علی برادران اور کرکٹ


 

مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی دونوں کو کرکٹ سے گہرا لگاؤ تھا۔ بڑے بھائی علی گڑھ کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ سرسید کے قائم کردہ تعلیمی ادارے میں کپتان کو بہت زیادہ اہمیت اور تکریم حاصل تھی ۔ سر رضا علی نے ’’ اعمال نامہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی علی گڑھ میں زمانہ طالب علمی میں تعلیمی قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ کرکٹ ٹیم کے کپتان سے خونی رشتے کی وجہ سے قدر تھی۔ مولانا شوکت علی کی بیٹنگ کے قصے علی گڑھ سے ان کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی زبان زد عام رہے، ان کا ایک عمل تو ان مٹ نشاں چھوڑ گیا۔ کرکٹ گراؤنڈ جامع مسجد کے عقب میں تھی۔ شوکت علی نے ایک دفعہ ایسا زور دار شاٹ لگایا کہ گیند مسجد کے گنبد سے ٹکرایا اور اس کا کونا جھڑ گیا، جس کی مرمت نہ ہوئی اور یہ اس شاٹ کی یادگار کے طور پر رہ گیا۔ شوکت علی کی مثال بیٹسمینوں کو ہلا شیری دینے کے لیے دی جاتی۔ یہ بھی مشہور تھا کہ ان کی اور سرسید کی روحیں مسجد کے مینار سے ہر میچ دیکھتی ہیں۔

نامور پاکستان فاسٹ باؤلر فضل محمود کرکٹ سے اسلام کی طرف راغب ہوئے اور ’’ تلاش حق ‘‘ کے نام سے ان کی کتاب شائع ہوئی تو اس پر ممتاز ادیب انتظار حسین کو مولانا شوکت یاد آئے ۔:

’’ بعض ایسے میدان ہوتے ہیں جن میں داخل ہونے کا راستہ ہوتا ہے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا۔ اسی میدان کے اندر اندر آدمی مرد میدان بنتا ہے، وہیں چڑھتا ہے، وہیں گرتا ہے۔ کرکٹ کی فیلڈ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس سے ایسے راستے نکلتے ہیں جو دور تک پہنچتے ہیں۔ مولانا شوکت علی کرکٹ کی فیلڈ ہی سے نکل کر تحریک خلافت تک پہنچے تھے۔ واضح ہو کہ مولانا شوکت علی بھی اپنے وقت کے فضل محمود تھے۔ پہلے کرکٹ کی فیلڈ میں سنچریاں بنائیں، پھر اس فیلڈ سے نکل کر سیاست کی فیلڈ میں پہنچے اور تحریک خلافت کے وکٹ پر جاکر جم گئے اور ایسے جمے کہ خلافت آؤٹ ہوگئی مگر وہ آؤٹ نہیں ہوئے۔ ‘‘

مولانا شوکت علی کی طرح مولانا محمد علی کو بھی کرکٹ سے بہت لگاؤ تھا، ہر چند کہ وہ بھائی کی طرح عملی میدان کے شہسوار نہ تھے البتہ کرکٹ اور اس سے وابستہ کھلاڑیوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، ایک دفعہ ٹرین میں گورے سے اس موضوع پر بات ہوئی تو وہ ان کے گہرے علم پر حیران رہ گیا ۔ اس واقعہ کے بارے میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے لکھا ہے :

’’ ولایت سے کرکٹ کی مشہور ومعروف ٹیم ایم سی سی نئی نئی ہندوستان آئی ہی تھی۔ موضوع گفتگو میں ٹیم تھی۔ اور اس کے کھیل اور مختلف میچ، محمد علی تھوڑی دیر تو چپ سنتے رہے اس کے بعد رہا نہ گیا۔ بولے دخل در معقولات معاف۔ کھلاڑیوں پر آپ جو رائے زنی کر رہے ہیں صحیح نہیں ہے۔ فلاں کھلاڑی میں یہ خوبی ہے اور فلاں میں یہ خرابی۔ اور لگے اس کی تفصیل بیان کرنے اور صاحب تھے کہ بھونچکے بنے ایک ملا نما انسان کی زبان سے یہ ماہرانہ معلومات سن رہے تھے، محمد علی اب نفس کرکٹ پر آگئے اور لگے انگلستانی کرکٹ کی تاریخ بیان کرنے۔ لندن میں اور آکسفورڈ میں فلاں سنہ میں بولنگ کے یہ طریقے رائج تھے، گیند کی پچ یوں پڑتی تھی، بیٹنگ یوں کی جاتی تھی ، فلاں زمانہ میں یہ تبدیلیاں ہوئیں، ہندوستان اور انگلستان دونوں کی زمینوں میں یہ فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ بولنے والا اب گفتگو نہیں کر رہا تھا گویا کرکٹ پر انسائیکلو پیڈیا کا آرٹیکل سنا رہا تھا ۔ آخر میں صاحب بولے ۔ آپ کو کرکٹ سے متعلق بڑی معلومات ہیں۔ محمد علی نے کہا مجھی کو نہیں بلکہ ہر علی گڑھی کو ایسی ہی معلومات ہوتی ہیں۔ وہ بولا کیا آپ علی گڑھ میں کپتان رہ چکے ہیں۔ یہ بولے میں نہیں تھا۔بڑے بھائی بگ برادرتھے ، شوکت صاحب کے لیے بگ برادر کی تلمیح محمد علی نے اپنے کانگرس کے خطبہ صدارت کے وقت ہی چلا دی تھی۔ وہ انگریز اس پر بے ساختہ بولا۔

you talk like Muhammad Ali،یہ تو آپ محمد علی کی زبان بول رہے ہیں۔ یہ بولے i am Aliزبان کیسی ، میں خود ہی محمد علی ہوں۔ صاحب بہادرکی حیرت اب دیکھنے کے قابل تھی آنکھیں پھاڑ کر بولے really one of the the two Ali brothersیعنی وہ محمد علی جو علی برادارن میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے چمک کر جواب دیا yes the younger and more sharp-tongued of the two.، جی ہاں انھیں میں سے چھوٹا اور زیادہ تیز زبان بھائی۔ صاحب کو اپنی حیرت کے رفع کرنے میں اب کی دیر سیکنڈوں کی نہیں منٹوں کی لگی۔ بے چینی اور بے قراری کے ساتھ بار بار پہلو بدل رہے تھے اور نظر محمد علی کے چہرے پر گڑی ہوئی تھی۔ محمد علی نے ہنسنا اور لطف لینا شروع کیا۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).