’ٹرائل شروع ہوتے ہی اولے پڑے‘


پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف بدھ کو چھٹی مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے ہمراہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بھی تھے۔ یہ ان دونوں میاں بیوی کی آٹھویں پیشی تھی۔

احتساب عدالت میں تینوں ریفرنسز کی سماعت کے دوران پہلی بار تینوں ملزمان ایک ہی وقت میں ایک ساتھ کمرۂ عدالت میں پیش ہوئے۔ اس سے پہلے کبھی کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اور کبھی مریم نواز الگ الگ کمرۂ عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز کو جج کی کرسی کے سامنے لگی ہوئی کرسیوں پر بٹھایا گیا، ان کے ساتھ سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید بیٹھے ہوئے تھے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو اس بار بھی آخری بینچوں پر ہی نشست ملی۔

بدھ کو سابق وزیر اعظم کے چہرے پر سنجیدگی گذشتہ سماعتوں سے زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔

کمرۂ عدالت میں موجود صحافیوں نے نواز شریف سے سوال پوچھنا شروع کر دیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جن کے نہ صرف ناقابل ضمانت ورانٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں بلکہ انھیں تین مقدمات میں اشتہاری بھی قرار دیا جا چکا ہے تاہم اس کے باوجود انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چاروں مقدمات میں دو، دو لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت پر رہا کر دیا۔

یہ سوال سن کر نواز شریف خاموش رہے، اس کے بعد ایک اور صحافی نے ان سے سوال کیا ’میاں صاحب اس کے برعکس آپ کے داماد (کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر) کو نیب کی ٹیم ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت لے کر آئی۔‘

اس پر سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا ’یہ عدالتوں کا دوہرا معیار ہے، ہم اس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘

اس موقع پر بات کرتے ہوئے مریم نواز نے طنزیہ انداز میں کہا ’حیرت ہے کہ ایک اشتہاری کو فوری طور پر ضمانت بھی مل گئی۔‘

نواز شریف مزید بات کرنا چاہتے تھے کہ اس دوران عدالت کے جج محمد بشیر کمرۂ عدالت میں آ گئے جس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔

کمرۂ عدالت میں سینیٹر پرویز رشید اور نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری آصف کرمانی انھیں پوائنٹ لکھ کر دیتے رہے جو انھوں نے ممکنہ طور پر سماعت کے بعد کمرۂ عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کہنے تھے۔

سماعت کے دوران سکیورٹی اینڈ سٹاک ایکسچینج کمیشن کی افسر سدرہ منصور بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں اور ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی جن پر ان کے ہاتھ کی انگلیاں بڑی تیزی سے چل رہی تھیں۔

جب سدرہ منصور کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بلایا گیا تو اس وقت تسبیح پر ان کے ہاتھ کی انگلیوں کی رفتار پہلے سے بھی تیـز ہو گئی۔

سدرہ منصور جو کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز میں گواہ ہیں، ان کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے کمرۂ عدالت کے اس طرف لے جایا گیا جہاں پر نیب کی قانونی ٹیم اور سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار موجود تھے۔

نواز شریف نے سرکاری گواہ کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جبکہ مریم نواز نے سرکاری گوا کو بھر پور انداز میں دیکھا۔

نیب کی جانب سے پیش کردہ سرکاری گواہ نے اپنا بیان تو ریکارڈ کروا دیا لیکن جب ان پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کی تو وہ کنفیوژ ہوگئیں اور جو دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں تھیں ان کو اصل قرار دینا شروع کردیا تاہم جب عدالت نے ان دستاویزات کو چیک کیا تو وہ فوٹو کاپی تھی جس پر عدالت نے سرکاری گواہ کو اپنے بیان کی تصحیح کرنے کا کہا۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل نے مداخلت کی اور کہا ’مائی لارڈ ایسا نہیں ہو گا‘ جس طرح سرکاری گواہ نے بیان دیا ہے پہلے اس کو اسی طرح لکھا جائے اور پھر اس کے بعد تصحیح کا لکھا جائے۔

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پہلی مرتبہ کمرۂ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اس سے پہلے وہ جوڈیشل کمپلکس کی حدود میں میڈیا کے نمائندوں کو ہی مصروف رکھتے تھے۔

اسلام آباد میں بدھ کو بارش بھی ہوئی لیکن اس دوران ژالہ باری صرف اسی علاقے میں ہوئی جہاں احتساب عدالت واقع ہے۔

ان ریفرنس کی سماعت کے لیے آنے والے ایک صحافی نے ایک مشہور کہاوت ’سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘ میں تھوڑا سا ردو بدل کرتے ہوئے کہا کہ’ٹرائل شروع ہوتے ہی اولے پڑے‘ جس پر کمرۂ عدالت کے باہر لیگی رہنما بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp