پرما نے بال کیوں کٹوائے؟


میں واقعی ایک دم دہل کے رہ گیا۔ اچھی خاصی ہنستی مسکراتی، دوستوں کے ساتھ سکول میں گھومتی، امّاں ابّا کے ساتھ سیر کرتی وہ بچی بالکل خشخاشی بال کروائے موجود تھی۔ بوائے کٹ سے بھی چھوٹے، بالکل چھوٹے بال، وہ بالکل آئلہ کے جیسی لگتی ہے، اس سے دو تین برس بڑی ہو گی۔ بغیر بالوں کے اس تصویر نے سب کچھ روک کے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

”میں جانتی ہوں، میں کچھ پیسے ڈونیٹ کر سکتی تھی، یا کچھ مالی امداد کر سکتی تھی لیکن چونکہ میں ابھی کوئی نوکری نہیں کرتی اس لیے مجھے لگا کہ میں خود سے اس مقصد کے لیے کچھ بھی کنٹری بیوٹ نہیں کر رہی ہوں گی۔ سر پہ بال ہونا میرے لیے ایک قدرتی بات ہے۔ اس میں ذاتی محنت بھی کوئی نہیں ہے۔ تو میرے لیے یہ بالکل ایک عام سی چیز ہے۔ لیکن وہ بچی جو قدرت کے اس تحفے سے محروم ہے، میرے بال اس کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے، وقت کے ساتھ میرے بال دوبارہ اپنی پرانی شکل میں آ جائیں گے، لیکن وہ بے چارے جو وقت سے لڑ رہے ہیں، جو اس موذی بیماری سے پنجے بھڑائے ہوئے ہیں اُن کے لیے اِن بالوں کی وقعت بہت زیادہ ہے۔ بچیوں کے پُر اعتماد ہونے میں تو بہت بڑا حصہ ہی ان بالوں کا ہوتا ہے‘‘۔

یہ سب انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ پرما دبئی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی ہے۔ کیمبرج سکول کی طالب علم ہے۔ ایک ذہین لڑکی ہے۔ ڈیبیٹ، سکول میگزین یا کوئی بھی علمی سرگرمی ہو تو پرما اس میں ضرور شامل ہوتی ہے۔ نہایت معزز علمی خاندان سے تعلق ہے۔ نسبتیں ایسی کہ ادھر لکھی جائیں تو سب لوگ رشک کریں لیکن نہیں۔ بات پرما کی ہے، بات اس مقصد کی ہے جس کے لیے پرما نے بال کٹوائے، بات بنیادی طور پہ اس جذبے کی ہے‘ جو اس تحریر کے ہر لفظ سے چھلک رہا تھا۔

”میرے سکول میں ہر سال ایک ہفتہ کینسر اویئرنیس کا منایا جاتا ہے۔ پچھلے برس وہاں ہونے والی بہت سی تقریروں اور دوسری ایکٹیویٹیز سے میں بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ ان سب چیزوں نے میرے اندر اتنا زیادہ جذبہ بھر دیا کہ اس مقصد کے لیے میں ہر ممکن قربانی دینے کو تیار تھی۔ بال کٹوانے کے فیصلے سے پہلے میں ذاتی طور پہ خود کو ہرگز کسی بھی طرح اتنے بڑے مسائل میں پھنسے لوگوں کی مدد کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ میں ان لوگوں کی زندگیوں میں کیا فرق ڈال سکتی ہوں۔ آج مجھے لگتا ہے کہ بہرحال میں انہیں ایک بہتر تحفہ دے سکتی ہوں۔‘‘

دیکھیے مسئلہ ہمدردی کا نہیں ہے۔ بات محسوس کرنے کی ہے۔ ہم، آپ، دوسرے بہت سے بچے شاید اس موذی بیماری کی تباہی اس شدت سے محسوس نہیں کر سکتے جیسے پرما نے کی۔ یا تو ہمارے اندر سخت دل کا فالٹ ہے، یا ہم سمجھتے ہیں کہ برا وقت تو جی کسی پہ بھی آ سکتا ہے، خدا بچائے۔ ہر روز سڑکوں پہ، دیواروں پہ، ریڈیو پہ، ٹی وی پہ، اخباروں میں، نیٹ پہ ہر جگہ کینسر سے متعلق آگاہی مہم چل رہی ہوتی ہے لیکن ہم کیا کرتے ہیں؟ ایک جھرجھری لیتے ہیں، استغفر اللہ پڑھتے ہیں اور آگے نکل لیتے ہیں۔ ایسا ہے کہ نہیں ہے؟ میں جو اتنا طرم خان بنا ہوا‘ یہ سب لکھ رہا ہوں میں بھی شوکت خانم ہسپتال کے سامنے سے ہر روز گزرتا ہوں۔ معصوم شکلوں والے کابلی بچے، دور دراز کے پٹھان اور سرائیکی، بہت سے لوگ وہاں سڑک کراس کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مریض کے تیمارداروں کی اپنی ایک چال ہوتی ہے۔ ایک پریشان چہرہ ہوتا ہے۔ خدا دشمن کو بھی بچائے، لیکن وہ سب روز نظر آتا ہے۔ میں اتنا نہیں کماتا کہ میں ان کی مدد کر سکوں۔ پرما ابھی پڑھتی ہے۔ پرما نے بال کٹوا دئیے اور یہ سب کچھ لکھا تو مجھے بھی خیال آیا کہ یار، لکھ تو میں بھی سکتا ہوں، یہ پیغام تو آگے پہنچایا جا سکتا ہے کہ آپ کے لیے ایک معمولی سی چیز، کسی مریض کے لیے کتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بات صرف بالوں کی نہیں ہے۔ یہ کہانی گھوم پھر کے آرگن ڈونیشن کی طرف جاتی ہے۔

”بال عطیہ کر دینا میرے لیے ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ جیسے ہر لڑکی اپنے بالوں سے پیار کرتی ہے اسی طرح میں بھی ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ خوب صورتی میرے بالوں کی لمبائی میں چھپی ہوئی نہیں ہو گی۔ یہ بہت گہری چیز ہے۔ خوبصورتی، جیسے کہا جاتا ہے، دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اندر سے کتنے اجلے ہیں، اصل اہمیت دل کے خوبصورت ہونے کی ہے۔ اور بھئی، ویسے تو ہم سب ہی کچھ ایٹموں اور مالیکیولز سے بنے ہوئے ہیں۔ پھر میں تو ساری زندگی ویسے ہی صحت کے معاملے میں بہت خوش قسمت رہی ہوں، اسی چیز نے شاید مجھے اکسایا کہ میں ان بچوں کے لیے کچھ تو ایسا کروں جو میری طرح ایک اچھی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہیں صرف کینسر کی وجہ سے وہ اَپرچُونٹی نہیں ملی۔‘‘

ہمارے یہاں مرنے کے بعد جسم کے اعضا عطیہ کرنے کا ایسا کوئی خاص رواج نہیں ہے۔ اس بارے میں بہت سے مسائل پائے جاتے ہیں۔ آنکھ، دل، گردہ، جگر، ہاتھ، پاؤں اور بہت سے دوسرے ایسے اعضا ہیں جو مرنے کے بعد کسی ضرورت مند کو لگائے جا سکتے ہیں۔ شاید اس طرح مر کے بھی آپ زندہ رہ جائیں۔ گردے والا معاملہ ذرا خراب ہے۔ اصول سخت ہیں، اس پر تفصیل سے بات ہو گی۔ آنکھوں کا عطیہ بہرحال پاکستان میں باآسانی دیا جا سکتا ہے۔ مرنے کے بعد آپ کی آنکھوں سے کوئی دنیا کو دیکھے، وہ بندہ جو کئی برس اندھیرے میں گزار چکا ہے، اور کیا چاہیے بھائی؟

”آخر میں یہ بات کہ اس میں کوئی قربانی یا میری ذاتی بہادری کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ صرف اس ایک بچی کی خوشی ہے جس کی مدد میرے بالوں کی وگ کرے گی۔ جو ”فرینڈز آف کینسر پیشنٹس’‘‘والے بنائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر میں یہی کہتی ہوں کہ میں ہرگز کوئی دلیری نہیں دکھا رہی، نہ ہی اسے کوئی معرکہ سمجھا جائے، جو بچے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہے ہیں، بہادر وہ ہیں! وہ بچے جن کی نارمل زندگی چھن چکی ہے، جن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے اور جو ہسپتال کے کمروں میں رہنے پہ مجبور ہیں، اصل دلیر وہ ہیں۔ معرکہ مارنے والے وہ ہیں جو کینسر کی جنگ ہر نئی صبح لڑتے ہیں۔‘‘

پرما کے اس فیصلے کا مقصد ایک اور بھی تھا۔ کم از کم اپنے آس پاس کے لوگوں کو جھنجھوڑا جائے، سمجھایا جائے کہ بھائی کچھ تو تمہارے بس میں ہو گا، کچھ بھی معمولی سا؟ مطلب کمزور ترین سہی لیکن اس مرض سے بچاؤ کی آگاہی اور اس میں گرفتار مریضوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق جو کچھ کر سکتے ہو وہ تو کر لو۔ پرما نے یہ پیغام پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ پرما کے والد اور والدہ نے اسے مکمل سپورٹ کیا۔ بہت لاڈ سے اور فخر سے انہوں نے اپنی بیٹی کی تصویر اور پیغام ڈسپلے کیا۔ واللہ اتنی جرأت مجھ میں بھی نہیں ہے۔ شاید آئلہ پوچھے تو میں اتنے چھوٹے بال کٹوانے کی اجازت نہ دے سکوں۔ ایک اتنے بڑے دل والے باپ اور ایک اتنی ہمدرد ماں… واقعی پرما ان کے یہاں جنم لے سکتی تھی۔ جیتی رہو پرما، بہت سی خوشیاں دیکھو!

ایک ضروری بات؛ حکومتِ پاکستان سے درخواست ہے کہ سگریٹوں کے پیکٹ سے وہ ڈراؤنی تصویر ہٹا لیجیے جس میں ایک کینسر کے مریض کا زخمی چہرہ دکھایا گیا ہے۔ وہاں پھیپھڑے وغیرہ لگا دیں یار، خدا کا نام مانیں، کوئی بندہ سگریٹ نہ بھی پیتا ہو وہ تصویر دیکھ کے یرک جائے گا۔ جو پینے والے ہیں ان بے چاروں نے سگریٹ کیس میں ڈبیا چھپانی شروع کر دی ہے یا ولایتی سمگلڈ برانڈ پینے لگے ہیں۔ ٹیکس بھی نہیں دینا پڑتا۔ آگاہی مہم سو طریقوں سے ممکن ہے، کینسر کی وارننگ مہذب ملک ہر سگریٹ کی ڈبیا پہ دیتے ہیں لیکن ایسی واہیات تصویریں نہیں چھاپتے۔ اس طرح کسی اذیت میں مبتلا مریض کی تصویر اشتہار بازی یا پیغام رسانی کا تھرڈ ڈگری طریقہ تو ہو سکتی ہے، اصولوں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain