چورن پنجاب میں نہیں، بلوچستان میں بیچا جا رہا ہے


کالم کا دامن بہت تنگ ہے ، زلف یار کی داستان پیچ دار ہے اور نومبر کی رات طویل ۔ ادھر مشکل یہ ہے کہ ہونٹوں پر پپڑیاں جمع ہیں۔ غالباَ محسن بھوپالی نے کہا تھا، ’ اے مسیحاﺅ اگر چارہ گری ہے دشوار۔ ۔ ہو سکے تم سے نیا زخم لگاتے جاﺅ‘۔ مدت ہوئی جب استاد محترم روش ندیم صاحب کی معیت میں اسلام آباد کے چند صحافیوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ کوئٹہ سے عابد میر تشریف لائے تھے۔ چھوٹتے ہی ایک صاحب نے جملہ ارزاں کیا، ’ آپ ناراض بلوچ‘۔ ناراض بلوچ کی تکرار بڑھ گئی تو عابد میر نے دھیرے سے کہا، ’ بھائی ہم ناراض بلوچ نہیں ہیں، ہم بے زار بلوچ ہیں‘۔ ہمارے ممدوح جناب یاسر پیرزادہ صاحب کی شناخت کے کئی حوالے ہیں اور سارے حوالے ہی قابل احترام ہیں۔ وہ ایک ہونہار سرکاری افسر ہیں ۔ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہیں اور خود ایک اعلی درجے کے کالم نگار ہیں۔ نومبر کی 8 تاریخ کو جناب یاسر پیرزادہ صاحب نے ایک کالم بعنوان ’ پنجاب کا چورن بیچنے کا طریقہ‘ اپنے خوشنما قلم سے لکھا۔ چھ دن مسلسل سوچنے کے بعدیہ ہمت نہ ہو سکی کہ قلم اٹھا کر کچھ لکھا جائے۔ مرزا اسد اللہ خان ہوتے تو ایک بار پھر نعرہ بلند کرتے، اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم، اللہ اللہ۔

محترم پیرزادہ صاحب نے پہلے پیراگراف میں چڑھتے سورج کی پوجا، چمک سے آنکھوں کا خیرہ ہونا اور مظلومیت کی تصویر ہونا جیسی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ یہ موضوعی معاملات ہیں جس کا درک طالبعلم نہیں رکھتا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’نوکریوں میں بھی پنجابیوں کا حصہ زیادہ ہے۔ کلیدی عہدوں پر بھی پنجابی ہی تعینات ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی انہی کی اجارہ داری ہے۔ مقتدر اداروں میں بھی انہی کا سکہ چلتا ہے۔ چھوٹے صوبے ہیں جو مظلومیت کی تصویر ہیں۔ ملک کی کمائی کا ذریعہ ہیں مگر اِن پر خرچ کچھ نہیں ہوتا۔ معدنی وسائل سے مالا مال ہیں مگر غربت میں سب سے نیچے ہیں۔ اہم امور مملکت میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ قومی اسمبلی میں اِن کی اوقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تینوں صوبے مل کر بھی پنجاب کو نہیں پچھاڑ سکتے اور ریاست کے دیگر معاملات میں بھی اِن کے ساتھ ایسے ہی زیادتی ہوتی ہے‘۔ اساتذہ نے سکھایا کہ ترکی بہ ترکی حفظ مراتب کے منافی ہے وگرنہ پیرزادہ صاحب کے ہر جملے کے بعد ’ کیا نہیں ہیں‘ لکھ کر دیکھ لیجیے۔

 پیرزادہ صاحب سے بے خبری کی توقع ہرگز نہیں تاہم قارئین کو یہ بتانے میں کیا حرج ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں سندھ کی 61، خیبر پختونخوا کی 35، بلوچستان کی 14 اور فاٹاکی 12 نشستیں ملا کر تعداد 122 بنتی ہے جبکہ پنجاب کی 148 نشستیں ہیں۔ پچھاڑنا تو چھوڑیئے، تینوں صوبے اور فاٹا مل کر سادہ اکثریت سے مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتے۔ پیرزادہ صاحب جیسے صاحب علم و منصب سے یہ بھی توقع نہیں کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں فنڈز کی تقسیم کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوں گے تاہم قارئین کو یہ بتانے میں کیا حرج ہے کہ مالی سال 2017-18 میں وفاق نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو2384.27 ارب روپے جاری کئے جس میں پنجاب کو 1161.8 ارب روپے، سندھ کو612.6 ارب روپے، خیبرپختونخوا کو 389.9ارب روپے اور بلوچستان کو 219.97 ارب روپے جاری کئے۔ یوں تینوں صوبوں کے فنڈز کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو 1222.47 ارب روپے بنتے ہیں جو بہرحال صوبہ پنجاب سے 60.67 ارب روپے زیادہ ہیں۔

پیرزادہ صاحب کو یقینا علم ہو گا مگر دہرانے میں حرج نہیں کہ بلوچستان کا کل رقبہ پاکستان کا 44 فیصد حصہ بنتا ہے۔ گوادر جسے گیم چینجر کا نام دیا جاتا ہے بلوچستان میں واقع ہے۔ ریکوڈیک جسے دنیا میں سونے کا پانچواں بڑا ذخیرہ تسلیم کیا جاتا ہے چاغی میں پایا جاتا ہے۔ سیندک سے سالانہ 15800 ٹن بلسٹرکاپر نکلتا ہے جس میں 1.5 ٹن سونا اور 2.8 ٹن چاندی شامل ہوتی ہے۔ سوئی جو پاکستان کے قدرتی گیس کا سب بڑا ذخیرہ ہے، جہاں سے روزانہ 443 ملین کیوبک فٹ گیس نکلتی ہے، ڈیرہ بگٹی میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی 814 کلومیٹرساحلی پٹی کا 90 فیصد حصہ بلوچستان میں ہے۔ اس پٹی سے صرف مچھلی کی پیداوار ہر سال 135000 ٹن سے لے کر 150000 ٹن تک ہے۔ احباب نے شاید نام نہ سنے ہوں مگر سوئی، کنگری، دنگری، ثور، شاہ رگ اور ہرنائی سے ہر سال لاکھوں ٹن تیل اور کوئلہ نکلتا ہے۔ کرومائیٹ، سلفر، ماربل، خام لوہا، قیمتی پتھر، چونے کا پتھر، سلفر، بیریم سلفیٹ کے درجنوں مائنز مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ، خضدار، خاران، چاغی،زردکان، دلبند، پٹکوک، سپین تنگی اور کوہ سلطان میں واقع ہیں جہاں سے لاکھوں ٹن کی پیداوار ہوتی ہے۔ تفصیل کا یارا نہیں تاہم دلچسپی رکھنے والے احباب Federal Bureau of Statistics کی سالانہ رپورٹس دیکھ سکتے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ اربوں ڈالر لانے والے گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ خضدار اور سوئی کے درمیان دو ضلعوں کا فاصلہ ہے جبکہ سوئی اور اسلام آباد میں نو سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ 1955 میں سوئی سے نکلنے والی گیس اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد تک پہنچ گئی ہے مگر 62 برس میں نصیر آباد اور جھل مگسی سے گزر کر خضدار تک نہ پہنچ سکی۔ احباب کو یہ علم نہیں ہو گا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سرکاری اور غیر سرکاری ملا کر کل جامعات کی تعداد 8 ہے جبکہ صرف لاہور میں جامعات کی تعداد 34 ہے۔ یہ جان لینے میں کیا حرج ہے کہ بچوں اور ماﺅں میں شرح اموات بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ بھی جان لینا مفید ہو گا کہ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خط غربت کی شرح (MPI) 39 فیصد تھی جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 71 فیصد تھی۔ پیرزادہ صاحب نے کوئٹہ دیکھا ہو گا مگر شاید ان کو علم نہ ہو کہ ژوب سے لے کر چمن تک، نوکنڈی سے لے کر پنجگور تک، بارکھان سے لے کر بھاگ تک دوپہر ایک بجے کے بعد کوئٹہ اور خضدار کو چھوڑ کر کوئی ایک بھی ایسا شہر دستیاب نہیں جہاں مریض کے اپینڈکس یا خاتون کی زچکی کا آپریشن ہو سکے۔ درجنوں اضلاع تو ایسے ہیں جہاں سرکاری ہسپتالوں میں اپینڈکس کا آپریشن بھی نہیں ہوتا۔ نوکنڈی سے کوئٹہ کا فاصلہ 500 کلومیٹر ہے یا شیرانی کا کوئٹہ سے فاصلہ 370کلومیٹر ہے۔ پیرزادہ صاحب کو گلہ ہے کہ چار سال پہلے لاہور میں ہر ایک گھنٹے کے بعد بجلی غائب ملتی تھی۔ ان کو بتاتے چلیں کہ گزشتہ دس برس میں کوئٹہ کو چھوڑ کر بلوچستان کے 31 اضلاع میں سے کسی ایک کی گواہی پیش کریں کہ ان کو 24 گھنٹوں میں 8 گھنٹے سے زیادہ بجلی ملی ہو۔

یہ محض اشارے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان کا اس ملک کی پیداوار میں کیا حصہ ہے اور بلوچستان میں صحت، تعلیم اور زندگی کا معیار کیا ہے۔ فرض کر لیجیے کہ بلوچستان کا قومی پیداوار میں کوئی حصہ نہیں۔ کیا اس ملک کے باسی ہوتے ہوئے آئینی طور بلوچستان کے باسیوں کا تعلیم، صحت اور روزگار کا حق ریاست کے ذمے نہیں ہے؟ اس دشت کی سیاحی میں اب تو ایک مدت گزر گئی اس لئے معلوم ہے کہ ان تمام اعداد و شمار کو چار سرداروں کے کھاتے میں ڈال کر حقائق کے اعداد کو زیرو سم کا کھیل بنا دیا جائے گا۔ اس لئے عرض ہے کہ بلوچستان کے باسیوں کو محرومی کا کوئی گلہ نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ اجارے اور تاوان کا کھیل ہے۔ اجارے موجود ہو تو پانی بھلے اوپر سے بہے، اسے گدلا نیچے کھڑی بھیڑ ہی کرتی ہے۔

جو احباب بے معنی محرومیوں کا گلہ کرتے ہیں وہ دراصل فیشن کے طور پر چورن فروشی کرتے ہیں۔ ہمارے اجداد کل حیدرآباد ٹریبونل میں غداری کا طوق گلے میں لٹکائے کھڑے تھے۔ ہم آج بھی اسی طوق کے سائے میں جی رہے ہیں۔ جنہوں نے اس طوق کو گلے سے اتارنے کی کوشش کی وہ اب منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ کوئی بتائے کہ صبا دشتیاری، حبیب جالب، مولا بخش دشتی ، رازق بگٹی ، ارشاد مستوئی اور دیگر سینکڑوں سیاسی کارکن، طالبعلم، استاد اور ڈاکٹر کس جرم میں مارے گئے؟ ہمارے سینکڑوں سیاسی کارکن غائب ہیں، جرم معلوم نہیں۔ سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، قاتل کا سراغ نہیں۔ یہاں اسلام آباد میں چار سو لوگ مل کر ہفتوں تک سڑک پر دھرنا دے سکتے ہیں، وہاں کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں پریس کلب کے سامنے بیٹھ کر احتجاج نہیں کر سکتیں۔ ہم نے خاموشی کی چادر تان رکھی ہے۔ ہم بول نہیں سکتے۔ ہم لکھ نہیں سکتے۔ ہم آواز اٹھا نہیں سکتے۔ ہماری مائیں گھنٹوں ٹی وی کے پردے اور اخبار کے صفحے پر اپنے بچھڑے ہوئے بیٹوں کا نام تلاش کرتی رہتی ہیں۔ ہماری بہنیں اس امید میں ہیں کہ کب کوئی جری صحافی ان کے گم شدہ بھائیوں کے نام اخبار میں لکھے گا۔ ہماری بے بسی دیکھئے کہ ہم جیسے چورن فروش وہ نام بھی نہیں لکھ سکتے۔ ہمارا دکھ دیکھیے کہ شہری، قانون اور حقوق جیسے بانجھ الفاظ کی عیاشی بھی ہمیں دستیاب نہیں۔ ہم تو بس زندہ رہنے کی سعی میں ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah