خیبر پختوان خوا حکومت کے یوتھ کارنیوال میں طلبا کی دل چسپی


پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی پالیسیوں سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اختلافات ہیں، مگر اس حکومت نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی ہے، جس کی واضح مثال گزشتہ کئی سالوں سے طلبا اور طالبات کو ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے اسپورٹس ایونٹس اور میگا چیلنج جیسے منصوبے شروع کرکے اچھی روایات کی شروعات کردی ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے، کیوں کہ نوجوان ہی اس ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں۔ اگر ان کی بہترین نشوونما کے لیے مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے، تو یہ دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں سے دور رہیں گے اور ان میں کچھ کر گزرنے کی لگن پیدا ہوگی۔

اگر ہم دیکھیں تو ہماری یوتھ میں پوٹینشل ہے مگر انھیں مواقع نہیں مل رہے، کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں اور اپنے آپ کو منوا سکیں۔

اگر ہم مغربی ممالک کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہاں کے ہائی اسکول کے نوجوان (پاکستانی) انٹرمیڈیٹ کے درجے تک پہنچتے خود کو کسی نہ کسی ایکسٹرا کریکیولر ایکٹیویٹی میں پوری طرح شامل ہوچکے ہوتے ہیں۔ وہ کوئی اسپورٹس ایکٹویٹی ہو، چاہے جم ایکسرسائز ہو، جس کے ذریع وہ اپنی جسامت بناتے ہیں۔ فوٹو گرافی ہو، کرافٹس ہوں، لکھنے کا شعبہ ہو یا اور کسی ٹیکنیکل کام میں مہارت ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں وِڈیوز بناکر اپ لوڈ کرنا ہو یا بلاگز کی شکل میں لکھنا ہو۔ اُس سے پیسے کمانا۔ یعنی کہ وہ خود کو اس جیسی سرگرمی میں لازمی شریک کرتے ہیں، جس سے وہ صحت مند بھی رہتے ہیں اور اُن کی ذہنی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں نوجوان ان چیزوں سے دور ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر فضول بحثوں میں الجھے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر فیک آئی ڈیز پر اپنے لیے لائف پارٹنر ڈھونڈنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے لیے کوئی دوسری سرگرمی نہیں ہے، جس میں وہ خود کو مصروف رکھیں۔

دو دہائیاں قبل اسکولوں اور کالجوں میں ہر مہینے کے آخر ی ہفتے میں بزم ادب کا انعقاد کیا جاتا تھا، جس میں تمام طلبا پرلازم ہوتا تھا کہ وہ ان پروگراموں میں حصہ لیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ ہم نے خود ہر بزم ادب کے پروگرام میں حصہ لیا، ابتدا ہم نے لطائف سنانے اور اقوال زریں سنانے سے کی تھی، پھر ڈِبیٹ تک پہنچ گئے اور ہوتے ہوتے کالج میں گئے تو کمپیرنگ تک پہنچ گئے۔ اس دوران ایک خواعتمادی تھی وہ حاصل کرلی۔ آج ہمارے طالب علم ہوٹنگ تو کرسکتے ہیں مگر اسٹیج پر کھڑے ہوکر ان کی گھگی بندھ جاتی ہے۔

یہ صرف نوجوانوں کا نہیں ہمارے پی ایچ ڈی اساتذہ کا بھی یہی احوال ہے۔ کیوں کہ انھوں نے صرف پڑھا ہوتا ہے باقی ہر ایکٹیویٹی سے خود کو دور رکھا ہوتا ہے۔

حکومت کو اسکولوں میں بزم ادب جیسے پروگراموں کو رائج کرنا چاہیے کیوں کہ باقی چیزوں پر رقم خرچ کی جاتی ہے مگر یہ یہ پہلو محکمہ تعلیم سے کیوں چھوٹ گیا ہے۔ اس کے لیے ویسے ہی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، جس طرح اسپورٹس ویک منائے جاتے ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے میگا چیلنج اوریوتھ کارنیوال منعقد کرنے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ گزشتہ سال کے کامیاب میگا چیلنج کے بعد، امسال اس میں مزید بہتری لانے کے لیے یوتھ کارنیوال کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا، جس میں صوبے بھر کی یونیورسٹیوں سمیت کالجوں میں پروگرام منعقد کیے گئے۔ طلبا اور طالبات کے تیس مختلف کیٹگریوں کے لیے آڈیشن لیے گئے۔ جس میں اسٹوڈنٹس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہر تعلیمی ادارے میں دو سو سے لے کر تین سو تک طلبا کی موجودی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ان طلبا کومواقع فراہم کیے جائیں تو یہ ان مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق، جس ادارے کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے اس کے رکن سید فرقان شاہ کا، اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم نے مجموعی طور پر پچیس ہزار تک طلبا کا آڈیشن لیا ہے۔ جس میں طالبات بھی شامل تھیں۔ اب فائنل آڈیشن ہوں گے جس کے بعد دسمبر میں مقابلے ہوں گے، جس کے لیے نوجوان ابھی سے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ امید ہے کہ ایسی سرگرمیوں سے طلبا و طالبات میں خو اعتمادی پیدا ہوگی اوران میں کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).