پہلوی اور بھٹو خاندان کے بچے کہاں جائیں؟


”بادشاہ سنگ مرمر کے اس محل کی پرشکوہ سیڑھیوں کے سب سے آخری قدم پہ میرا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اپنی شاہانہ یونیفارم میں پوری طرح تیار تھے اور تن کے کھڑے ہوئے تھے۔ میںجیسے ہی گاڑی سے باہر نکلی چھ ننھی منی بچیوں نے میرے اوپر پھولوں کی بہت سی پتیاں نچھاور کیں۔ ایک چھوٹا سا لڑکا، میرا کزن، احمد حسین میرے آگے آگے پتیاں بکھیرتا چلا جا رہا تھا۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتی اس وقت کون زیادہ خوش تھا، بادشاہ یا میں، چند لمحوں میں ہماری شادی ہونے والی تھی۔ اسی وقت مجھے ایک دم یاد آیا کہ ہماری رسم کے مطابق بادشاہ کو پہنانے کے لیے میرے پاس کوئی انگوٹھی نہیں ہے۔‘‘

ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے یہ شادی ایک بیٹے کی خواہش میں کی۔ فرح پہلوی عمر میں ان سے کئی برس چھوٹی تھیں۔ بیس فروری 1960ء کو اس رشتے کے دو ماہ بعد جب وہ ایک ملکہ کی حیثیت سے آئیں تو اس وقت ان کا پہلا بیٹا، موجودہ تصوراتی کراؤن پرنس، رضا پہلوی ان کی کوکھ میں تھا۔ فرح پہلوی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ چارمنگ جنرل ایوب خان مجھے اپنے ملک کی مختلف چیزوں کے بارے میں بتا رہے تھے اور میں گاڑی میں بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کہ کسی طرح یہ سفر ختم ہو تو میں واش روم جا سکوں۔ اس وقت ان کی اس کیفیت کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ بادشاہ ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ ملکہ کوئی پریشانی محسوس نہ کریں لیکن یہاں کی گرمی سے ان کی طبیعت صبح کے وقت خاص طور پہ بہت خراب رہتی تھی۔ جیسے تیسے یہ سفر تمام ہوا۔ واپس جانے کے سات ماہ بعد بادشاہ کو اپنا وارث مل گیا۔ اس شاہی جوڑے کے یہاں مزید تین بچوں نے جنم لیا۔ فرح ناز پہلوی، علی رضا پہلوی اور لیلیٰ پہلوی۔ یہ سب آل اولاد شاہی ناز و نعم میں پلی تھی۔ بادشاہت یا تو بہت شاندار ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ سعودی شہزادے بھی آج کل تلور کے شکار والے موسم میں خود بند ہو چکے ہیں تو وہاں بھی آخرکار یہی ہوا۔ 1979ء میں انقلاب کے بعد رائل فیملی نے ایران چھوڑ دیا۔

وہ بچے جو دنیا کی نگاہوں کا مرکز ہوا کرتے تھے اب انہیں کوئی ملک پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ سب سے بڑا بیٹا دو برس پہلے ہی پڑھائی کے لیے باہر جا چکا تھا۔ فرح ناز کی عمر سولہ برس، علی رضا تقریباً تیرہ برس اور لیلیٰ نو سال کی تھی۔ فیملی کے بڑے بچے عموماً بدلتے حالات سمجھ جاتے ہیں، ”بڑا‘‘ ہونے کا احساس انہیں وقت سے پہلے بڑا کر ہی دیتا ہے، تو رضا اور فرح ناز بہرحال بعد میں کافی حد تک ایڈجسٹ کر گئے لیکن علی رضا اور لیلیٰ بہرطور شدید ڈپریس رہتے تھے۔ ایران چھوڑنے سے پہلے ہی بادشاہ کو کینسر ہو چکا تھا جو در بدر کی جلا وطنی کے دوران اور شدت اختیار کر گیا۔ جلا وطنی کے ڈیڑھ برس بعد ہی شاہ ایران، جنہیں پاکستان میں ریڈ کارپٹ ویلکم دیا گیا تھا، جن کی خوب صورت، دراز قد ملکہ کے نام پر نامعلوم کتنی بیٹیوں کے نام رکھے گئے تھے، بیماری اور صدمے سے لڑتے لڑتے تھک گئے۔ 27 جولائی 1980 ان کی زندگی کا آخری کا دن تھا۔ اب چاروں بچے تاج، تخت، مال، دولت، سگے باپ، اپنے ملک… ہر ایک چیز سے محروم ہو چکے تھے۔ اگر شاہ ظالم بھی تھا بھائی تو علی رضا اور لیلیٰ نے کس چیز کی سزا کاٹی؟

انہیں مصر نے پناہ دی تھی۔ اس وقت انورالسادات مصر کے صدر تھے۔ وہ اور ان کی شریکِ حیات بادشاہ اور ملکہ فرح کے اچھے وقتوں میں بنے واحد دوست تھے جو بعد میں بھی کام آئے لیکن 1981ء میں صدر سادات بھی قتل کر دئیے گئے۔ اب ملکہ فرح دیبا پہلوی اور ان کے تین بچوں کے سامنے پھر یہی سوال منہ کھولے کھڑا تھا کہ چھت کہاں میسر ہو۔ تب امریکہ نے اپنے دروازے ان پر کھول دئیے۔ جو امریکہ شاہ کی بیماری کے دوران انہیں زیادہ دیر اپنے پاس نہ رکھ سکا تھا اور ابتدائی علاج کے بعد انہیں بھگانے کی‘ کی تھی، وہ امریکہ بہرحال اب مہربان تھا۔ شاہ کی فیملی اندر سے اب بالکل ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ دونوں چھوٹے بچے اپنا دکھ درد زیادہ تر آپس ہی میں بانٹتے تھے۔ وہ اس حد تک ڈپریس تھے کہ جوانی کے بعد بھی عام لوگوں کا سامنا کرنے یا ان کے سوالات سے گھبرا جاتے تھے۔ لیلیٰ باپ کی موت کے بعد سے ہی شدید غمگین رہتی تھی۔ وہ ٹھیک سے پڑھائی تک نہیں کر پاتی تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے نیند کی گولیاں لکھ کے دیں تو وہ ان کی بھی عادی ہو گئی۔ یہاں تک کہ 2001ء میں لیلیٰ پہلوی نے خود کشی کر لی۔ ملکہ فرح پہلوی کی بائیوگرافی میں اس کا تمام حال لکھا ہے‘ جو ایک ماں کا دل ہی جان سکتا ہے کہ سب کیسے لکھا گیا ہو گا۔ لیکن ملکہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ایک زخم ابھی اور باقی ہے۔ 2011ء میں علی رضا پہلوی نے بھی خود کشی کر لی۔ وہ بہن کی موت کے بعد سے پاگل پن کی حد تک پریشان رہتا تھا۔ فرح ناز اور رضا پہلوی (سپوزڈلی کراؤن پرنس) کے بچوں کی تصویریں اب فرح پہلوی کبھی کبھی شیئر کرتی ہیں، رضا پہلوی صدر ٹرمپ سے یک طرفہ خط و کتابت کرتے ہیں، رہی سہی بادشاہت جس جس ملک میں بھی ہے وہاں وہاں شادی بیاہ میں یہ لوگ سٹیٹ گیسٹ ہوتے ہیں، باقی رہے نام اللہ کا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ کیا ہوا؟ شاہ نواز بھٹو کو مارنے کی سازش کا سراغ کہیں مل سکا؟ مرتضیٰ بھٹو جیسا شیر جوان دن دہاڑے قتل ہوا، کوئی مجرم ملا؟ بے نظیر بھٹو کو مار کے فرش تک ایسے دھویا گیا جیسے بکرا ذبح کر کے عید کے دن صحن دھویا جاتا ہے، تو پیچھے بچ جانے والے کیا کریں گے؟ جنہوں نے ایران کے شاہی خاندان سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا ہو ان کے بچے اگر فلموں، ڈراموں یا آرٹس کے دوسرے شعبوں میں جا کے بھی اپنی فرسٹریشن نہ نکالیں تو کہاں جائیں؟ ذوالفقار جونئیر ادھر آ جائے مرنے کے لیے؟ یا صنم بھٹو کی بیٹی آزادے حسین‘ جس کی شکل بھی مرحومہ بے نظیر بھٹو جیسی ہے، وہ بکل مار کے آ جائے، سیاست میں حصہ کلیم کرے اور پھر ایک دن کوئی افسر کہیں فرش دھلوانے کا حکم جاری کر رہا ہو؟ بلاول کو ماں نے پالا ہی اسی طرح تھا کہ وہ کبھی ایگریشن میں نہ جائے، اسے انتقام کی آگ جلاتی نہ رہے، تو وہ اگر لوگوں کو حد سے زیادہ نرم مزاج دکھتا ہے تو یہ بی بی کا فہم ہے جو اپنی اولاد کو اتنا ٹھہراؤ بخش گیا۔ بے نظیر بھٹو کے لیے کیا بڑا کام تھا کہ وہ بلاول کی تربیت سلطان راہی ٹائپ فلمیں دکھا کے کرتیں یا اسے کسی بڑے کالج میں ہی بھرتی کرا دیتیں جس کے نتیجے قوم پہلے بھی کثیر تعداد میں بھگت رہی ہے۔
یہ جو ایسے خاندانوں کے بچے ہوتے ہیں یہ پہلے ہی بے چارے بہت تکلیف دہ حالات میں پرورش پاتے ہیں۔ چھتیس طرح کے مسائل ان سے جڑے ہوتے ہیں۔ تو ان سب کا سروائیو کر جانا اور نارمل رہنا ہی بڑی بات ہے۔ سیاست میں آنا اور پاکستان کی روایتی سیاست کرنا، یہ شاید بلاول اور آصفہ کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں ہے، وہ بے چارے جو کر رہے ہیں کھلے دل سے انہیں وہ کرنے دیں۔ وہ سب ان کے فرار کا ایک آسان راستہ ہے۔

ملکہ فرح دیبا پہلوی نے آگے لکھا، ”کسی کو انگھوٹھی یاد ہی نہیں رہی تھی۔ مجھے تک، یعنی دلہن کو بھی یاد نہیں رہی، بادشاہ کا داماد، اردشیر زاہدی میری مدد کے لیے فوراً آ گیا، اس نے مجھے اپنی انگھوٹھی دی جو میں نے کچھ دیر بعد بادشاہ کی انگلی میں پہنا دی۔ کچھ دن گزرنے پر میں نے بادشاہ کو شادی کی انگھوٹھی بنوا کر تحفہ دی۔ ان کی وفات کے بعد سے اب تک مجھے اور بادشاہ کو پہنائی جانے والی وہ دونوں شادی کی انگوٹھیاں میرے داہنے ہاتھ کی ایک ہی انگلی میں رہتی ہیں۔‘‘

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain