صوبائی وزیر میرے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ غرور تو بنتا ہی تھا۔ آگے کا احوال قادری صاحب کی زبانی سنیے!

”میں منتظر تھا، کہ یہ مجھ سے میرے فنی سفر کے بارے میں سوال کرے گا، تجربات جاننا چاہے گا۔ وغیرہ۔ صوبائی وزیر صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں کرتے، اچانک مجھ سے یہ پوچھا، آپ بتاسکتے ہیں، کہ فلاں اداکارہ کا ریٹ کیا ہے؟!“

قادری صاحب کہتے ہیں، کہ میرا سارا غرور، میری ساری خوشی کافور ہوگئی۔ کندھے ڈھیلے پڑگئے، گردن میں اٹکا سریا دُہرا ہوگیا، اور میرا سر شرمندگی کے عالم میں میرے سینے سے جالگا، کہ یہاں فن کار کو یہ سمجھا جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ مجھے اٹھ کے اکانومی کلاس ہی میں چلے جانا چاہیے۔

ہند و پاک میں مولوی، شاعر، ادیب، گلوکار، استاد، رقاص اور اس طرح کے دیگر پیشوں سے وابستہ افراد کو ”کمی“ سمجھا جاتا ہے۔ کام کرنے والوں کو ”کمی“ کہنا عار نہیں، انھیں کم تر سمجھنے کی نفسیات نے ہمیں ایسا بنادیا ہے، کہ ہم ان کی رائے کو، ان کے مشورے کو، ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اول تو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، تسلیم کریں بھی تو اتنا کہ گوّیا محض گانا سنائے، تصور کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ سوچے، نہ سوچنا چاہیے، نہ شاید سوچ سکتا ہے۔

گاوں کے معاملات کو چودھری صاحب جیسے بھی چلانا چاہیں، یہ مراسی کی صواب دید نہیں۔ وہ بس اپنے حصے کا اناج لے اور جب جب شادی بیاہ کی رسوم ہوں، وہ ڈھول پیٹنے آجایا کرے۔ یوں کہیے کہ ہنرمند، فن کار اور دیگر علوم حاصل کرنے والے کم تر درجے کے شہری ہیں۔ وہ کسی اکبر کے دربار کے نورتن میں سے تو ہوسکتے ہیں، کہ شہنشاہ کے راگ الاپیں، انھیں شاہ کے معاملات میں مداخلت کا حق نہیں۔

شاہ پرست اقوام کی ایسی نفسیات ہو، یہ حیرت کی بات نہیں۔ بھلا ہو فرنگی راج کا ہندستانیوں کو جمہوریت کے اسباق پڑھا گیا۔ ہم بھی ایسے کند ذہن طالب علم کہ پڑھ پڑھ کے یاد کچھ نہ کیا۔ ہر شہری کے حقوق برابر ہیں، یا ہر شہری کے حقوق ہیں، یا شہری کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں؛ یہ سوال، یہ شعور شاہی نظام میں پنپتا بھی کیوں کر! ہم اس سے باخبر تھے کہ شاہی سواری گزرنے والی ہو، تو پیٹھ کر کے کھڑے ہوجانا چاہیے، یا نگاہیں جھکا کے خاموشی سے کھڑے رہیں۔ (آج ہمارے یہاں کے شاہوں کا ”پروٹوکول“ اس کی جدید شکل ہے) سینہ بہ سینہ چلتی کہانیوں میں یہی منظر دکھایا جاتا ہے۔

ہم میں سے اکثر، ویسا خوش نصیب بننے کے خواب دیکھتے ہیں، جس غریب پر شہزادی کی نگہ پڑی، اور اس نے اپنے لیے منتخب کرلیا۔ پھر وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔ خوشیوں کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے کی کہانیوں میں بھی ایک بزرگ نمودار ہوتے ہیں، جو ایسا منتر بتاتے ہیں، کہ تمام مشکلیں حل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہم وہی اسم اعظم مانگتے ہیں، بزرگ تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے غریب کی کوئی کہانی نہیں، جسے شہزادی نے پسند کیا، اور اس نے انکار کردیا کہ میں کیا جانوں شاہی تخت کیا ہوتا ہے، مجے اپنی کمائی پیاری ہے۔

کبیر داس اپنے تئیں چاہے جتنی دانش کی باتیں کرے، رہے گا وہ جولاہے کا جولاہا۔ جولاہا بادشاہ نہیں ہوسکتا، ماسوائے اسے شہزادی نہ پسند کرلے۔ خیر! کبیر داس کو بادشاہ بننا قبول بھی نہ ہوتا۔ کبیر داس یہی دہائی دے سکتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ دوسروں کا احترام کیجیے، مساوات قائم کریں، عزت نفس کی حفاظت کریں، ذات پات کی تقسیم کا انکار کیجیے، علم کی قدر کریں کہ سب راستے علم سے ہوکے جاتے ہیں۔

کوئی کبیر داس فرد کو آزادی گھول کے نہیں پلاسکتا۔ فرد تو تبھی آزاد ہوگا، جب وہ اپنے حقوق پہچان لے گا، آزادی کا شعور حاصل کرے گا۔ ہمارے یہاں احوال یہ ہے، سمجھا جاتا ہے، یہ شعور کبیرداس کیسے دے سکتا ہے، کیوں کہ وہ جولاہا ہے۔ آپ بھی میرے دوست کی طرح یہ مت کہیے گا، کہ کیا میں اپنے آپ کو کبیر داس کا ہم پلہ سمجھتا ہوں! یہ سن کے مجھے خاموش ہوجانا پڑے گا۔

جب آپ مغربی جمہوریت کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں، تو جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے مغربی ادیبوں کی نقالی میں‌ کیا حرج؟

لطیفہ سنیے، کہ یہاں جب تک کوئی ”دانش“ کو اپنا پیشہ نہ بنالے، ہم اسے دانش ور ماننے میں‌ متامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم ایسا اظہاریے بھی دیکھتے ہیں، ”یہاں وہ بھی دانش ور بنا ہے، جسے گھر والے سبزی لینے نہیں بھیجتے، کیوں کہ باسی سبزی لے کے آجاتا ہے“۔ گویا تازہ سبزی لانے والا دانش ور ہوتا ہے۔

ہر شہری کو حق ہے کہ وہ اپنا اظہار کرے۔ اس پر قدغن لگانا، اس کا ٹھٹھا اڑانا دانش مندی ہرگز نہیں۔ فن کار کہیں جسے، وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے، واقعات، سانحوں، روایات، رسوم، بغاوتوں، سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ان سب پہ اس کی ایک رائے بھی ہوتی ہے، اپنی رائے کا اظہار اس کا حق ہے۔ آپ اس سے اتفاق کیجیے یا اختلاف، یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن آپ اس کے اظہار کے حق پر کیوں انگلی اٹھاتے ہیں؟ کیا ہمیں ایسے افراد مطلوب ہیں جو صحت مند سبزی خرید کر لادیں؟ کیا ہمیں محض ایسے داستان گو مطلوب ہیں، جو ہمیں بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں کی کہانیاں سنائیں۔ حرم کے رنگین مناظر دکھائیں؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran