کیا اب ہم یہ اسکٹلز کھا سکتے ہیں؟


کیا اب ہم یہ اسکٹلز کھا سکتے ہیں؟ میں نے ہاتھ اٹھا کر پوچھا تو سارے گروپ میں‌ ہنسی کی پھلجڑیاں چھوٹ گئیں۔ ہفتے کے دن نارمن گیلکسی رائٹرز گروپ کی ماہانہ میٹنگ تھی۔ یہ میٹنگ نارمن بہائی سینٹر میں‌ رکھی گئی تھی۔ نارمن کے بہائی سینٹر کے باہر سے بہت مرتبہ گزرنا ہوا، لیکن مصروفیت کی وجہ سے کبھی اندر جانے کا اتفاق نہیں‌ ہوا تھا۔ سکھر میں‌ صرف ایک بہائی فیملی رہتی تھی جو اب ملک سے باہر ہے، وہ میرے اچھے دوست ہیں۔ اس کے علاوہ میں‌ نے بہاءاللہ کے بیٹے کے لیکچرز پر مبنی کتاب پیرس ٹاکس بھی پڑھی تھی جس سے میں‌ ان کے خیالات سے متاثر ہوئی۔

کچھ سال پہلے ایک ہسپانوی مریضہ آئیں جن کو انگلش نہیں‌ آتی تھی اور ان کی بیٹی ترجمہ کررہی تھی۔ جو بھی بچے آتے ہیں، سب سے پوچھتی ہوں‌ کہ آپ کون سی کلاس میں‌ ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں؟ وہ پندرہ سال کی لڑکی تھی۔ اپنی جیب میں‌ سے اس نے اپنا رپورٹ کارڈ نکال کر دکھایا۔ اس کو تمام مضامین میں‌ اے گریڈ ملا تھا۔ تم اچھا پڑھتی ہو، کالج ختم کرکے ہمارے ہسپتال کے لیے نرس یا اسسٹنٹ بن جاؤ۔ یہاں جو لوگ بائے لنگؤل یعنی کہ انگلش اور اسپینش دونوں‌ جانتے ہیں‌، ان کو تنخواہ بھی زیادہ ملتی ہے۔ یہ سن کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں‌ اور اس نے اپنی ماں کو خوشی سے ترجمہ کرکے بتایا۔ میں‌ نے اس کو حیرانی سے دیکھا تھا کہ یہ عام سی بات ان کو کیوں‌ نہیں پتا تھی۔ پھر مجھے وقت کے ساتھ سمجھ میں‌ آیا کہ ایسے بہت سارے بچے ہیں جو اوکلاہوما سٹی کے گھیٹو علاقوں‌ میں‌ رہ رہے ہیں جہاں‌ ان کی معلومات تک رسائی نہیں‌ ہے۔

اینامیٹڈ مووی ”ریٹاٹولی“ کی کہانی ایک چوہے کے گرد گھومتی ہے جو شیف بننا چاہتا تھا۔ اس کا باپ کہتا ہے کہ ہم پرندے نہیں‌ ہیں‌ جو گھونسلہ چھوڑ کر اڑ جاتے ہیں، ہم چوہے ہیں جو صرف ملٹی پلائی ہوتے ہیں۔ وہ اس کو چوہے دان‌ بھی دکھاتے ہیں کہ کس طرح‌ انسان ان کے دشمن ہیں لیکن اس کے خیالات بدل چکے تھے، وہ انسانوں کی طرح‌ سیدھا کھڑا ہوکر چلنے لگتا ہے اور نالیاں چھوڑ کر باہر نکل جاتا ہے۔ باہر نکل کر اسے پتا چلتا ہے کہ اس سارا وقت وہ سب دنیا کے آرٹ اور کلچر کے مرکز پیرس کے نیچے رہ رہے تھے۔ یہ بچے بھی گھیٹو کے ٹین ایج حمل، ڈرگس اور گنز کے ماحول سے نکل جائیں اور دیکھیں کہ وہ امریکہ میں‌ رہ رہے ہیں تو کتنا اچھا ہو۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔

میں‌ اپنی زندگی کی شارٹ بایوگرافی لکھنا چاہتی ہوں! آپ اپنی بایو گرافی کیوں‌ لکھ رہی ہیں، ابھی تو آپ زیادہ بوڑھی بھی نہیں‌ ہیں؟ میری ٹین ایج بیٹی نے سوال کیا۔ میں‌ نے اس سے کہا کہ اوکلاہوما اور دنیا میں‌ سب تمہارے جیسی لڑکیاں‌ نہیں ہیں جنہوں‌ نے اگلے دس سال کا پلان بنایا ہو، کالجوں کا موازنہ کیا ہو اور پہلے سے سوچ رکھا ہو کہ کہاں‌ نوکری کرنی ہے اور کہاں‌ رہنا ہے۔ ان لڑکیوں‌ کو روزانہ دیکھتی ہوں جن کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں ہیں۔ وہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں‌ اپنے بچوں‌ کے ساتھ آتی ہیں۔ انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے، سارا ہفتہ معمولی نوکری کرتی ہیں اور ویک اینڈ پر تفریح۔ یہ نہ تو ان کے اپنے مستقبل کے لیے اچھا ہے، نہ ان کی اولاد کے لیے اور نہ ہی تمام معاشرے کے لیے۔ کسی بھی نظام کو چلانے کے لیے تعلیم یافتہ اور محنتی انسانوں‌ کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنا بوجھ اٹھائیں اور سوسائٹی کو اوپر اٹھانے پر کام کریں۔ ایک لڑکی کو تعلیم یافتہ بنایا جائے تو پوری نسل پر اثر پڑتا ہے۔ میں‌ چاہتی ہوں‌ کہ وہ بھی اپنے سامنے زندگی میں بڑے مقاصد بنائیں اور پھر ان کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس طرح‌ دنیا ایک بہتر جگہ بن پائے گی۔

ڈاکٹر سہیل پنجابی ہیں، ان سے میں نے ایک لفظ سیکھا جو یوں ہے، ”اوتیاں بوتیاں مارنا!“۔ ابھی تک جرنلز میں‌ چھپے میڈیکل سائنسی مضامین اور ذیابیطس کی کتاب کے علاوہ جو بھی لکھا وہ اوتیاں بوتیاں ہی ماری ہیں۔ کتاب کو ہر لحاظ سے اچھا ہونا چاہیے۔ گیلکسی رائٹرز گروپ کے ممبر میرے لیے اجنبی نہیں‌ ہیں، ان میں‌ سے کئی کو پہلے سے جانتی ہوں۔ ایک شہر میں‌ اتنا وقت رہیں تو آہستہ آہستہ وہاں‌ کے رہنے والوں‌ کو جاننے لگتے ہیں۔ میرے بہت سارے دوست اور جاننے والے لوگوں‌ نے عمدہ کتابیں‌ لکھی ہیں اور مجھے ان کے تجربے سے مدد ملے گی۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔

آج کی کلاس میں‌ جو سیکھا ان میں‌ سے کچھ سبق یہاں‌ لکھ رہی ہوں۔ ہم سب میں‌ بہت سارے لکھاری نئے ہیں‌ اور ہم ساتھ میں‌ ہی سیکھ رہے ہیں۔ لکھنا سیکھے بغیر ہم اپنی زندگی سے سیکھے ہوئے سبق اگلی نسل یا ایک دوسرے تک نہیں‌ پہنچا سکیں گے۔ ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر نے انٹرایکٹو لیکچر دیا۔ اس پروگرام میں‌ ایک دلچسپ ایکسرسائز کی گئی۔ ٹیچر نے ہرشی کسز چاکلیٹ، ایم اینڈ ایم، اسکٹلز، ٹھوتھ پکس اور مونگ پھلیاں باری باری تمام حاضرین میں‌ بانٹیں۔ پہلے ہرشی کسز کا مشاہدہ کرکے اس کے بارے میں‌ تفصیل سے بیان کرنا تھا کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ سارے گروپ کے لوگوں‌ نے مختلف باتیں‌ بتائیں، کسی نے رنگ بتایا، کسی نے حجم۔ کچھ نے اس میں‌ سے باہر نکلے ہوئے چھوٹے سے سفید کاغذ کے لیبل پر لکھے ہوئے لفظ ڈارک کو سب سے پہلے دیکھا۔ اس کے بعد اس کو ہاتھ میں‌ لے کر محسوس کرنا تھا، پھر اس کو کھولنا تھا اور پھر منہ میں‌ رکھ کر زائقہ محسوس کرنا اور چبانا تھا۔ سب کی کچھ باتیں‌ ملتی جلتی تھیں‌ اور کچھ مختلف۔

ٹیچر نے کہا کہ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے اپنے ماحول پر غور کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر ناول نگاری کے لیے ہر تفصیل کو بیان کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر سہیل نے بھی یہی کہا تھا کہ لکھاری مختلف ہوتے ہیں، کچھ زیادہ تفصیل سے لکھتے ہیں اور کچھ شارٹ اسٹوری رائٹر ہوتے ہیں۔ مونگ پھلیوں‌ کی باری آئی۔ پہلے ان کو دیکھنا تھا اور ان کی شیپ کی تفصیل بتانی تھی، اپنی توقعات کے بارے میں‌ سوچنا تھا، پھر ان کو ہاتھ میں‌ لے کر محسوس کیا، پھر چھلکے چٹخا کر کھولا۔ کسی کا خول خالی نکلا، کسی کی مونگ پھلی جلی ہوئی نکلی، کسی کی ویسے ہی گول مٹول اور مزیدار جیسا وہ سوچ رہے تھے۔ پھر اس کا ذائقہ تفصیل سے بتانا تھا۔

اسی طرح‌ اسکٹلز کی باری آئی۔ رنگ برنگے اسکٹلز تھے، اورنج، ہرے، پیلے۔ کچھ پر ایس لکھا ہوا تھا اور کچھ سادہ تھے۔ ایک صاحب نے امریکہ میں‌ نسل پرستی کا مذاق بناتے ہوئے اپنی اسکٹلز کو رنگوں‌ کے حساب سے جدا کردیا جس پر سب ہنسنے لگے۔ اسکٹلز کے بارے میں‌ کافی تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ صبح جلدی جلدی جانے میں‌ ناشتہ کرنے کے لیے ٹائم نہیں بچا تھا۔ باہر سے وہ رنگ برنگی ہیں لیکن اندر سے ساری میٹھی ہوتی ہیں، میں‌ نے کہا۔ صبر سے انتظار کرتی رہی لیکن کافی دیر ہوگئی اور اسکٹلز کھانے کے بارے میں‌ ٹیچر نے کچھ نہیں‌ کہا تو میں‌ نے ہاتھ اٹھا کر پوچھا کہ کیا اب ہم یہ اسکٹلز کھا سکتے ہیں؟ حالانکہ میں‌ ذیابیطس کی ڈاکٹر ہوں‌ اور میٹھا زیادہ کھانے کے خلاف بھی۔ اس کلاس کا سب سے اہم سبق میں‌ نے یہ سیکھا کہ صبح کلاس میں‌ جانے سے پہلے ناشتہ ضرور کرکے جانا چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).