ضیا دور کی باغی لالہ رخ


دھند میں لپٹی ہوئی لاہور کی شام تھی اور الحمرا میں لالہ رخ کی یاد گیری کا پروگرام تھا ۔ مجھے صبح 11بجے کی فلائٹ سے پہنچنا تھا لیکن وہ منسوخ ہوئی۔ تمام پروگرام تلپٹ ہوا اور الحمد کے صفدر حسین نے بھاگم بھاگ مجھے الحمرا پہنچایا جہاں لالہ کی دوستوں کا ہجوم تھا ۔ یہ ہما صفدر اور ویف کی دوستوں کی عنایت تھی کہ انھوں نے مجھے اس محفل میں کراچی سے بلایا تھا ۔

ایک ہال میں لالہ کی مصوری کے نمونوں کی نمائش ہورہی تھی۔ جسے ’روپک‘ کا نا م دیا گیا تھا۔ الحمرا کا ہال 3 اس کے دوستوں، مداحوں اور خاندان والوں سے بھرا ہوا تھا ۔ کراچی کی انیس ہارون کی نثری نظم سے یاد گیری کی اس محفل کا آغاز ہوا۔ روبینہ سہگل لالہ کی قریبی دوستوں میں سے ہیں ۔ انھوں نے نہایت محبت سے اس کی لوٹی ہوئی پتنگوں کا ذکرکیا، جن میں ہر سال بسنت کے موسم میں اضافہ ہوجاتا تھا، دھانی اور سرخ کانچ کی چوڑیاں جو اسے بہت محبوب تھیں۔ مزدور تحریک سے اس کی کتنی گہری وابستگی تھی، عورتوں کے حقوق کے لیے اس کی جدوجہد، خواتین محاذ عمل (ویف) کی وہ 15 بنیادی اراکین میں سے ایک تھی، روبینہ ان کاموں میں اس کی سرگرمی کا بیان گلوگیر آواز میں کررہی تھیں۔

صبا حسین اور عمر بٹ نے لالہ کی مصوری کے حوالے سے اسے یاد کیا۔ لالہ کے والد نے جس طرح آل پاکستان میوزک کانفرنس کی بنیاد رکھی تھی اور لالہ کلاسیکی موسیقی اور موسیقاروں سے جس نوعیت کا گہرا تعلق رکھتی تھی، اس کا ذکر ہما صفدر، استاد پرویز پارس اور وسیم گیلانی کررہے تھے۔ سارہ زمان نے جب اپنی پُر سوز آواز میں جالب کی وہ نظم سنائی جو عورتوں کا ترانہ کہلاتی ہے: ’’اب دہر میں بے یارو مددگار نہیں ہم/پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم/ آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا/ تقدیر پہ شاکر پسِ دیوار نہیں ہم/ تم ظلم کیے جاؤ خدا ہی رہو اپنے/ ساتھی ہیں برابر کے، پرستار نہیں ہم‘‘

اسے سنتے ہوئے ہم رو رہے تھے، ہم ہنس رہے تھے اور ان دنوں کو یاد کر رہے تھے جب ظلمت کو ضیا اور صر صر کو صبا کہنے سے انکار کرنے والوں کا قبیلہ مست الست ہوکر آمریت سے ٹکرا رہا تھا۔

دھان پان سی لالہ اس قبیلے کی پیش رو تھی۔ اس کی رخصت سب کے دل پر خراشیں ڈال رہی تھی اور انھیں یاد دلا رہی تھی کہ اندھیری رات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ مزاحمت کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔ شیما کرمانی جو لالہ کی ایک قریبی دوست تھیں، انھوں نے اپنے رقص سے اسے خراجِ عقیدت پیش کیا۔

اس رات لالہ کو یاد کرتے ہوئے میں نے وقت کے سامنے پیشانی جھکائی اور اعتراف کیا کہ وقت، کائنات میں سب سے بڑا بٹ مار ہے، ہم سب وقت کی لہروں پر بہتے رہتے ہیں اور پھر اچانک کوئی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنی مختصر سی بیماری کے دنوں میں لالہ نے کب زیر لب یہ کہا کہ ’سکھی مجھے لینے کو آئے کہار‘۔ آنکھیں موندیں، فنا کی پالکی میں سوار ہوئی اور چلی گئی۔ وہ اتنی فرماں بردار تو کبھی نہیں تھی۔

نو عمری سے موسیقی کی لہروں پر بہتی ہوئی روشن آرا بیگم اور بڑے غلام علی خان کے بول بچن اور راگنیوں سے سیراب ہوتی ہوئی، آسمان پر گھلتے ہوئے رنگوں سے کھیلتی، پر وائی کے جھولے میں جھولتی اور مینہ کے جھالے سے سرشار ہوتی ہوئی گلابی رنگت اور گہری آنکھوں والی لالہ کیسے چپ چپاتے چلی گئی۔ اسے تو ابھی بہت سے کام کرنے تھے۔ ویمن ایکشن فورم کی جدوجہد اور پاکستان میں عورتوں کی جاگیرتی کو وہ سال بہ سال مرتب کررہی تھی۔ کیمرے کی آنکھ سے اس نے جو دیکھا وہ سب کچھ محفوظ کرلیا تھا۔

لالہ بھید بھاؤ رکھنے والی ایسی فنکار تھی جس کے اندر ایک باغی کا ٹھکانہ تھا۔ یہ ضیاء الحق کا دور تھا جس نے اس کے اندر چھپے ہوئے باغی کو آزاد کردیا ۔ سیمرغ نے عورتوں کی عدالت لگائی تو اس میں لالہ نے اپنے کیمرے کی آنکھ سے افغانستان، سری لنکا اور پاکستان میں انصاف کی طلب گار عورتوں کا مقدمہ بیان کیا۔ وہ دنیا کے ہر اس فرد کے ساتھ کھڑی ہوگئی جس کے سر پر سے آسمان گھسیٹ لیا گیا تھا اور پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی تھی۔

لالہ کی دعوت پر میں کئی مرتبہ مصوری اور خطاطی پر لیکچر دینے کے لیے نیشنل کالج آف آرٹس گئی اور ہر مرتبہ اس نے زیر لب مسکرا کر داد دی۔

اس کا اور میرا جھگڑا چولہے کے سامنے ہوتا۔ انڈے کھانے کی کیا ضرورت ہے اور اگر کھانا ہے تو صرف سفیدی کھاؤ، وہ مجھے آنکھیں دکھاتی۔ میں جواب دیتی کہ ذائقہ تو زردی میں ہوتا ہے اور پھر حسرت بھری نگاہوں سے اس زردی کو دیکھتی جو وہ پھینک دیتی تھی اور نہایت اہتمام سے رہ جانے والی سفیدی سے شغل کرتی۔ کھانے کے معاملے میں وہ میرے ساتھ روبینہ سہگل کو بھی ڈانٹتی۔ تم اور روبینہ اپنی صحت کی دشمن ہو۔ ہم دونوں ہنستے اور اس کے سامنے  ہر بد پرہیزی کرتے۔

فاطمہ مرنیسی کی کتاب ’شہر زاد گوز ویسٹ‘ میں نے ترجمہ کی اور اس کے نام معنون کی تو گہری نگاہوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ کیوں؟ اس نے پوچھا۔ میں تمہیں عزیز رکھتی ہوں اس لیے، پھر ہم نے دیر تک فاطمہ مرنیسی کی کتابوں کی باتیں کیں۔

لاہور میں لالہ رخ اور روبینہ سہگل کے گھر مجھے اپنے لگتے۔ لالہ نے بے ایمانی کی اور مجھ سے میرا بھرا گھر چھین لیا۔ میں اس کے یہاں جاتی تو مجھے معلوم تھا کہ جوتیاں کہاں اتارنی ہیں۔ لالہ کا کہنا تھا کہ یہاں لکیریں کھینچی جاتی ہیں، نقش بنائے جاتے ہیں۔ رنگ بھرے جاتے ہیں۔ میرا گھر کلا مند رہے۔ اس کا احترام کرو۔ گھر میں کبھی اگربتی اور کبھی عود و عنبر جلاتی۔ دھوئیں کے مرغولوں پر خوشبو سفر کرتی اور ہم کسی مندر کسی معبد میں سانس لیتے۔ ناولوں کی باتیں، فن اور فلسفے کی بحثیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ وقت سیاست کی طلسم ہو شربا پر باتوں میں صرف ہوتا۔ ہم ان دنوں کو یاد کرتے جب پاکستانی عورت کے اندر سے مزاحمت کا اکھوا پھوٹا تھا اور تناور پیڑ بن گیا تھا۔

بڑے بڑے انقلابی سیاستدان اپنے شملے میں منہ چھپائے پھرتے تھے، ایسے میں ویمنز ایکشن فورم بنی تھی۔ اِن عورتوں نے لاہور کی سڑکوں پر لاٹھیاں کھائی تھیں، جیل گئی تھیں اور جرنیل شاہی سے ٹکر لی تھی، لالہ کہتی تھی کہ میرے لیے ’اتھارٹی‘ ناقابلِ برداشت ہے۔ میں اور ہم سب وہ حکم کیوں برداشت کرتے جو ہمیں دیے جارہے تھے۔ مارشل لا کی اتھارٹی ہم پر مسلط کی جارہی تھی۔ انھی حالات نے ہماری تحریک کو جنم دیا۔ ہم سب لوگ ناتجربہ کار تھے، لیکن جذبہ تھا۔ ہماری تحریک میں ہر ایسا شخص تھا جو ذی حس تھا، ذی شعور تھا، غیر جمہوری نظام کے خلاف تھا۔ وہ ٹریڈ یونین کے لوگ تھے۔ طلبا، وکیل، صحافی، ادیب، مصور، مرد اور عورتیں ہم سب کی جدوجہد ایک تھی۔ ہماری ایک سَمت تھی۔

لالہ رخ کی شخصیت دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک حصہ کتابوں، مصوری، خطاطی اور فوٹو گرافی  کے لیے تھا اور شخصیت کی دوسری جہت سیاسی جدوجہد کے لیے مخصوص تھی۔1977 میں جنرل ضیا الحق نے جب بھٹوصاحب کی آئینی اور منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا تو سارے ملک میں اس کے خلاف آواز بلند ہوئی، بہ طور خاص لاہور آمریت کے سامنے صف آرا  ہوگیا۔ لاہوری نوجوان سگ خانے میں رکھے گئے، انھیں ٹکٹکی پر باندھا گیا، کوڑوں سے ان کی خاطر مدارات ہوئی، جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ وہ عورتوں کے خلاف جو کچھ بھی کریں گے، عورتیں اسے خاموشی سے برداشت کرلیں گی۔ یہ جنرل ضیا کی کم فہمی تھی، انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے عورتیں جم کر فوجی حکومت کے خلاف لڑائی لڑیں گی۔اس کا آغاز ان قوانین کے اعلان اور اطلاق سے ہوا جو اسلام اور شریعت کے نام پر سامنے آئے۔ ستم یہ ہوا کہ اسی زمانے میں عورتوں کے خلاف چند مقدموں نے ملک کی آبادی کو مشتعل کیا۔ عورتیں مزاحمت میں پیش پیش تھیں، اس لیے کہ اصل زد ان کے حقوق پر پڑ رہی تھی۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہم خیال قانون داں، ادیب ، صحافی اور مختلف پیشوں سے وابستہ خواتین سر جوڑ کر بیٹھیں اور 1983 میں خواتین محاذ عمل WAF وجود میں آیا۔ ویف کی 15 بنیادی اراکین میں سے ایک لالہ رخ تھی۔ اس نے احتجاجی پوسٹرز تیار کرنے اور پھر انھیں چھاپنے کا بھی اہتمام کیا۔ وجہ یہ تھی کہ خوف و ہراس کے اس زمانے میں پرنٹنگ پریس سے وابستہ لوگوں نے ’ویف‘ کے احتجاجی پوسٹر چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔اس زمانے میں لالہ رخ کے بنائے ہوئے 2 پوسٹر بہت مشہور ہوئے جن میں سے ایک کے پس منظر میں جناح صاحب اور محترمہ فاطمہ جناح کا سیاہ قلم عکس تھا جس پر ’ویف‘ کے مطالبات درج تھے۔

کہیں دور سے ریشماں کی آواز آتی ہے۔ ہائے مری ہم جولیاں، کچھ یہاں ،کچھ وہاں، وہاں جانے والی ہم جولیوں میں، سکھی سہیلیوں میں لالہ رخ، نگار احمد، شہلا ضیاء، نجمہ صادق اور کئی دوسری ہیں۔ روبینہ سہگل، خاور ممتاز، فریدہ شہید، نیلم حسین، نگہت سعید خان، مدیحہ گوہر، فریدہ شیر، فرزانہ اور نگار کے ساتھ میں یہاں کھڑی ہوں اور لالہ کو اور اس مزاحمت کو یاد کرتی ہوں جو ہماری تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ لالہ جانم۔ دوستوں کے ساتھ یہ سلوک تو نہیں کرتے کہ انھیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے جائیں۔ تم سے اس کے سوا اور کیا کہیں کہ

تنہا گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).