اسلامی علوم اور نصاب!


”ارے مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا“ ڈاکٹر صاحب نے کہا
” جی فرمائیے“ مفتی صاحب نے پوچھا
”ٹرانس پلانٹ کے سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ ” ڈاکٹر نے سوال کیا
” جی یہ ٹرانس پلانٹ کیا ہوتا ہے؟ “ مفتی صاحب کا عجیب سوال

یہ اور ان جیسے مسائل عام ہوچکے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مسائل کے تشفی بخش جوابات بھی تیارکیے جاچکے ہیں۔ لیکن ان جوابات کا دائرہ کار بڑے افتاء سینٹرس اور بڑے بڑے مفتیان تک ہی محدود ہے اس کی افادیت عام نہیں ہوئی کہ ہر گلی نکڑ کے مفتی صاحب اس کا جواب دے سکیں۔

نصاب تعلیم کی تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اور نصاب تعلیم کیوں چینج کیا جائے؟ کیا صرف اسلامی تعلیمات ہی اصل علم ہیں؟ کیا آپ دیگر علوم کو بھی اسلامی تعلیمات میں شمار کرانا چاہتے ہیں؟ آپ مدارس کے اندر تجدد پسندی کا بیج بونا چاہتے ہیں؟

جب جب نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات سامنے آتی ہے تو یہ سوالات جنم لینے شروع ہوجاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر بھی یہی سوالات گردش کر رہے ہیں۔ نصاب تعلیم پر بحث (جیسا کہ میں نے ایک مضمون میں پڑھا) آج سے نہیں بلکہ ہزار سالوں سے چل رہی ہے۔ نظام الملک طوسی نے جب بغداد میں نظامیہ مدارس کی بنیاد ڈالی تھی تب بھی یہی سوالات کھڑےکیے گئے تھے۔ جب تغلق دور میں طب وغیرہ کو شامل نصاب کیا گیا پھر بھی یہی سوالات تھے۔ جب درس نظامی کی ترتیب سامنے آئی تب بھی یہی سوالات کھڑے کیے گئے۔ یہاں تک کہ جب علامہ شبلی نعمانی اور ان کے جانثار رفقاء ندوة العلماء کا نصاب طے کر رہے تھے اس وقت بھی یہی مخالفت سامنے آئی۔

اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس کا جواب ہر عالم دین یہی دیگا کہ اسلامی تعلیمات صرف اور صرف قرآن اور حدیث کا مجموعہ ہیں۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ مدارس میں نحو۔ صرف۔ فقہ۔ منطق۔ فلسفہ۔ ادب۔ بلاغت۔ وغیرہ کس مرض کی دوا ہیں؟ تو یہی جواب ہوگا کہ یہ علوم توابع ہیں۔ ان کے ذریعے اصل علوم کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

جب غیر عربی داں طبقہ کو قران سمجھنے کی نوبت آئی تو نحو و صرف وجود میں آئے جب اسلام کو سمجھانے کی بات آئی تو فقہ کا وجود ہوا۔ جب عقائد کو عقلی طور پر سمجھنے کی بات آئی تو علم کلام کا وجود ہوا۔ اور جب فلسفے کے ذریعہ اسلام پر حملے ہوئے تو علماء کرام نے فلسفے کو ہی ہتھیار بناکر اسلام کا دفاع کیا۔ اور آج ان علوم کو اسلامی علوم کا درجہ دیا جاتا ہے۔

اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی باتیں تو بعد کی ہیں سب سے پہلے تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ علوم کو کس بنیاد پر اسلامی و غیر اسلامی میں تقسیم کیا جائے۔ اس کے لئے ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنی پڑیگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب غیر اقوام سے واسطہ پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان اقوام کی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ آج مسلمانوں کے مدارس میں دوسری زبانوں کے نام پر صرف انگلش کی چند کتابیں داخل نصاب ہیں بلکہ اکثریت اس سے بھی محروم ہیں۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا کہ بہت سی اقوام انگلش سے نفرت کرتی ہیں اور اپنی مادری زبان پر فخر کرتی ہیں۔ اگر ہمیں ان اقوام میں دین اسلام کی تعلیمات پھیلانی ہوں تو ہمارے فارغین مدارس کیا کر سکیں گے؟ بات چل رہی تھی اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی۔ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرمودات کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا جو طب سے متعلق ہیں؟ سوالات تو بہت سے ہیں لیکن ہمیں اسلامی اور غیر اسلامی کی تاریخ پر غور کرنا ہوگا۔ تو اس سلسلے میں موجودہ دور کے ایک مفکر راشد شاز صاحب (ان کے مفکر ہونے پر آپ اشکالات کر سکتے ہیں لیکن اس مضمون پر نہیں) اپنی کتاب ”کتاب العروج“ میں رقمطراز ہیں کہ: ”اسلامی اور غیر اسلامی علوم کا فرق سب سے پہلے عبد اللہ الخوارزمی نے (چوتھی صدی میں) اپنی کتاب میں ذکر کیا۔ اس سے پہلے اس چیز کا کوئی تصور مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا تھا“

یہ رہی بات اسلامی و غیر اسلامی علوم کی۔ اب موجودہ دور میں جو اشکالات کیے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا اشکال یہ ہوتا ہے کہ مدارس کا مقصد ڈاکٹر انجینئر پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ دین کا عالم پیدا کرنا ہے آپ لوگ مدارس میں تجدد پسندی لانا چاہتے ہیں؟ ؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ مدارس کا مقصد واقعی میں دین کا عالم پیدا کرنا ہے۔ لیکن ہم مدارس میں اس حد تک تجدد پسندی لانا چاہتے ہیں کہ وہاں کا عالم زمانے سے نابلد نہ ہو۔ جو مسائل اس کے سامنے آئیں اس سے کبیدہ خاطر نہ ہو۔ بلکہ مسکراتا ہوا سینہ تان کر جواب دے سکے کہ یہ مسئلہ اس طرح ہونا چاہیے اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو رائج علوم کی معلومات ہو۔ اس کو انٹرنیٹ کا علم ہو۔ تاکہ دنیا کا سامنا دنیا میں رہنے والے انسان کی طرح کر سکے۔ جب بازار میں نکلے تو لوگ اسے خلائی مخلوق نہ سمجھیں۔ اسے ’میڈیکل سائنس کا اس قدر علم ہو کہ وہ ٹرانس پلانٹ کے اسلامی احکامات جانتا ہو۔ اسے فلکیات کا اس قدر علم ہو کہ قرآنی آیات سے ان کی مناسبت بتا کر اسلام کو سچا دین ثابت کرنے کی سعی کرسکے‘ وغیرہ

نصاب تعلیم کی جب جب بات کی جائے گی تو ندوی فارغین کے قلم سے ندوة العلماء کا تذکرہ ضرور آئے گا۔ ندوة العلماء کے قیام کے مقاصد میں ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ ”نصاب تعلیم میں تبدیلی اور نصاب تعلیم کو زمانے سے ہم آہنگ کرنا“۔ لیکن آج افسوس کی بات یہ ہے کہ ندوة العلماء کی طرف سے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہے۔

ندوة العلماء کا تذکرہ تو ضمنی تھا آج پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا نصاب تعلیم قابل تنقید ہے مدارس پر عصریات کے انخلاء کا الزام لگتا ہے اور یونیورسٹی کے افراد اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں اسلامیات نصاب تعلیم میں داخل ہے۔ یہ دعوی بھی نہایت کھوکھلا ہے۔ اسلامیات کے سلسلے میں ایک واقعہ ذکر کرتا چلوں : ((جامعہ ہمدرد میں داخلے سے قبل میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے میں معاشیات کو مین سبجیکٹ کے طور پر پسند کیا تھا۔ اور سبسیڈری میں تاریخ اور عربی کو چنا تھا۔ تاریخ کے سلسلے میں اسلامی تاریخ کی ٹیچر ایک لیڈی تھیں جو اسلامی تاریخ کے اولین دور کو صرف قرآن اور دور جاہلیت کے اشعار وغیرہ کا نچوڑ بتا رہی تھیں اور حدیث کو غیر ضروری۔ اور دوسری طرف عربوں کے قول ”فخر الامم“ کو ”فخر ال امام“ کے طور پر بول رہیں تھیں۔ ان استانی صاحبہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ )) یا للعجب!

ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

الغرض۔ نصاب تعلیم کے سلسلے میں ایک طویل مذاکرے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عزیر احمد (فارغ سلفیہ بنارس) متعلم جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا مضمون ”مدارس کے نصاب میں تبدیلی ایک جائزہ“ قابل تحسین سعی ہے۔ اور جاوید احمد صاحب کا تبصرہ (سیاست۔ معیشت اور تعلیم: اپنے قدم نہ اپنی راہ۔ ) قلب کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل مدارس ہوں یا اہل یونیورسٹی ہر ایک کو اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نصاب میں جزوی تبدیلی کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

اہل مدارس کے لئے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں ہر اس علم کا اسلامائزیشن کرلینا چاہیے جسے ہم اسلام کے مفاد میں استعمال کرسکتے ہوں۔ جیسے ہمارے اسلاف نے فلسفہ کے ساتھ کیا۔ ہمیں یہی عمل سائنس کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اور میرا ماننا ہے کہ ہر وہ علم جس سے اسلام کا فائدہ ممکن ہو وہ اسلامی علم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).