جھنگ کی معصوم مرودہ: جب بھائی ولی بن جاتا ہے


وردہ کے بھا ئی نے اپنی بہن کو گولی ماری ہے ، وہ اس کا ولی ہے ۔ اسے حق ہے کہ اپنی بہن کی عزت کی حفاظت کے لیے اور معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے اپنی بہن کے مستقبل اور زندگی کا فیصلہ کرے ، اسے کیا معلوم تھا کہ مذاق مذاق میں وردہ ٹاپ بھی کر لے گی اور پھر سنجیدگی سے میڈیکل کالج میں پڑھے گی ۔

وہ باقا عد گی سے مسجد جاتا ہے اور پیش امام کا خطبہ سنتا ہے ۔ اس نے عالموں کی تقریریں بھی سنی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لئے کیا اچھا ہے انہیں پیسے کمانے کے لیے کس پیشے کا انتخاب کرنا چا ہیے، یہ وہ طے کریں گے اور ان کے مطابق لڑکی کو صرف استانی ہو نا چاہیے صرف یہی پیشہ اسے عزت دے سکتا ہے ۔ اور وہی جانتے ہیں کہ عورت کی عزت کو کیسے سنبھالا دیا جا سکتا ہے ،اس سنبھالے کو مستحکم کرنے کے لیے گھر کے مردوں کا عورت کی زندگی اور اس کی خوشیوں پر پو را اختیار ہے ۔
صلاحیت ، شوق اور جذبہ لڑکوں کا دیکھا جا تا ہے لڑکیوں کا نہیں ۔ اوّل تو لڑکیوں کو نوکری کرنا ہی نہیں چاہیے ۔خواتین کی کفالت کرنا مردوں کا فرض ہے ، انہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ۔

لیکن کیا وہ گاؤں کی عورت کے لئے بھی کچھ ارشاد فرماتے ہیں جو پورے پاکستان کی کفالت کر رہی ہے ۔ اس نے نہ تو اپنا جسم ڈھانپا ہے نہ چہرہ ، آئے روز بااختیار لوگوں کے اختیارمیں مالِ مفت کی طرح بخشی جا تی ہے ۔

وہ گاؤں کے مردوں کو بھی اسلام کے ذریں اصولوں اور عبادات کے طور طریقے نہیں بتا تے ۔ انہیں نہ تو بنیا دی عقا ئد کا علم ہے نہ ارکان کا ۔ وہ کیوں چا ہتے ہیں کہ گاؤں کے محنت کش لوگ بنا نماز روزے کے مرنے کے بعد جہنم کی آگ میں جلیں ۔

وہاں بے بس اور بے کس لوگ اپنا آسرا اور سہارا وڈیرے کو ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ انہیں کیوں نہیں درس دیتے کہ ان کا مالک وڈیرہ نہیں اللہ تعالی ہے وہی با اختیار ہے صرف اسی کو سجدہ کرو ۔

یہ غریب ہیں افلاس نے ان کی مت مار دی ہے ، پھر وہ وڈیرے کو ہی سمجھا دیں کہ ما لِکِ کُل وہ نہیں اللہ کی ذات ہے ۔ چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں وہ پیاز سے روٹی کھانے والے کو سچائی کیوں نہیں بتا تے ۔ وہ انہیں جنت کی خوش ذائقہ غذاؤں کے بارے میں نہ سہی انہیں یہ ہی بتا دیں اللہ نے پیاز اور آلو کے علاوہ بھی سبزیاں پیدا کی ہیں ۔ گڑ کے علا وہ بھی میٹھے کے بہت ذائقے دار پکوان ہیں ، گنّا بہت لذیذ ہو تا ہے لیکن کیلے ، آم ، امرود انگور بھی مزا دیتے ہیں ۔ ابلے ہوئے چاول میں مرچ ڈال کر کھائیں تو صرف بھوک ختم ہو تی ہے ، لیکن اگر چاول سے پلاؤ ، بریا نی اور زردہ بنے تو ذندگی ذائقے دار ہو جا تی ہے ۔

سارا درس، لیکچر اور توانائی عورت جیسی ناقص العقل کے لیے ہے جس کی ذندگی کا مقصد مرد کی تا بع داری ، اس کے جسم اور پیٹ کی تسکین کرنے میں ہے ، اور یہ سب کرنے کے بعد اسے جنّت میں کیا ملے گا ، یہ بھی کچھ ذیادہ واضح نہیں ہے ۔لیکن وہاں وہ اپنی ہر آرزو پوری کر سکتی ہیں۔ وہاں انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا ،کیوں کہ وہاں حوروں نے انہیں مصروف رکھا ہو گا ۔یوں سمجھ لیں آج کے یو رپ کا وہاں ماحول ہو گا مگر عین شرعی ہو گا ۔

ہمارے محلے کے ایک علاّمہ صاحب کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ آج تک ان کی بیویوں پر کسی غیر مرد نے نظر نہیں ڈالی، اور وہ ہمیشہ اپنا ہر قسم کا علاج خواتین ڈاکٹر سے ہی کراتی ہیں ۔ علامہ صاحب کی ایک بیوی نے مجھے بتایا کہ علاّمہ صاحب تو انہیں ہر بچے کی پیدائش پر آپریشن تھیٹر میں چھوڑ کر آجاتے ہیں اور وہاں انہیں انستھیزیا دے کر مرد ہی بے ہوش کرتا ہے ۔ آپریشن کے مرحلے اوران کے ہوش میں آنے تک وہیں کھڑا رہتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر علامہ صاحب کو یہ بات پتہ چل جا ئے تو وہ انستھیزیا پر پابندی لگا دیں گے ۔ہم نے کہا وہ خود پر پابندی کیوں نہیں لگاتے ؟ بولیں طاغوتی دور میں امتیوں کی تعداد بڑھانے کا انہوں نے عزم کر رکھا ہے ۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).