شاہد آفریدی۔۔۔ یہاں شراب کے چھینٹے،  وہاں گلاب کے پھول


\"farnood\"بدعت کی آسان تعریف کیا ہے؟ عمار خان ناصر تو گویا بلاغت و ظرافت کی حد کو چھوکر آگئے۔ کہنے لگے ’’دین میں ہر وہ نیا کام جو بریلوی کریں اسے بدعت کہتے ہیں‘‘ غداری کی آسان تعریف کیا ہے؟ اپنے تمام تر تجربے ومشاہدے کے نتیجے میں اب تک جو میں سمجھ پایا ہوں، اس کا نچوڑ یہ ہے کہ ’’ہمدردی کا ہر وہ جذبہ جس کی نسبت ہندوستان کو ہو، اسے غداری کہتے ہیں‘‘

ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب عدنان سمیع خان نے ہندوستان کی شہریت لی تو وہ سارے محب وطن پاکستانی برا مان گئے تھے جو امریکہ برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔ انہیں بھی ناگوار گزرا جنہوں نے امارات اور سعودیہ میں اپنی حرمت وعزت پاسپورٹ سمیت کفیل کے ہاتھ پہ رکھ دی ہے۔ یعنی حب الوطنی اور ملک دشمنی کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ اپنے ملک کی شہریت ترک کردی ہے، پیمانہ یہ ہے کہ آگے کون سے ملک کو سدھارے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس دوہرے معیار کی تائید بھی الہام سے لی جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات وہ واحد مسئلہ ہے جس کے لیے آسمان آج بھی زمین سے ہمکلام ہے۔ جن کے ہاتھوں میں لال قلعے کی چابیاں رکھنے کا وعدہ ہے وہ مرید کے میں پیدا کیے جا چکے۔ وہ بے تاب گھوڑے جناب زید حامد کے اصطبل میں کھڑے ہیں جن کے ٹاپوں کی قسمیں صحیفوں میں اٹھائی گئی ہیں۔ جان وتن فدا ان ٹاپوں سے اٹھتی دھول پر کہ جس میں جب بھی آتا ہے، ہندوستان ہی کا ہی نقشہ ابھر کے آتا ہے۔

ملکتِ ضیا داد پاکستان میں اقتدار کے سنگھاسن پہ خدا کی آخری نشانی قابض تھی۔ ایک پرنور صبح طلوع ہوئی اور ایک صدارتی فرمان جاری ہوا۔ خدائی لہجے میں حضرت ضیا الحق فرما رہے تھے کہ جب تک وزارتِ ثقافت اور کیبنٹ ڈویژن سے اجازت نامہ نہ لے لیا جائے، کوئی بھی فنکار ناچ گانے کے واسطے بیرون ملک نہیں جا سکتا۔ کیوں بھئی؟ کیونکہ ہمارے گلوکار ملک سے باہر پاکستان اور اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ بھئی واہ۔ کہتے ہیں کہ مچھلی کو پانی نظر نہیں آتا اسی لئے جناب ضاالحق صاحب کو ٹھیک سے دکھائی نہیں پڑ تا تھا کہ

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں

اک شخص کے ہاتھوں مدت سے، رسوا ہے وطن دنیا بھر میں۔

رسوائی کے اسی صبح وشام میں استاد غلام علی خان صاحب کو ہندوستان کی سکھ برادری کی طرف سے محفل موسیقی کی دعوت موصول ہوئی۔ استاد صاحب اس وقت کے بیوروکریٹ عکسی مفتی صاحب کے پاس عرضی لے گئے کہ قبلہ چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں، انہی محفلوں کا آسرا سہارا ہے، سرحد پار سے بلاوا آیا ہے، خدارا کچھ کیجیئے۔ عکسی صاحب نے معاملہ سیکریٹری کلچر مسعود نبی نور کی میز کی طرف سرکا دیا۔ مسعود نبی نور صاحب نے سوفیصد یقین دہانی کے ساتھ فائل آگے بڑھادی۔ استاد غلام علی خان مطمئن ہوکر لوٹ گئے۔ یہی کوئی مہینے بعد استاد صاحب کہیں عکسی صاحب کو ٹکرے تو پوچھا، استاد صاحب ہندوستان کا دورہ کیسا رہا پھر؟َ منہ بسورتے ہوئے استاد نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور وزارت ثقافت سے ملنے والا اجازت نامہ عکسی صاحب کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ حیرت انگیز طور پہ یہ اجازت نامہ ہی تھا، جس پر یہ عبارت درج تھی

’’حکومت پاکستان کو استاد غلام علی خان کے ہندوستان جانے پہ کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہاں جاکر وہ گائیں نہیں‘‘۔ (دھت تیری کی)

اس پورے عرصے میں امیرالمونین سیدنا ضیا الحق کے متعلق قدسیوں کے حلقے میں بجا طور  پر یہ گمان رہا کہ بیشک انہیں آلاتِ موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آج بھی اہل دستار تحسین کرتے ہیں کہ خدا کے نائب کے طور پر ستار کے تار ادھیڑ کر ضیا صاحب نے اسلام کو کافی حد تک خطرات سے باہر نکال لیا تھا۔ یہ بات مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ خدا کے اس نائب نے ایک بار ستار کے سارے تار واپس جوڑ کر بھی اسلام کو در پیش خطرات ٹال دیئے تھے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ خلیفہ عالی مقام بیلجیم کے دورے پہ تھے۔ یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ جہاں جائیے وہاں ہندوستان کے ستار نواز جناب روی شنکر صاحب کے چرچے ہیں۔ کوئی پوسٹر ان کے ہو جانے والے کنسرٹ کی خبر دے رہا ہے تو کوئی پوسٹر ان کے آنے والے کنسرٹ کا پتہ دے رہا ہے۔ رات کی تنہائیوں میں ہی انہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر ہندوستان ایک ستار کی وجہ سے باہر کی دنیا میں اتنا نام کما سکتا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کیوں پیچھے رہ گیا ہے؟ ہم سعودیہ سے پیچھے رہیں تو چلو بات سمجھ آتی ہے کہ آخر وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، یہ ہندوستان سے کیونکر پیچھے رہا جائے۔ ظل سبحانی واپس لوٹے تو بارگاہ میں سر جھکائے مشیروں کو پہلا حکم یہ جاری کیا کہ مجھے تاریخ بدلنے سے پہلے پہلے بتایا جائے اس ملک میں کوئی ڈھنگ کا ستار نواز بھی ہے کہ نہیں؟ مشیر اندر خانہ فاسق ہی واقع ہوئے تھے اس لیے تحقیق کی نوبت نہیں آئی۔ موقع پر ہی ایک باذوق مشیر نے جان کی امان لیتے ہوئے کہا عالم پناہ ! ہمارے استاد شریف خاں پونچھ والے اور استاد فتح علی خان اس درجے کے ستار نواز ہیں کہ ایمان مجمل اور ایمانِ مفصل دونوں ہی عش عش کر اٹھیں۔ شہنشاہ مکرم نے جلال میں ایک صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا ۔ آپ بھی پڑھیئے ’

’پاکستان میں ستار بجانے کی مہارت میں روز بروز کمی آرہی ہے۔ ہمارے اعلی ترین ستار نواز ملک سے باہر اپنی کوئی پہچان نہیں رکھتے۔ فوری اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ستار کے فن کو فروغ دیا جاسکے‘‘

یہاں فرمان جاری ہوا اور وہاں ادارہِ ثقافت کے تحت ’’ڈائیریکٹوریٹ آف ستار بجاؤ’’ کا محکمہ وجود میں آگیا۔ (سبحان تیری قدرت) سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہندوستان جانا نہ ہوتا تو کیا استاد غلام علی خان کو مشروط این او سی جاری کیا جاتا؟ اگر روی شنکر صاحب کا تعلق ہندوستان سے نہ ہوتا تو کیا خلیفہ کے دل میں ستار کے لیے کوئی اہمیت پیدا ہوپاتی؟ کمال ہی کہیئے کہ جس موسیقی سے ہندوستان میں اسلام کو خطرات لاحق ہورہے ہیں، اسی موسیقی سے بیلجیم میں اسلام کی ’’سُربلندی‘‘ ہورہی ہے۔ آپ ایک کام کریں، کچھ دیر کے لیےشاہد خان آفریدی کے بیان میں انڈیا کی جگہ برطانیہ یا امریکہ لگا کر دیکھیں۔ کچھ محسوس ہوا؟ نہیں؟ سعودیہ لگا کر دیکھیں۔ اب کچھ محسوس ہوا؟ اب بھی نہیں؟ اچھا ایران لگا کر دیکھنا ذرا۔ اب بھی نہیں؟ چلیں واپس انڈیا لگا کر دیکھیں۔ کیا ہوا، بڑھ گیا نا فشارِ خون؟ یہ شربتِ بوٹ سیاہ بھی کمال مشروب ہے بھئی، جو وہاں پیو توحلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments