جب حجرے کے اختیارات مسجد کو منتقل ہو جائیں


سندھ لٹریچر فیسٹول میں برادرم عابد میر نے سوال کیا، پختونخوا میں ادب کن مشکلات سے دوچارہے؟ اس سوال کے جواب میں خاموش رہا جائے تو بھی جواب معلوم ہے۔سامنے کی دیوار کا نوشتہ کون نہیں پڑھ سکتا۔ نائن الیون کے بعد پشاور سے قندھار تک اور وہاں سے کوئٹہ تک حجرے کے اختیارات مسجد کو منتقل ہوگئے ہیں۔ مسجد عبادت گاہ ہے اور حجرہ تہذیب وثقافت کی اقامت گاہ۔ مسجد کا اپنا پروٹوکول ہے اور حجرے کا اپنا پروٹوکول۔مسجد میں بے تکلفی روا نہیں ہوتی۔ حجرے میں تکلف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مسجد کے صحن میں اتنڑ کرنا تقدس کے خلاف ہے۔حجرے میں اتنڑسے انکارحجرے کی بے حرمتی ہے۔مسجد میں اذان دی جاتی ہے۔حجرے میں ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ مسجد میں عقیدے کی پرکھ ہوتی ہے۔ حجرے میں موقف پر بات ہوتی ہے۔مسجد میں جائز اور ناجائز کے پیمانے ہوتے ہیں۔ حجرے میں ٹھیک اور غلط کی میزان ہوتی ہے۔مسجد میں پند ونصائح چلتے ہیں۔ حجرے میں مشورے اورفیصلے ہوتے ہیں۔مسجد میں صلح کی ترغیب دی جاتی ہے۔ حجرے میں صلح کروائی جاتی ہے۔مسجد کا دروازہ مخصوص اوقات میں کھلتا ہے۔ حجرے کا دروازہ ہی نہیں ہوتا۔مسجد میں آنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو۔ حجرے میں آنے والے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ انسان ہے۔ مسجد خود دیوار کی ایک اینٹ ہے جو محدود گھارے کی نمائندگی کرتی ہے۔ جبکہ حجرہ خود دیوار ہے۔دیوار دو چار اینٹوں کی نمائندگی نہیں کرسکتی۔اس پر لازم ہے کہ وہ ہر اینٹ کو یہ احساس دلائے کہ یہ دیوار تم ہی سے ہے۔مسجد کا انتظام حجرے کے پاس ہو، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ حجرہ مسجد کو جوابدہ ہوجائے، یہ حفظ ِ مراتب کے خلاف ہے۔

کعبے میں مسلماں کوبھی کہہ دیتے ہیں کافر

میخانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

حجرے کے اختیارات مسجد کے پاس متنقل ہونے کا نقصان واضح ہے۔ شیوخ و سالک مسجد کا پروٹوکول حجرے پہ لاگو کردیتے ہیں۔ وہ امور جن کی انجام دہی مسجد کے تقدس کے خلاف ہے وہ امور حجرے میں بھی ممنوع قرار پاتے ہیں۔بلوچستان اور پختونخوا کے باسی ماضی میں جھانک کردیکھیں۔ آپ کو اپنے اجداد شادیوں میں روایتی رقص اتنڑ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔خواتین “ٹپوں” پر مہندی بھری تالیاں پیٹتی اورجھومتی دکھائی دیں گیں ۔یاد کیجیے جب دینی علما بھی تہواروں میں روایتی رقص کیا کرتے تھے۔ اب آپ پنجاب یونیورسٹی میں بھی رقص کریں تو تنبو الٹ دیے جاتے ہیں۔ ہم سے پہلوں میں خوبی کیا تھی؟ وہ تہذیب کو حجرے سے کھڑے ہوکر دیکھتے تھے۔ یہ میں اور آپ کیا کررہے ہیں ؟ ہم ثقافت کو گنبد سے جھانک کر دیکھ رہے ہیں۔گئے وقتوں میں ساحلوں پہ گانے والوں کو یاد کر کے ناصر کاظمی سر نہ پیٹیں تو کیا کریں۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا ، زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے۔

زاویہ نظر کے بدلنے سے تناظر بدل جاتا ہے۔ ہم نے نظر کا زاویہ بدل لیا ہے۔ حجرے کی آنکھ اٹھاکر مسجد کے مینار پہ رکھ دی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔شعر تو شاعر کہہ رہے ہیں، مگر مفہوم واعظ بیان کررہے ہیں۔ محتسب شاعر کی تشریح کو مسترداور واعظ کی تشریح کو قبول کررہا ہے۔چلیے مفہوم بھی واعظ ہی بیان کردیں، مگر مشکل یہ ہے کہ شعر میں ٹھیک اور غلط کی بجائے وہ جائز ناجائز تلاش کر رہے ہیں۔یعنی استعاروں پر استخاروں والے گرفت فرمارہے ہیں۔ مشال خان کے ساتھ کیا ہوا؟ عدم کا ایک شعر ہی تو اس نے پوسٹ کیا تھا۔ جس شعر پر حضرتِ ندوی سے لے کر احمد جاوید تک کسی نے گرفت نہ فرمائی وہ میرے اور آپ کے زمانے میں قابل دست اندازیِ خدائی پولیس قرار پایا۔ سانحہ کبھی بھی موقع کی پیداوار نہیں ہوتا۔ برسوں کی پرورش کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ حجرہ یونہی موسم کی خرابی کے نتیجے میں ویران نہیں ہوا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے خون کی ہولناک ہولی کھیلی گئی ہے۔یقین نہ آئے تو مشال خان کی مرقد سے کچھ پرے جاکر دیکھیے۔ سردار علی ٹکر چٹخی ہوئی بانسری اٹھائے امریکہ جارہے ہیں۔ ہارون باچا کو اپنا خون خون ہارمونیم سمیٹنے کی مہلت بھی نہیں ملی۔ لیجنڈز میں ایک گلزار عالم تھے جو مٹی پہ کھڑے رہے، مگر تابکہ؟ ابھی کل کی بات ہے کہ فیصلہ کن فتوے کے آگے انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ تین ہفتوں سے کابل میں بیٹھ کر اپنی مٹی کو رورہے ہیں۔ کمال محسود کو تو سرائیکی بھی جانتے ہیں۔ دشت لیلی کے پل سے گزرتی ہوئی ڈاٹسن میں بھی ان کے بول گونجتے ہیں۔ کسی تقریب میں مل جائیں تو ان سے پوچھنا چاہیئے کہ کامل پانچ برس تبلیغی جماعت میں پناہ لینے پر کیوں مجبور رہے۔ امریکہ کے باسیوں کو نیویارک میں عالم زیب نامی پختون ٹیکسی ڈرائیور ملے تو اس سے پوچھیں کہ کیا آپ وہی آرٹسٹ عالم زیب ہیں جسے طالبان نے اغوا کرلیا تھا؟ بازیاب ہوئے تو پھر عمامہ پہن کرتبلیغی جماعت سے کیوں وابستہ ہوئے؟موقع پاتے ہی عمامہ اتار کر سرحد کیوں عبور کی؟امارات کی عمارتوں میں بجریاں ڈھونے والے پراگندہ طبع لوگ سر شام کوئی شعر کہہ کر روح لرزادیں تو ان سے ضرور پوچھیے کہ پردیس کی خاک کیوں چھان رہے ہیں۔ جواب میں وہ کہیں گے کچھ نہیں، بس ان کی سناٹے جیسی چپ پڑھیے گا۔

میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا، مگر یہ سامنے کا سچ ہے کہ ملک یرغمال ہے۔ چارشہروں کو ملانے والی شاہراہ ایک ہفتے سے بند ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ بہت معلوم لوگ ہیں۔ ایوان سیاست ،بارگاہ عدل وانصاف، محکمہ دفاع اور ذرائع ابلاغ میں موجود ایک طبقے کا یہ فطری اتحاد ہے۔ معاشرت میں حجرے کا اختیار یہ مسجد کو دینا چاہتے ہیں۔ سیاست میں عوام کا اختیار یہ بندوقچی کو سونپنا چاہتے ہیں۔ مل بانٹ کر دو سولیاں اٹھائی ہوئی ہیں۔ ایک پر غدار لٹکائے جاتے ہیں دوسری پر مذہب دشمن۔ یہ غدار اور مذہب دشمن کون ہیں؟ یہ وہی ہیں جن کے کہے اور لکھے کو اپنی من مانی تشریح کی قبائیں اوڑھائی جارہی ہیں۔ شبیرحسین شاہ ، شکیل اوج، ڈاکٹر یاسر رضوی اور ڈاکٹر فاروق خان جیسے اساتذہ کی گردنیں انہوں نے ہی ناپی تھیں۔کیونکہ اپنے کہے اور لکھے کا وہ مفہوم قبول نہیں کیا گیا جو ان اساتذہ نے خود بیان کیا۔ وہ مفہوم تصور کیا گیا جو مسجد کی صحن میں بیٹھے محتسب کو سمجھ آیا۔ ایسے ہی حالات ہوتے ہیں جب ابرارالحق جیسے فن کار تحریک لبیک یارسول اللہ کے خیمے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ کتنی سہولت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ طالبان اور لبیک یارسول اللہ والے تو شدت پسند ہیں،اسلام کا اصل چہرہ تو کچھ اور لوگوں کے پاس ہے۔کیا کہیں صاحب! ہم نے پختونخوا میں اصل چہرے کی حکومت بھی گوارا کی ہے۔ کلچر سینٹر کو تالے لگانے کے احکامات اسی حکومت نے جاری کیے تھے۔ بیک جنبش قلم کتنے شاعر، کتنے مصور، کتنے اداکار اور کتنے گلوکار دردبدر ہوگئے تھے کس نے جانا۔ مسئلہ اسلام کے اصل چہرے اور نقل چہرے کا نہیں ہے ۔ جب سیاسی معاملات حجرے میں بیٹھ کر نمٹانے کی بجائے منبرپر بیٹھ کر نمٹائے جائیں گے تو پھر کیا اصل چہرہ اور کیا نقل چہرہ۔یہی فرق ہوگا نا کہ نقل والے اغوا کر یں گے اصل والے گرفتار کر یں گے؟آپ کی تاویل اپنی جگہ مگرساکنانِ شہر کے لیے تو قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں۔ کلچرسینٹرکا تالا اب بمشکل ٹوٹا ہے تو اصل چہرے پھر سے باجماعت جی جلانے کو آ گئے ہیں۔

 ادب تازہ زمانے کی طرف اشارہ کرنے کا سلیقہ ہے۔ کاغذ قلم کا مسلک پوچھا جائے گا تو ادب کیسے تخلیق ہوگا۔عروض سے بھی زیادہ وضو کا پابند کیا جائے گا تو شاعر شعر کیسے کہے گا۔ رنگوں پرفرقوں کی ملکیت ہوگی تو آرٹسٹ اپنی تصویر کیسے مکمل کرے گا۔ جب آوازوں کا مذہب پوچھا جائے گا تو سرساگر ذوق کی تسکین کیسے کریں گے۔جب قلم کو کلمہ پڑھوایا جائے گا تو مورخ پوری گواہی کیسے دے گا۔ جب علم پر عقیدے کا اجارہ ہوگا تو بات آگے کیسے بڑھے گی۔ بات یہ ہے کہ ثقافت اور مذہب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی غلطی ہم سے سرزد ہوئی ہے۔ اس غلطی نے حجرے کو ویران کردیا ہے۔ اقبال کا “جوابِ شکوہ” تو مسجد کی صحن میں سمجھ آجائے گا۔ حجرہ نہیں ہوگا تو “شکوہ” کے رموز کہاں بیٹھ کر سمجھیں گے۔ یعنی حمزہ شنواری اور غنی خان کو رکھیے ایک طرف ،اقبال کو مہمان کرنے میں بھی اب اس زمین پر مشکل درپیش ہے ۔ اقبال اگرخدا سے کلام کرنا چاہیں گےتو مسجد یں بہت۔ مگر پیچوان اڑانے کہاں جائیں گے؟حجرہ تو یرغمال ہے! جبینِ نیاز میں تڑپنے والے ہزار سجدے تو اقبال کرلیں گے۔ مگرہزار سجدوں سے جو نجات دیتا ہے ، وہ ایک سجدہ کہاں کریں گے؟ حجرہ تو ویران ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).