شہر اقتدار میں دائیں اور بائیں بازو کی چھل بل


”مظاہرہ“ لغت میں مثبت مفہوم رکھتے ہوئے بھی اب ویسا جمالیاتی لفظ نہیں رہا۔

کم ہیں جو اسے اِظْہار، نُمائِش، یا آرائش کے معنوں میں برتتے ہیں۔ اگرچہ قوت مجتمع کر کے مرتب شدہ شکل میں سامنے لانا بھی ’مظاہرہ‘ ہی ہے جیسے کہ فضائی مظاہرہ، جنسی مظاہرہ۔ ۔ مگر تیسری دنیا کا المیہ کہیے کہ یہاں زیادہ تر ‘احتجاجی مظاہرہ ’ ہی پڑھنے، دیکھنے، سننے بلکہ بھگتنے کو ملتا ہے۔
رومان پسند وں کو ایسے مظاہروں کے بجائے حسن کے مظاہر پہ سوچنا، پڑھنا اور لکھنا زیادہ خوبصورت کام دکھائی دیتا ہے مگر دنیا بدقسمتی سے اتنی خوبصورت ہے نہیں ہے۔
لوگ تنگ ہیں۔

تنگ نظری تو خیر ریاستی پہریداروں نے جنی اور تنگ دامنی نظام ہوس نے۔ تشنگی اور محرومی سے عوامی دامن تنگ ہو تو انہیں دامن تر تر محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں جو چشمہ صفا دکھائی دے، چشمۂ آب حیات دکھائی دیتا ہے۔ اپنے اپنے ان سرچشموں کی مقدس تصویریں گھر میں سجا لینے کے بجائے، سرپھرے اگرایسے پنسالی چشمہ میں پیراکی کا مطالبہ بلکہ مقابلہ کی کوشش شروع کر دیں تو ایسا مظاہرہ ‘ تحریکی مظاہرہ ’ بن جاتا ہے۔

شہر میں، کب مطالباتی اجتماع نہیں ہوتے کہ ابھی عرض کیا ؛ لوگ روز مرہ مسائل کے ہاتھوں تنگ ہیں تاہم ایسے مظاہرے جو ذاتی مفاد کے بجائے، بادی النظر میں، کسی اجتماعی خواب، سوچ اور کسی تصور، آدرش، نظام کے لیے برپا ہوں، ‘نظریاتی مظاہرے’ کہلاتے ہیں اور اہل دل کے لئے یہ قابل توجہ ہوتے ہیں۔

رہائشی قسم کے ایسے ہی دو مختلف مظاہرے ایک ہی شہر میں، ایک ہی وقت پرسجائے گئے بلکہ ایک تو اب تک ‘سجا ہے ’
( ‘بپا ہے ’ کہنا شاید زیادہ مناسب ہے)

آپ اسے دائیں اور بائیں بازو کا علامتی دھمال بھی کہہ سکتے ہیں جو ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر میں اپنے اپنے دربار مزار میں ڈالا گیا۔ مسافر کی مراد دو نسبتاً نئی سیاسی جماعتوں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے رہائشی جلسوں سے ہے۔

ٹراٹسکی سوشلسٹوں کی متحرک سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کا دو روزہ فکری مظاہرہ (11۔ 12 نومبر ) ہو یا تحریک لبیک کے کارکنان کا چار روزہ (تاحال جاری ) احتجاجی مظاہرہ۔ ’آگ پانی‘ ایک جملے میں باندھ دینے کی وجہ کٹر نظریات پر صنعت تضاد استعمال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ہی وقت میں، ایک ہی شہر میں، ملک بھر سے جمع ہونے والے دو نظریوں کے چند سو افراد کا رہائشی اکٹھ محض آرائش خم کاکل نہیں، اہل فکر کے لیے یہ اندیشہ ہائے دوردراز ہے۔

تیزی سے بدلتی دنیا میں خواب دیکھتے دکھاتے دو تاریخی نظریات کے پیروکاروں کی استقبالیہ حکمت عملی کی ایک معمولی مگر غیر معمولی جھلک!
روس میں عوامی انقلاب کا سو سالہ جشن منانے والی جماعت نے عوامی مظاہرہ کے بجائے چار دیواری میں ایک فکری اجتماع منعقد کیا جبکہ چودہ سو سالہ جشن منانے والی جماعت نے آئین پاکستان کے مذہبی پہلوؤں کو خطرے میں ‘بتا’ کر باقاعدہ مذاکرات و مطالبات سے پہلےوزیر قانون کی برطرفی اپنا یک نکاتی ایجنڈا بتایا۔

سردست، ہم ہر دو نظام ہائے فکر کے تنقیدی موازنے کے بجائے ان دو متضاد فکر سیاسی جماعتوں کے اظہاری لائحہ عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے لیے دونوں اقامتی جلسوں میں کٹرنظریات کے قابل عمل امکانات و آثار کی بحث کے بجائے ان متضاد رو کارکنان کی واحد مشترک خصوصیت کا تذکرہ دلچسپ رہے گا جو مشقتی انجذاب ہے۔ شخصیت کا مجاہدانہ پہلو ہے۔ بلا شبہ سرد موسم میں، دور دراز کےسفر و حضر کے باوجودامن سلامتی کےمظہربننے کے لیے مشقتی ریاضت کے اوصاف چاہئیں۔

آپ معترض ہو سکتے ہیں کہ ایسے تو سب سے زیادہ مشقت خود کش حملہ آور جھیلتا ہے۔
خودکش حملہ آور اجتماع انسانی کی فلاح کے کسی خواب ناک نظریہ کی خاطر یہ ’مظاہرہ‘ نہیں کرتا۔ وہ تواس دنیا سے ہی بدظن ہو کر ایک اورتصوراتی دنیا کو خواب ‘آلود’ بناتا ہے اور وہ بھی محض اپنے لیے۔

ہاں! اس بدنصیب کو اس تصوراتی جہان تک پہنچانے میں کون سا نظریہ زیادہ معاون اور سازگار ٹھہرتا ہے، اس کا جواب ہمیں دو مختلف نظریات کے تہذیبی و سماجی اثرات کی کج بحثی میں لے جا سکتا ہے جب کہ ہمارا موضوع دو متضاد نظریات کی دعویدار جماعتوں کا طرز پیغام ہے، ان کا اظہار و ابلاغ ہے۔

اگرچہ ابتدا میں ہی دو مقدس نظریات کے نمائندوں میں سے ایک پر یہ تنقید کرکےگفتگو کا راستہ بند کیا جاسکتا ہے کہ جو خود راستے بند کر کے راستے کشادہ کرنے والی ہستی ؐ کا ورد کر یں، ان کا کیا نظریہ۔ مگر کچھ ستم ظریف اس کے جواب میں جشن مناتے کامریڈز کے اس نعرہ پہ بھی خندہ زن ہو سکتے ہیں جو پریس کلب کےدو سو مربع گز ہال میں لگایا جا رہا تھا۔ ‘سرخ ہے، سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے۔ ’

دائیں بازو کے مذہبی ترجمانوں کا جلسہ سر رہگزار بپا ہوا کہ جسے آئینی قانونی اختلافات پر مدلل اعتراضات و تجاویز کے ساتھ، زیادہ مناسب تھا کہ کسی پریس کلب میں منعقد کیا جاتا اور بائیں بازو کا پروگرام جو معروف معنوں میں جلسہ بھی نہیں کہلا سکتا کہ بہ شکل سیمینار پریس کلب میں جھنڈے گاڑ کے برپا کیا گیا حالانکہ محنت کش عوام سے خطاب ہو یا انقلابی موسیقی و تھیٹر، اسے سر رہ گزار ہی سجنا چاہیے تھا۔

دونوں بہرحال نظریاتی مظاہرے تھے کہ ایک خاص نظام کے مظاہر، ثمرات اور مطالبات کے لیے جمع ہوئے، ایک اور لبیک ہوئے۔

کسی نظریہ کی محبت میں بلا اشتعال دن رات رستے میں بیٹھنا ہو یا تربیت گاہوں کے پیچیدہ مباحث میں، مشکل ہے۔ سو ہم اس تحریر میں دونوں نظریاتی پیروکاروں کو ایک زندہ حقیقت تسلیم کر لیتے ہیں یعنی پہلے دبستان کے مطابق خاتم النبین ؐ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کی کوشش ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے اور دبستان دوم کے نظریہ کے مطابق نجی ملکیت ہی مذہبی، جنسی، صنفی، قومی، قومیتی بلکہ تمام مادی مسائل کی جڑ ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اپنے اپنے مکتب کے میر کارواں نے مخصوص نظریات کس بلندیٔ نگہ اور سخن دلنوازی سے سامنے رکھے کہ جاں پرسوزی کا اعزاز تو بہرطور، کارکنان نے لے ہی رکھا تھا کہ ہر دو کا رکنان کا رویہ مختلف ضرور رہا مگر متضاد نہیں۔

خدشات کے سبب انتظامیہ نے جسے جہاں روکا، وہ کم و بیش وہیں رکا۔ ایک اور سیاسی جماعت کی طرح ٹی وی سٹیشن پہ حملے نہیں کیے گئے۔ غنیمت ہے کہ عقیدت مشقت میں مدغم ہونے کے باوجود بڑی خوفناک شکل میں نہیں ڈھلی تاہم دونوں اجتماعات کے قائدین، بزرگان اور مقررین کا لہجہ، رویہ، ڈکشن، اسلوبی و فکری رنگ ڈھنگ مختلف ہی نہیں، انتہائی متضاد دکھائی دیے۔

ایک طرف کے مبلغین شرکا کو سمجھا رہے تھے کہ آج ان کے نظریہ کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔ جنس، طبقہ، قومیت، جغرافیہ جیسی تقسیم میں سرمایہ داری کا مقابلہ کن علمی تیکنیکی و ثقافتی پہلوؤں سے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے حکومت ملکی قوانین کی دیکھ بھال کرنے والے وزیر کو ہی فارغ کر دے چہ جائیکہ وہ سوشل میڈیا پر کلمے پڑھ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کر رہا ہو۔

دوم، ایک نظریہ کے مقررین قومیتی مذہبی و جنسی دہشت گردی، ماحولیاتی و صنعتی طوفان، عسکری و حکومتی اخراجات، طلبہ اور ٹریڈ یونینز پر پابندی جیسے مطالبات پر ٹھوس دلائل دے کر ان پمفلٹس اور قراردادوں پر بحث کر رہے تھے جبکہ دوسرے نظریے کے قائدین عقیدت سے مچلتے کارکنان سے نعرہ تو مقدس ہستی کے حاضر ناظر ہونے کا لگواتے ہیں مگر اسی مقدس نظام کے معاشی، سیاسی اور تہذیبی نفاذ کے لیےشق وار متفقہ سفارشات سامنے نہیں لائے جو، ( تفرقہ میں پڑے بغیر )سعودی یا افغانستانی یا ایرانی ماڈل کے ہی قریب تر ہوں۔

تیسرا پہلو نظریہ سے وابستہ کارکنوں کی تربیت ہے۔ چند سو رفیقان بھی اگر معاشی اور شہرتی لالچ سے ہٹ کر نظریہ بانوں کے ساتھ چل پڑیں تو کیا شب و روز کی اس یادگار رفاقت میں کارکنان کی فکری تربیت اور اپنے نظریہ کی ترویج پر بحث کوعمومی پیرائے میں کھولنا قائدین کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہوتی۔

ایک دبستان کے ہاں تو دانشور قائدین سے لے کر نوجوان کارکنان تک نے ایسے پیچیدہ مباحثوں مکالموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ یاد رہ جانے والے زیر بحث چند موضوعات کا نام کچھ یوں ہیں۔
[] مذہب، جنس، قومیت اور ہمارا سماج
[] عہد جدید کے مسائل کے تناظر میں انقلاب روس کا مطالعہ
[] ‘داس کیپیٹل’ اکیسویں صدی میں بھی کارآمد ہے؟

جبکہ تحریک لبیک کے قائدین نے اپنے اس سفر میں سینکڑوں کارکنان کی دستیابی پر کن فکری پہلوؤں پہ توجہ دی، تمام تر ویڈیوز دیکھنے کے باوجود واضح نہ ہو سکا۔ بلاشبہ جوشیلی تقاریر، فضائل اعمال اور ہدیہ تبریک سے زیادہ عقیدت اور سرور کہاں مل سکتا ہے مگر کیا اس سب سے عہد نو کی مسلسل تیر اندازیوں کا شکار یہ نظریہ اپنے لیے وقیع اور پروقار شاہراہ کو کھول سکا ہے؟ کھول سکتا ہے؟

اس نظریہ کے قابل احترام دوست اپنی مجلس میں سماجی، ثقافتی اور سیاسی موضوعات کی جھلک نہ ہونے کا انتہائی مختصر اور موثر جواز کلمہ طیبہ پڑھ کر بھی دے سکتے ہیں کہ ہمارا سارانظریہ اسی میں موجود ہے اور یہ کہ ہمیں اس کی وضاحت و ابلاغ کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر کیا ان کا بیان کردہ یک کلماتی نظریہ اس وقت دنیا میں مروج ہے؟ مقبول ہے؟ مؤثر ہے؟ ممتاز ہے؟

اگر تحریک لبیک کا مطمع نظر ‘نظریہ’ دنیا بھر میں مشکلات سے دوچار ہے تو کیا تحریکی قائدین نے اس پر سنجیدگی سے خطاب کیا کہ اس نظریہ کے پیروکار دنیا بھر میں دکھ، آلام، غربت، جہالت اور جائے پناہ تک کی تلاش و آزمائش میں کیوں بھٹک رہے ہیں؟

دنیا کو چھوڑ بھی دیں، اس نظریہ پہ ایمان رکھنے والے پچانوے فیصدی شہریوں کے ملک پاکستان میں ستر ہزار افراد اسی نظریہ کی ہی غلط صحیح تعبیرپر جان سے مارے گئے۔

علامہ صاحب نے اس پر کوئی ریلی نکالی ہو؟
اگر ان کے بقول اس عظیم جانی نقصان کی وجہ ان کا نظریہ نہیں، عالمی دہشت گردی ہے تو مریدین کے ہمراہ اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ہی کوئی یاداشت پیش کی ہو؟
دوسری طرف کے نظریہ فشانوں نے توپنپتی دہشت گردی کے محرکات میں عالمی سامراج کے ساتھ اپنی ہی فوج تک پہ تعمیری تنقید کرتے ہوئے ٹھوس تحریری سفارشات پیش کیں۔ خیبر پختونخوا میں ایک لڑکی کو برہنہ کرنے پر زبانی کلامی مذمت نہیں ہوئی۔ بلکہ اس پدرشاہی سوچ پر جم کے گفتگو ہوئی، لیکچر ہوئے، قراردادیں پیش ہوئیں۔
تعلیمی نا انصافی پر ’مظاہرہ‘ کرنے والے انقلابی نوجوان مشال خان کو مذہبی توہین کے نام پر ڈنڈوں لاٹھیوں سے جس طرح تڑپا تڑپا کے مارا گیا، سیمینار میں اس ظلم اور انصاف نہ ملنے پر خصوصی پرفارمنس ہوئی جسے ‘ثقافتی مظاہرہ ’ بھی کہا جا سکتا ہے۔

حبیب جالبؔ کے کلام ‘ظلم رہے اور امن بھی ہو، تم خود بولو یہ ممکن ہے ’ پر ایک کلاسیکل فنکارہ ملا گردی کے شدید خوف کے باوجود سٹیج پہ آئی اور اس گیت پہ ایسا دلسوز رقص کیا کہ اس کے بازو، پاؤں، ہاتھ، پوریں، آنکھیں۔ سراپا بدن دکھ، ظلم، تاریکی، کرب، اذیت اور فریاد میں ڈھل گیا اور چند منٹ کا یہ رقص مشال کی روح کا عکس بن گیا جو سٹیج پہ تڑپتے ہوئے اپنے بے گناہ قتل پہ احتجاج کرتی دکھائی دی۔

دوسری طرف سماج میں ظلم و استحصال پر روایتی انداز میں ہی سہی، کوئی قرارداد تک سامنے نہیں آئی۔

بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف مساویانہ دنیا کے خواب دکھاتے قائدین کے ہر مکالمہ کے بعد شرکا نے دل کھول کے کڑے سوال جواب کیے جبکہ دوسری طرف علامہ اپنی گفتگو میں ‘توجہ! خاموشی! چپ! ’ جیسے تکیہ کلام سے مدد لیتے دکھائی دیے۔

ایک ایسا معاشرے میں کہ جس کا نظام اخلاق مکمل مذہبیات پہ کھڑا ہو اور اس نظریہ کے متحرک دعویدار عقیدت مندوں کے ساتھ شہر اقتدار کے مرکزی ستون تک پہنچ جائیں مگر گفتگو میں جذباتیت اور عقیدت تو موجزن ملے، استدلال اور اعتدال نہ ہو، جبکہ دوسرے نظریہ کے پیروکار اپنی تعلیمات کو حرف آخر کہنا چھوڑ کر یہ تسلیم کریں کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور اکیسویں صدی کی ایجادات و مزاج نے تھیوریز کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ ہاتھوں میں قلم کتاب اٹھا کر یہ عہد کریں کہ ہم اس بدلتے سماج میں اسی بنیادی فکر کو پہلو بدل کر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو فریق دوم کو وہ یہ شعری پیغام بھی دے رہے ہیں

میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).