چک نمبر 421 گ ب پ کی دانشور پنجایت


چک نمبر 421 گ پ، محلہ بغلول پورہ، یہاں میرا یار گنگو تیلی رہتا ہے۔ لوگ ’چول‘ مارتے ہیں ”تیلی کسے دا نہ بیلی“۔ گنگو جیسا دوست میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ہنس مکھ ایسا کہ ایک بار کسی جنازے میں شریک تھا، چند نوجوانوں نے اسے مارنا شروع کردیا۔ ایک ہی بات کہے جارہے تھے۔ ’’یہ کوئی دانت نکالنے کا موقع ہے؟‘‘ وہ تو شکر تھا وہاں گنگو کا ایک جاننے والا نکل آیا، جس نے انھیں یقین دلایا کہ قدرت نے گنگو کی بتیسی ہی ایسی بنائی ہے، تب جاکر جان چھوٹی۔

کچھ دنوں سے میرے یار کی شکل پر بارہ ضرب بارہ بجے تھے۔ بوتھی (چہرہ) ایسی جیسے کئی ماہ سے نہ دھوئی ہو۔ میں نے پوچھا۔ ’’ملنگوں والا حلیہ کیوں بنا رکھا ہے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’کیا بتاوں، ابے (باپ) نے زندگی عذاب کردی ہے، آج کل لوگ اسے پنچایت میں نہیں بلواتے مگر اس کے سر سے سرپنچ کا بھوت اتر کر نہیں دے رہا۔ ذرا ذرا سی بات پرگھر ہی میں پنچایت بٹھا لیتا ہے۔ الٹے سیدھے حکم جاری کرتا ہے۔ تین دن پہلے اماں کو سخت سردی میں رات بھر گھر سے باہر کھڑے کیے رکھا، کہنے لگا ہانڈی میں گرم مسالا زیادہ کیوں ڈالا ہے؟ اماں نے قسمیں کھائیں کہ گھر میں تو مسالا ہے ہی نہیں، ڈالنے کا کیا سوال؟ لیکن ابا یہی کہتا رہا کہ پھر اس کے منہ سے مسالے کی بو کیوں آرہی ہے؟

نکی (چھوٹی بہن) تک کو نہیں بخشا، اسے تین روز تک پورے محلے کے برتن دھونے کی سزا سنائی ہے، کہتا ہے، بکری دودھ میں مینگنیاں زیادہ ڈالنے لگی ہے اور اس کی وجہ ہے، نکی۔ کیوں کہ وہ سارا دن اس کے منہ میں کچھ نہ کچھ ٹھونستی رہتی ہے، نہ بکری کھانا کھائے گی نہ دودھ خراب کرے گی۔‘‘

میں نے حیرانی سے پوچھا، ’’مگر تیرے ابا کے فیصلے تو دس گاوں میں مشہور تھے، پھر پنچایت کا کام کیوں بند ہو گیا؟‘‘۔

گنگو نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔ ’’چند دن پہلے سیانو ( منگو تیلی کے کھوتے کا نام) مرگیا ہے، تمھیں پتا ہے ابا کے تمام فیصلوں کا دارومدار اسی ’’سیانو‘‘ ہی پر تو تھا۔‘‘

سیانو والی پریشانی واقعی جائز تھی، سیانو کے بارے میں بتاتا چلوں کہ گنگو تیلی کے باپ نے ریاض کمھار کو ادھار پیسے دیے تھے، لیکن وہ واپس نہیں کر پارہا تھا۔ گنگو کا ابا ایک دن ریاض کمھار کا گدھا کھول لایا۔ چند روز بعد ہی بغلول محلے کے اس تیلی خاندان پر انکشاف ہوا کہ یہ کھوتا غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ کیوں کہ بڑے حیران کن اور ناقابل یقین واقعات ہونے لگے تھے۔ ایک بار گنگو کا ابا، اسے باہر کھیتوں میں چرارہا تھا، قریب ہی گنے کا کھیت تھا۔ منگو تیلی کو چوری کرنے کی سوجھی، جیسے ہی اس نے گنا توڑا، گدھا دوڑتا ہوا آیا اور منگو تیلی کے کولھوں پر دولتی رسید کردی۔

ایک اور دل چسپ واقعہ سنیں۔ ایک دن گنگو نے اپنی اماں کے تکیے کے نیچے سے پانچ سو روپے کا نوٹ چرایا اور میلے میں جا کر کھسروں پر لٹا دیا۔ رات کو اماں نے پیسوں کے بارے میں پوچھا تو صاف مکر گیا۔ ’’نہیں اماں قسم لے لے، مجھے نہیں پتا‘‘۔ بس یہ کہنا تھا کہ سیانو نے رسی تڑوائی اور گنگو کی ریڑھ کی ہڈی کے آخری مہرے پر دولتی ٹکا دی۔ گنگو کی ماں اسے ایک مہینے تک گرم ریت کی ٹکور کرتی رہی تھی۔ اس دن کے بعد گنگو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

جب ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگے تو تیلی خاندان سمجھ گیا یہ کوئی عام کھوتا نہیں، تب انھوں نے اس کا نام ’’سیانو‘‘ رکھ دیا۔ اب گاوں ہی نہیں پورے علاقے میں سیانو کی ذہانت کے چرچے تھے۔ شروع شروع میں لوگ منگو تیلی اور اس کے سیانو کو پنچایت میں ممبر کی حیثیت سے بٹھانے لگے، لیکن پھر جلد ہی منگو تیلی کو پنچایت کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ظاہر ہے ’’سیانو‘‘ کا مالک ہونے کے ناتے سے سرپنچ بننے کا زیادہ حق بھی منگو ہی کا بنتا تھا۔ منگو نے سرپنچ بنتے ہی پہلا پہلا کام یہ کیا، کہ گاوں میں وٹے سٹے کی شادی پر پابندی لگادی۔ حالاں کہ گنگو نے مجھے بتایا تھا، اس کے ابا نے ایک نہیں دو شادیاں کی تھیں اور دونوں وٹے سٹے کی تھیں۔

سیانو کے فیصلے کرنے کا طریقہ کار بڑا دل چسپ تھا۔ پنچایت کے دوران وہ مستقل سرپنچ کے برابر میں کھڑا دُم ہلاتا رہتا۔ جیسے ہی کوئی غلط بات یا کسی سے ناانصافی ہوتی محسوس کرتا، ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگتا۔ اگر اسے فیصلے سے اختلاف ہوتا تو سیانو پچھلی ایک ٹانگ کو آہستہ آہستہ اوپر اٹھاتا، پھر اسے پوری قوت سے اکڑا لیتا۔ جس کا صاف مطلب ہوتا، فیصلہ بدل لو ورنہ دولتی پڑنے والی ہے۔ گنگو کے ابا کو دو سال میں صرف ایک بار ہی دولتی کھانا پڑی تھی۔

چلیں اس دولتی کے بارے میں بھی سن ہی لیں، ہوا یوں کہ رمضان موچی نے الزام لگایا کہ اس کے گوانڈی (ہم سایہ) شیدے ماچھی کے لڑکے، اس کی دیسی مرغیاں پکا کر کھا گئے ہیں، لیکن شیدے کے لڑکے مان کے نہیں دے رہے تھے۔ پنچایت بیٹھی تو شیدے کے لڑکوں نے نمبردار کے لڑکوں پر الزام لگا دیا مگر منگو تیلی کے لیے نمبردار کے لڑکوں سے پوچھ گچھ کرنا آسان نہیں تھا۔ جیسے ہی منگو نے شیدے ماچھی کے لڑکوں کو سو چھتروں کی سزا سنائی سیانو نے اتنی تیزی سے منگو کو دولتی جڑی کہ اسے اپنا فیصلہ بدلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔

سیانو کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ایک تازہ واقعہ بھی سن لیں، جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ غلام رسول آرائیں پر الزام لگا کہ اس نے اپنے کتے کو اس بری طرح سے مارا کہ وہ ساری رات چاؤں چاؤں کرتا رہا۔ بغلول پورہ محلے کے لوگ رات بھر سکون سے سو نہ پائے تھے۔ چک گ پ 421 میں جانوروں پر تشدد ناقابل معافی جرم تھا، کم از کم چک کا ماڑا (غریب) بندہ تو سزا سے کسی صورت نہیں بچ سکتا تھا۔ یہ بات یقینی تھی کہ غلام رسول آرائیں کو سزا ہو کر رہے گی۔

گنگو کا ابا جب پنچایت میں آیا تواسے دیکھ کر مجھے خاصی حیرانی ہوئی۔ سر پر ایک پرانے طرز کی وِگ رکھے، نفیس سا چشمہ لگائے اورصاف ستھرا گاون پہنے وہ واقعی بہت سلجھا، زمانہ شناس اور پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ میں نے گنگو سے پوچھا۔ ’’یہ تیرے ابے نے کیا سوانگ رچا رکھا ہے؟‘‘ بولا، ’’ابا ایک بار بطور گواہ عدالت میں پیش ہوا تھا، اسے ایک جج صاحب کا گیٹ اپ اتنا پسند آیا کہ وہ پنچایت کے دوران خود کو جج سمجھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔‘‘

پنچایت شروع ہوئی تو گنگوکے ابا نے کہا، علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

شعر سنانا تھا کہ سیانو اونچی اونچی آواز میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگا۔ جب کسی نے توجہ نہ دی تو کچھ دیر بعد خود ہی چپ ہو گیا۔ اس کے بعد منگو تیلی نے کچھ ناولوں کے حوالے دیے، مغربی دانش وروں کے سنہری اقوال سنائے اور پنچایت کی باقاعدہ کارروائی شروع کردی۔ غلام رسول آرائیں کا موقف تھا کہ اس نے کتے کو ایک ٹھیکری (کنکر) تک نہیں ماری۔ پنچایت نے چک کے ویٹرنری ڈاکٹر کی زیر نگرانی ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اگلے ہفتے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر کے پنچایت برخواست کردی۔ غلام رسول آرائیں نے اعتراض کیا کہ ویٹرنری ڈاکٹر سے اس کا پرانا پھڈا چل رہا ہے۔ وہ اپنے جانوروں کی ویکسی نیشن بھی کسی اور ڈاکٹر سے کراتا ہے، کسی غیرجانب دار شخص کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا جائے، لیکن اس کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ ویٹرنری ڈاکٹر کی شہرت بہت اچھی تھی۔

ایک ہفتے بعد رپورٹ آگئی، یہ تو ثابت نہ ہوا کہ کتے پر تشدد ہوا ہے، لیکن ایک اور چیز غلام رسول کو مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس کے پاس موجود گائے اور ایک بھینسے پر پرانے زخموں کے نشانات ملے تھے مگر سوال یہ تھا کہ کیا اتنا پرانا زخم تشدد کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ غلام رسول کو اس کا قصوروار قرار دیا جائے یا نہیں؟ اس کے لیے اینمیل ڈکشنری سے مدد لی گئی، جس میں لکھا تھا کہ ایک صدی پہلے ہی تشدد کیوں نہ ہوا ہو، تشدد ہی کہلائے گا۔ غلام رسول نے فیصلے سے اختلاف کیا، اس کا موقف تھا کہ اس نے تو یہ جانور صرف ایک سال پہلے خریدے ہیں لیکن وہ خریداری کی رسیدیں پیش کرنے میں ناکام رہا۔ سرپنچ نے فیصلہ سنانا شروع کر دیا، منگو تیلی حسب روایت وقفے وقفے سے سیانو کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن سیانو کا دھیان کہیں اور تھا۔ پنڈولیم کی طرح اس کی مسلسل ہلتی رہنے والی دُم بھی آج بالکل ساکت تھی۔

اب یہ اتفاق تھا یا غلام رسول آرائیں کے کسی دشمن کی سازش کہ پنچایت میں سیانو کا پرانا مالک ریاض کمھار کہیں سے آ دھمکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھہ فٹ لمبا موٹا سا ڈنڈا تھا۔ سیانو کی نظر بار بار اس ڈنڈے پر پڑ رہی تھی، اسے وہ دور یاد آرہا تھا، جب ایک دولتی کے جواب میں اسے بارہ ڈنڈے کھانے پڑتے تھے۔ منگو تیلی جب ان الفاظ پر پہنچا کہ ’’جانوروں پر تشدد کا جرم ثابت ہوا ہے لہذا تین ماہ تک غلام رسول کا حقہ پانی بندہے، کوئی شخص اس سے کسی قسم کا لین دین نہیں کرے گا۔‘‘ منگو نے فیصلے کی تائید کے لیے سیانو کی طرف دیکھا۔

سیانو کی ٹانگ میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی پھر زمین سے ایک دو تین انچ اوپر اٹھی، منگو تیلی ہوشیار ہوگیا، لیکن اگلے ہی لمحے سیانو کی نظر پھر ریاض کمھار کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے پر جا پڑی اورآہستہ آہستہ اس کی ٹانگ زمین پر آلگی۔ سیانواب بالکل پرسکون ہوگیا تھا۔ صاف لگ رہا تھا وہ دولتی کا ارادہ ترک کر چکا ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان کردیا گیا اور ہمیشہ کی طرح منگو تیلی کو پانچ ہزار رُپے اور سیانو کو تین بوریاں چوکھر اور تازہ لوسن (چارے) کے دو گٹھے انعام میں دے دیے گئے۔

میں نے پوچھا، ’’یار گنگو، سیانو تو بالکل صحت مند تھا، پھر اچانک وہ مر کیسے گیا؟‘‘ گنگو روہانسا ہوکر بولا۔

’’کچھ دن پہلے میں اپنے دوست کو ملنے گدھا گاڑی پر قریبی گاوں جارہا تھا، گدھا گاڑی کے پیچھے میں نے لکھوا رکھا تھا، ’ہمت ہے تو پاس کر، نہیں تو برداشت کر‘ کوئی ٹرک ڈرائیور مجھے مسلسل ہارن دے رہا تھا، کم بخت نہ تو مجھے پاس کرسکا اور نہ برداشت۔ سیدھا ٹرک ہم پر چڑھا دیا۔ سیانو تو بے چارہ موقع ہی پر دم توڑ گیا۔ دیکھو! مجھے بھی شدید چوٹیں آئی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر گنگو نے شلوار نیچے کرکے زخم دکھانے کی کوشش کی۔

’’نہیں نہیں، رہنے دے۔‘‘ میں نے منع کردیا۔ ’’مجھے یقین ہے جس شخص کی تربیت گدھے نے کی ہو وہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ میرے الفاظ پر گنگو تیلی کی بتیسی اچانک باہر نکل آئی۔ کہنے لگا۔
’’اوئے کشمیری، ککی کیڑی تو میرے باپ کو گدھا کہہ رہا ہے۔‘‘
میں نے جواب دیا۔ ’’نہیں یار! میں سیانو کی بات کر رہا ہوں، تو اگر جھوٹ بولنے والا ہوتا تو اب تک تیری کوئی ہڈی پسلی سلامت نہ ہوتی۔‘‘

اس بار گنگو اپنی روایتی بتیسی کے ساتھ مسکرایا پھر بولا۔ ’’یار دعا کر میرے باپ کے سر سے آئے دن پنچایت بٹھانے کا بھوت اترجائے ورنہ ہماری زندگی۔‘‘
عین اسی لمحے سامنے سے گنگو کا ابا آتا دکھائی دیا، خوف کے مارے۔ ’’آمین‘‘ کے الفاظ میرے حلق ہی میں اٹک کے رہ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).