سائنسی حقائق بمقابلہ وجودی خوشی


اگلے روز’ہم سب‘ پر شائع ہونے والی مضمون ’خوشی ایک سائنسی عمل ہے عمل ہے یا رُوحانی‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ایک دل چسپ دوست یاد آئے جو  ایک کتاب پڑھ کر ہر اُس چیز کو سائنسی نکتہ نظر سے دیکھنے اور دکھانے لگے تھے جسے ہم اور ہمارے دیگر دوست جمالیاتی زاویوں سے دیکھا کرتے تھے ۔

 یہ وہ دور تھا جب  دوست پیسے جمع کرکے ٹیپ ریکارڈر کے سیل خریدتے اور چاند کی تقریباً ہر چودھویں رات دریائے چناب کے کنارے موسیقی سنتے ہوئے گذارتے ۔ تب پھول پتوں کے رنگ زیادہ رنگین لگتے اور ہر سچا سُر دل میں اتر جاتا ۔

 ایسی ہی ایک رات تھی کہ موصوف ہمیں ہنستا کھیلتا دیکھ کر ایک طرف خاموش ہوکر بیٹھ گئے ۔ ہمارے استفسار پر انہوں نے یہ بنتا کر ہمیں حیران کردیا ہے کہ فطری مناظر، پھولوں اور دنیا کو جمالیاتی زاویے سے دیکھ کر ہم جیسے جھومنے والوں کو وہ اس وقت سے بیوقوف سمجھنے لگے تھے جب سے انہوں نے ایک کتاب پڑھی تھی ۔ مزید پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ ہم جس چاند پر مرے جا رہے ہیں وہ محض ایک ریگستان ہے جس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہے ۔ سورج بھی کوئی عجوبہ نہیں محض گیس کی ایک بہت بڑی بھٹی ہے اور دریا کا پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن جیسی گیسوں کا مجموعہ ۔

دوستوں میں سے کسی نے پھولوں کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے سائنس تو یہ بتاتی ہے کہ پھول پودوں کے آلاتِ تناسل ہیں ۔ رنگ اور خوشبو تتلیوں اور بھنوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہیں ۔ اگر کوئی تتلیوں سے پیار کرتا ہے تو پھر وہ پودوں کی وچولن یا دلال سے پیار کرتا ہے جن کا کام ان کی عزتوں کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں اور یوں ان تمام چیزوں کی محبت سے حاصل ہونے والی خوشی پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے ؟

ان سے سوال کیا گیا کہ ان کا محبت کے بارے میں کیا خیال تو فرمایا کہ اس کے بارے میں وہ اگلے روز سائنسی دلائل کی روشنی میں بات کریں گے ۔

اگلے روز وہ اپنی زیر ِ مطالعہ کتاب کی مجلد فوٹوکاپی کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا کہ محبت کا دھوکہ انسان کو فلاں ہارمون اور ڈھمکان کیمکل کے جسم میں خارج ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس لئے جسے ہم محبت سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل ہارمونل یا کیمیائی عدم توازن کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہ ہارمونل اور کیمیائی عدم توازن اگر توازن میں بدل دیا جائے تو محبت کا بھوت سر سے اُتر جائے گا ۔ انہوں نے ہمیں نوید سنائی کہ بہت جلد ایسی ادویات تیار ہوجائیں گی جن کے کھانے سے انسان محبت اور معاشقے جیسی فضولیات سے آزاد ہوجائے گا ۔

ہم نے موسیقی کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے کہ اس سے حاصل ہونے والے کیف اور سُرور کی وجہ بھی کیمیائی یا ہارمونل ہوسکتی ہے ۔ اس لئے موسیقی سننے یا سمجھنے والے اگر خود کو موشگاف یا باذوق سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ کوئی انسان محض اس بنیاد پر کسی سے حساس ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا  کہ وہ کچھ با ربط آوازیں سنتا ہے اور یوں اُس کے کچھ ہارمونز حرکت میں آجاتے ہیں ، جسم میں کچھ کیمیائی مادے پھوٹتے ہیں اور دوسروں کے ہاں ایسا واقعہ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح شاعری اور فنونِ لطیفہ سے حظ اٹھانے والے بھی  جسم کے اندر کیمیائی مدوجذر اور جوار بھاٹے کو ذو ق قرار دیتے ہیں ۔ ماں کا بچوں سے اور بچوں کا والدین سے پیار بھی فنکشنل ہونے کی بنا پر کوئی بڑی بات نہیں ۔

بلاشبہ وہ دوست یا ان کی ہمنوائی میں جو بھی یہ طرزِ فکر اختیار کرتا ہے دراصل سائنسی حقائق کی روشنی میں بات کررہا ہوتا ہے تاہم وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو حقائق ہماری زندگی کو جینے کے قابل بناتے ہیں وہ ہارمونل اور کیمیائی کے ساتھ ساتھ وجودیاتی حقائق (existential facts) ہیں جنہیں کارل ینگ نفسیاتی و جمالیاتی حقائق بھی کہا کرتا تھا ۔ ینگ اور جوزف کیمپبل جیسے نفسِ انسانی کے ماہرین اور آج ڈیوڈ بوہم جیسے طبیعات دانوں کا زور اس بات پر ہے کہ محض درج بالا نوعیت کے سائنسی حقائق کی روشنی میں اگر زندگی گذارنے کی کوشش کی جائے تو ایسی زندگی کچھ بھی ہوسکتی ہے مگر زندگی نہیں ہوسکتی ۔

سائنسی حقائق کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور سائنس کا مقصد، برٹرینڈرسل کی زُبان میں ، انسان اور فطرت کے مابین حقیقی یا واہماتی تنازع کا حل ہے ۔ لہٰذا انسانی کے اندر ہارمونز، انزائمز یا پھر کیمیائی مادوں کا علمائے طب کی مدد کرتا ہے کہ وہ بیماریوں سے بہتر سے بہتر انداز میں نبردآزما ہوسکیں ۔ تاہم ان حقائق کی مدد سے بنیادی انسانی جذبات کو ( جن میں خوشی ، محبت، ہمدردی ، ہم گذاری اور جمالیاتی واردات بھی شامل ہیں ) واہمہ اور فریب قرار دینا بھی وجودیاتی و جمالیاتی سطح پر خودکشی کے مترادف ہے ۔

 چند ماہ قبل بین الاقوامی سطح پر جانے مانے پاکستانی سیاسیات دان پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد سے ایک ممتاز دانشور کے ہاں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بات چیت کے دوران اس نقطے پر خصوصی زور دیا کہ بہت سے پاکستانی دانشور اس غلطی کا شکار ہیں کہ مغرب میں بشریاتی اور بنیادی انسانی اقدار کی سطح پر جو ترقی دیکھنے میں آئی ہے اس کا راز مغرب کی بے لچک عقل پرستی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ارتقأ ، اس ترقی کا راز بے لچک اور مطلق عقل پرستی کی بجائے مغرب میں وسیع پیمانے پر شرف قبولیت پانے والے انسان دوستی کے نظریات ( humanism) ، بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ضرورت کا احترام ہے ۔

انسانی دوستی کے نظریات ، بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ضروریات کے نظریات ہوں یا پھر زندگی کی ہر شکل کے بچاؤ اور تحفظ کے لئے کی جانے والی تگ و دو ۔ سب زندگی کو وجودیاتی حقیقت کے طور پر دیکھنے ممکن ہے اور وجودیاتی زاویے میں ایک روشن خط جمالیاتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).