ایسی سینیٹ کا کیا کرے کوئی


پاکستان اپنے قیام کے بعد نو برس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ انیس سو پینتیس سے اپنی آئینی ضروریات پوری کرتا رہا۔ تا آنکہ انیس سو چھپن کا آئین اختیار کیا گیا جس کے تحت طاقت کا سرچشمہ قومی اسمبلی قرار پائی۔

مگر یہ آئین ٹھیک طرح سے آزمائے جانے سے پہلے ہی نوزائیدگی میں پہلے مارشل لا کے ہاتھوں محض پونے دو برس کی عمر میں قتل کردیا گیا۔ اس کی قبر سے چار برس بعد انیس سو باسٹھ کا صدارتی آئین نمودار ہوا۔ آئین کیا تھا انجیر کا پتہ تھا جس سے مارشل لائی عریانی چھپانا مقصود تھا۔

اس آئین کے تحت بھی یک ایوانی مجلسِ مقننہ تخلیق کی گئی جس نے اپنی زندگی بطور ربر اسٹیمپ بسر کی۔ اوقات اس آئین کی یہ تھی کہ جب اس کے خالق ایوب خان نے عہدہِ صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو دستور کے مطابق اسمبلی کے اسپیکر کو قائمقام اختیارات منتقل کرنے کے بجائے حاضر سروس کمانڈر انچیف کو باگ ڈور دے کے چلتے بنے۔
اب ہم کہانی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے سیدھے تہتر کے آئین کی جانب آتے ہیں جس میں پہلی بار پاکستان میں یک ایوانی کے بجائے دو ایوانی پارلیمنٹ کا تصور پیش کیا گیا۔ یعنی ایوانِ زیریں ( قومی اسمبلی ) میں انتخابی نشستوں کی تعداد ہر صوبے کی آبادی کے تناسب سے رکھی گئی۔

پنجاب کی سب سے زیادہ، اس کے بعد سندھ، پھر سرحد، پھر بلوچستان، اس کے بعد وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور پھر دارلحکومت اسلام آباد۔ عجیب بات ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں صوبوں میں اس طرح بانٹی گئیں کہ اگر تمام صوبوں اور قبائلی علاقوں کی نشستیں بھی جمع کر لی جائیں تو ان کی تعداد صوبہ پنجاب کی نشستوں سے کم ہوگی۔ ( جب مشرقی پاکستان نے آبادی کے فارمولے کے تحت نشستیں مانگیں تو پہلے تو اسے ون یونٹ کا تحفہ تھما دیا گیا اور جب آبادی کے فارمولے پر نشستیں دیں تو اقتدار دینے سے انکار کردیا گیا )۔

چنانچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نتیجے میں بدلے ہوئے سیاسی و نفسیاتی حالات میں چھوٹے صوبوں کی تالیف ِ قلب کے لیے سینیٹ کا ادارہ تخلیق کیا گیا۔ جس میں قومی اسمبلی کے برعکس تمام وفاقی یونٹوں کو یکساں نمایندگی دی گئی۔ اور کہا یہ گیا کہ سینیٹ کی موجودگی میں کوئی ایک وفاقی یونٹ قومی اسمبلی میں محض اپنی عددی برتری کے سبب وفاقی قانون سازی کو بلڈوز نہیں کرپائے گا۔
سینیٹ کا ادارہ تمام یونٹوں کے وفاقی حقوق کا تحفظ کرے گا اور یوں وفاق کی مضبوطی کا سمبل ہوگا۔ کیا واقعی ایسا ہی ہوا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو ممالک کے ایوانِ ہائے بالا کا جائزہ لینا مناسب رہے گا تاکہ ان کے تقابل میں پاکستانی سینیٹ کی اختیاری و بے اختیاری سمجھ میں آ سکے۔

امریکی کانگریس دو سو چھبیس برس سے ایوانِ نمایندگان اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ امریکی سینیٹ میں پچاس ریاستوں میں سے ہر ریاست کے دو سینیٹر چھ برس کے لیے آتے ہیں۔ پہلے ان سینیٹروں کو ہر ریاست کی مجلسِ قانون ساز منتخب کرتی تھی لیکن جب اقربا پروری، رشوت ستانی اور جوڑ توڑ کی شکایات حد سے بڑھ گئیں تو انیس سو تیرہ میں چودھویں آئینی ترمیم کے بعد ریاستی عوام کے براہِ راست ووٹوں سے سینیٹر منتخب کرنے کا عمل شروع ہوا۔

اگر چار سو پینتیس رکنی ایوانِ نمایندگان اور سو رکنی سینیٹ کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں یکساں با اختیار ہیں بلکہ بعض معاملات میں سینیٹ کی طاقت ایوانِ نمایندگان سے کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ صدر سمیت وفاقی عہدیداروں کے مواخذے کا اختیار سینیٹ کے پاس ہے۔ صدارتی کابینہ، خود مختار وفاقی اداروں بشمول مسلح افواج کی اعلی تقرریاں، سپریم کورٹ کے ججوں اور بیرونِ ملک اور اداروں میں متعین ہونے والے سفیروں کا تقرر سینیٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے ہونے والے معاہدوں کی توثیق سینیٹ کی دو تہائی اکثریت سے کرانا ضروری ہے۔

اگرچہ وفاقی بجٹ اور مالیاتی بل ایوانِ نمایندگان میں ہی پیش ہوتا ہے تاہم سینیٹ اس بجٹ میں ترامیم اور کٹوتیاں تجویز کرسکتی ہے۔ نائب صدر بلحاظِ عہدہ سینیٹ کا سربراہ ہوتا ہے تاکہ صدارتی عہدہ خالی ہونے کی صورت میں وہ قائم مقام صدر بن سکے۔ اب تک ایوانِ نمایندگان کا صرف ایک رکن امریکی صدر کے عہدے تک پہنچا ہے جب کہ کینیڈی اور اوباما سمیت تین سینیٹر وائٹ ہاؤس کے لیے منتخب ہو چکے ہیں۔

بھارتی ایوانِ بالا راجیہ سبھا کے ڈھائی سو ارکان ہیں۔ ان میں بارہ ارکان ایسے ہیں جنھیں صدرِ مملکت سائنس، ادب، آرٹ اور سماجی خدمات کے شعبے سے نامزد کرتا ہے۔ بھارت کا نائب صدر بلحاظِ عہدہ راجیہ سبھا کا چیئر پرسن ہوتا ہے۔ اب تک راجیہ سبھا کے چھ چیئر پرسن راشٹر پتی کے عہدے تک پہنچے ہیں ( رادھا کرشن، ڈاکٹر ذاکر حسین، وی وی گری، وینکٹ رمن، شنکر دیال شرما، کے آر نرائنن)۔ دونوں ایوانوں کا کوئی بھی رکن مرکزی وزیر یا وزیرِ اعظم بننے کا اہل ہے۔

فنانس، دفاع، داخلہ اور خارجہ محکموں سمیت ہر وزارت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں، ان میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی نمایندگی دو اور ایک کے تناسب سے ہوتی ہے۔ صرف بجٹ یا مالیاتی بل واحد شے ہے جو لوک سبھا میں پیش ہوتا ہے اور وہیں منظور ہوتا ہے۔ دیگر تمام قانونی بلوں کی منظوری راجیہ سبھا سے لینا ضروری ہے۔
اب آئیے پاکستانی سینیٹ کی جانب۔ اس کے ایک سو چار ارکان ہیں۔ ہر صوبے کی تئیس سیٹیں ہیں۔ ان میں چودہ جنرل سیٹوں کے علاوہ ایک اقلیتی نشست، چار خواتین کی اور چار علماء و ٹیکنو کریٹس کوٹے کی نشستیں ہیں۔ قبائلی علاقوں کی آٹھ اور اسلام آباد کی چار نشستیں ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں سینیٹ کا الیکٹورل کالج ہے۔ مگر فاٹا اور اسلام آباد کے سینیٹر قومی اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ سینیٹ کا چیئرمین صدارتی عہدہ خالی ہونے کی صورت میں قائمقام صدر بن سکتا ہے۔

مگر کوئی سینیٹر وزیرِ اعظم نہیں بن سکتا جب کہ وفاقی کابینہ میں بھی سینیٹ کی نمایندگی پچیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ بجٹ اور مالیاتی بل صرف قومی اسمبلی میں ہی پیش اور منظور ہوتا ہے۔ سینیٹ کو صرف مالیاتی بل کی نقل بھجوائی جاتی ہے۔ وہ اپنی سفارشات دے سکتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ سفارشات مالی بل یا بجٹ کا حصہ بنیں۔

مالیاتی بل کے سوا کوئی بھی قانونی بل سینیٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے اور قانون بننے کے لیے اس بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی مسودہِ قانون سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مابین وجہ ِ نزع بن جائے تو پھر مشترکہ اجلاس میں یہ بل کثرتِ رائے سے منظور کرکے صدارتی دستخطوں کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں سے سینیٹ کے ادارے کی بے اختیاری شروع ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک بل جسے سینیٹ مسترد کردے لیکن قومی اسمبلی کی خواہش ہو کہ یہ بل منظور ہوجائے تو پھر مشترکہ اجلاس میں اگر سینیٹ کے تمام ایک سو چار ارکان بھی مخالف ہوجائیں تب بھی وہ بل قومی اسمبلی کی عددی اکثریت کے بل بوتے پر منظور ہوجائے گا۔ یعنی عملی و آئینی قوت اسی اسمبلی کے پاس رہے گی جس کی اکثریتی بلڈوزیت سے بچنے کے لیے تمام وفاقی یونٹوں کی مساوی و موثر نمایندگی کے لیے سینیٹ کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔

اگرچہ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کی بھی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں مگر ان کی تعداد محدود ہے۔ جب کہ دفاع، خزانہ، داخلہ و خارجہ امور سمیت دیگر وزارتوں کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے کے لیے اور پبلک اکاؤنٹس سے متعلق مشترکہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا بھی تصور نہیں۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی حکومت کے وعدوں اور وزرا کی یقین دہانیوں پر نظر رکھنے کے لیے موجود ہے مگر اس کی سفارشات کی حکومت پابند نہیں۔

اسی طرح سینیٹ کی ایک کمیٹی کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل کی جانب توجہ دلانے کے لیے قائم ہے لیکن وہ بھی بس کہہ سن ہی سکتی ہے۔ یہی حال انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کمیٹی کا بھی ہے۔ جو خود ہی چھان بین کرکے خود ہی جل کڑھ سکتی ہے۔ اگر سینیٹ واقعی کوئی طاقتور اور وفاق کے تمام یونٹوں کا موثر نمایندہ ادارہ ہوتا تو پوری سینیٹ کو وزیرِ اعظم سے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ

کچھ کرم ہم گوشہ گیروں پر بھی فرمایا کرو
شہر میں آتے ہی رہتے ہو، ادھر آیا کرو

ایسی دلاری سینیٹ میں کوئی سیدھے راستے سے آیا تو کیا اور بذریعہ ہارس ٹریڈنگ بھی آیا تو کیا۔ میاں نواز شریف جانے کیوں بائیسویں ترمیم کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ آخر جو نکتہ ال استاد مولانا فضل الرحمان کی سمجھ میں آ رہا ہے، وہ بھولے بادشاہ کی سمجھ سے بالاتر کیوں ہے؟
2 مارچ 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).