امیتابھ بچن دوستی نہیں بدلتے، پردھان منتری بدلتے ہیں


گزشتہ سال نومبر میں جب اچانک نوٹ بندی کا اعلان ہوا، تو ماہرین اقتصادیات میں رد عمل  کی ہوڑ سی لگ گئی۔ تعجب تب ہوا، جب ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی نے اس کو ‘ہندوستانی سیاسی تاریخ کاسب سے بڑا قدم ‘بتا ڈالا۔ کوہلی اس قدم سے خاصےمرعوب تھے۔کرکٹروں اور سیاستدانوں کی دوستی کوئی نئی بات نہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے لیڈر لمبے عرصے سے کرکٹ یونین کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود وراٹ کوہلی کا بیان چونکانے والا تھا۔اس سے پہلے کبھی کسی کرکٹر نے کسی وزیر اعظم کے قدم پر اتنی جلدبازی نہیں دکھائی تھی۔ آخر ہمارے کرکٹر سیاست، تاریخ اور اقتصادیات کے بارے میں جانتے ہی کتنا ہیں کہ ان کو ‘ نوٹ بندی ‘ جیسے معاملےپر اس طرح  تبصرہ کرنے کا حق مل جائے؟

کرکٹروں،فلمی ستاروں کی عوامی مقبولیت  ہے۔کرکٹر تو گاہے بگاہے کچھ بڑےلیڈروں سے ہی جڑتے نظر آئیں‌گے، مگر فلمی دنیا میں لیڈروں سے محبت عام ہے۔ امیتابھ بچن کو ہی لیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ کے سب سے مقبول اور معروف اداکار ہیں۔ 80 کی دہائی میں وہ طویل عرصے سے حکمراں کانگریس کے خاصے قریب تھے۔ راجیو گاندھی کے کہنے پر الٰہ آباد سے کانگریس کی ٹکٹ پر انتخاب تک جیتے۔ لیکن 1990 کی دہائی میں تعلقات میں درارپڑنے لگا۔ یہ ہندوستانی سیاست میں کانگریس کی چمک‌کے مدھم  ہونے کا وقت تھا۔ 1996 میں دلّی کے اقتدار کے لئے متحد مورچہ تیارہورہا تھا۔ ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی بھی انہی میں تھی۔ نہروگاندھی پریوار سے دور ہوا بچن پریوار ملائم گھرانے کے قریب آتا دکھا، جس کا خاتمہ سپا کی ٹکٹ پر جیا بچن کی راجیہ سبھا میں داخلے کی شکل میں ہوا۔

ادھر کچھ بروسوں میں امیتابھ بچن نریندر مودی اور بی جے پی کے خاصے قریب آئے ہیں۔ جنوری 2010 میں وہ اپنی فلم کے پروموشن میں گجرات گئے، تو ان کی نزدیکی ریاست کے وزیراعلیٰ نریندر مودی سے ہوئی اور اسی نزدیکی نے ان کو گجرات کا برانڈ ایمبسڈر بنا دیا۔ مئی 2016 میں وہ وزیر اعظم مودی کے دو سال پورے ہونے پر منعقد سرکاری پروگرام کی نظامت ککی ۔اس کے بعد سے تو وہ حکومت کی پالیسیوں کی مسلسل تشہیر کرتے دکھتے ہیں۔

اداکار بھی شہری ہیں، اس لئے ان کو ان کے سیاسی اظہار کے لئے ملزم نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر بچن پریوار کے ایک کے بعد ایک بدلتے سیاسی رشتوں کو اتنی آسانی سے بھی نہیں لیا جا سکتا۔ ہالی ووڈ کے بڑے اداکاراؤں کو دیکھیں سیاسی رکاوٹ وہاں بھی ہے، لیکن وہ ایک جماعت تک محدود ہے۔ جارج کلونی اگر کمیٹیڈ  ڈیموکریٹ ہیں، تو پھر ہیں۔ اس حد تک کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی خوشامد کرتے، تو کلونی ان کی حلف برداری میں نہیں جاتے۔ کلنٹ ایسٹوڈ نے بھی ایک بار رپبلکن پارٹی کے نیشنل کنوینشن کو خطاب کیا، لیکن ڈیموکریٹ کے آس پاس بھی وہ کبھی نہیں دکھے۔

مغرب میں اداکار سماجی طور پر بھی فعال ہیں۔ وینیسا ریڈگریو یا اینجیلنا جولی جیسے تمام نام ہیں، جنہوں نے محروم اور ضرورتمندوں کے لئے بہت کچھ کیا۔ لیکن وہاں اپنی سماجی یا سیاسی رکاوٹ کےتئیں الگ طرح کاکمٹ منٹ اور استحکام دکھتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں دکھتا۔ تمام اداکاروں میں بھی رہنماؤں کے اردگرد دکھنے کی چاہت دکھتی ہے۔ ہاں، علاقائی سنیما میں ایم جی رام چندرن یا این ٹی راماراو جیسی مثال ضرور ہیں، جنہوں نے اپنی پارٹی سیاست کی۔ یا آج کی تاریخ میں پرکاش راج اور کمل ہاسن ہیں، جو اکثریت(تکثیریت) کے خلاف جارح ہیں۔ اداکار کا سیاستداں بننا ضروری نہیں۔ عزّت اس کی بھی ہے، جو اپنے فن کا ماہر ہے، کمیٹیڈ  ہے، مگر سیاست سے دور ہے۔ مگر حکمراں سیاست میں ہی امکان دیکھنے والوں کے بارے میں تو سوچنا ہوگا۔ 2006 میں جب کانگریس اقتدار میں تھی، تب شاہ رخ خان اپنی فلم کی دعوت کے ساتھ سونیا اور راہل گاندھی سے ان کے گھر پر ملے۔ بعد میں میڈیا سے مخاطب شاہ رخ نے سونیا گاندھی کو ‘ ایسی مضبوط رہنما ‘ بتایا، ‘ جن کی تعریف ہرکسی کو کرنی چاہیے ‘۔ امید ہے کہ شاہ رخ نئی فلم آنے پر سونیا کے بارے میں وہی بات دہرائیں‌گے، جو اب مخالف میں ہیں۔

مئی 2016 میں اداکار رشی کپور نے ‘ نہرو و گاندھی پریوار کے نام پر ہی تمام اسکیموں چیزوں کے نام کو لے کر اپنے اپنے ٹویٹ سے ہنگامہ مچا دیا تھا۔ انہوں نے غلط نہیں کہا تھا، لیکن اگر یہی بات وہ کانگریس کے اقتدار میں رہتے وقت کہتے، تو زیادہ قابل اعتماد بات ہوتی۔ ہندوستانی ایکٹر کی یہ ایک خاصیت ہے کہ وہ وقت اور اقتدار دیکھ‌کر باتیں کرتاہے۔ عامر خان بھی عدم رواداری کےموضوع پر پہلے جارح ہوئے، بعد میں سنگھ چیف کے ہاتھوں انعام لےکر اقتدار سادھنے کی کوشش میں بھی دکھے۔ مضمون کی شروعات میں نے وراٹ کوہلی کے پرجوش آواز سے کی تھی۔ بعد میں، جب نوٹ بندی منفی اثر دکھانے لگی، تب صنعت کار راجیو بجاج نے نیسکام کانفرنس میں اس کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ اگر حل یا خیال صحیح ہے، تو یہ مکھن میں گرم چاقو لگانے جیسا ہے۔ اگر خیال کام نہیں کر رہا، جیسے کہ نوٹ بندی، تو عمل آوری پر جرم نہیں منڈھا جانا چاہئے۔ ‘

تجارتی گھرانوں سے سرکاری پالیسیوں کی ایسی جارحانہ تنقید نایاب ہے۔ اپنے یہاں جارج سوروس جیسی مثال تو ملے‌گی نہیں، جو حکومتوں کے غیراخلاقی و تاناشاہی رویے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی جائیداد اور شہرت داؤ پر لگا دے۔ مشکل گھڑی میں بھی کسی صنعت کار نے ایسی کوئی جرات نہیں دکھائی تھی۔ اس کے الٹ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب چند مسلم ممالک کے شہری کے امریکہ داخلہ پر روک لگائی، تو مائکروسافٹ، گوگل سے لےکر ایپل، فیس بک جیسی کمپنیاں کھل‌کر مخالفت میں آ گئیں۔ ان میں اور ہم میں یہی بنیادی فرق ہے۔

آخر فلمی ہستیوں کی طرح سرمایہ دار بھی اقتداری استحکام کے دلربا کیوں بنے رہنا چاہتے ہیں؟ ہمارے عوامی اداروں کی یہ ‘نازک مزاجی ‘اور ہمارے سیاستدانوں میں ان کا ‘ غلط استعمال کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ‘ شاید اس کی ایک وجہ ہو۔ جارج سوروس یا میرل اسٹریپ اگر ٹرمپ کے خلاف جاتے ہیں، تو ان کو پتا ہے کہ کل ان کے خلاف معاملے نہیں کھلیں‌گے۔ ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں اقتدار کسی کی ہو، ناقدین ا ور مخالفین کے خلاف سرکارینظام کا کھلااور غلط استعمال ہوتا ہے۔ یہ ذاتی جرات میں کمی کا معاملہ بھی ہے، جو ہمارے مالداروں یا سلیبریٹی کو بھی کھلنے سے روکتی ہے۔ ایک بار شہرت یا دولت، یا پھر دونوں کما لینے والوں کو یہ سب گنوانے کا ڈر ستانے لگتا ہے۔ یہ بڑاالمیہ ہے۔

رام چندر گہا 

بشکریہ؛ دی وائر اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).