جنسی ہراسانی کی نئی بحث اور پرانی کہانی


جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف پوری دنیا میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک جنسی ہراسانی کی کہانیاں منظرنامے پر آتی رہتی ہیں۔ ہالی وڈ، بالی وڈ، لالی وڈ کی اداکاراؤں کی جنسی ہراسانی کی داستانیں پڑھنے اور سننے میں ملتی ہیں۔ خواتیں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف #me too جیسی مہم چلتی رہتی ہیں اور کافی حد تک ان جیسی آگہی کی مہمات کی شروعات سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر کچھ دن رہ کر خاموش ہو جاتیں ہیں۔ میڈیا پر جنسی استحصال کی مہم چلنے پر یقیناً خواتین کو حوصلہ ملتا ہوگا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کو جنسی طور پر ہرانساں کرنے اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مرد تو جنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کی کوششیں کرتے ہی رہتے ہیں مگر پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (TEVTA) کے GTVI ملہال مغلاں ضلع چکوال کی لیڈی ٹریڈ انسٹرکٹر کے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ ایک ادارے کا سیکیورٹی گارڈ ان کو جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے۔ اگر وہ لیڈی انسٹرکٹر اپنے گھر والوں کو بتائے تو خون خرابے کے ساتھ اس کی نوکری چھوٹ جانے کا بھی خدشہ ہے۔ اپنے ادارے کے ضلعی سطح سے زونل سطح تک تو وہ اپنی جنسی ہراسانی کی فریاد سنا چکی ہیں۔ مگر ابھی بھی داد رسی کے لیے انتظار میں ہے۔ اگر ادارے کے افسران بالا خاموش تماشائی بن جائیں اور سیکورٹی گارڈ سے عزت اور آبرو کو خطرہ ہو، پھر کون سنے گا اس مظلوم استانی کی فریاد۔ روزانہ راستے میں آنکھوں اور اشاروں سے ہراساں کرنے والے کیا کم تھے کہ اب اسکول میں سیکورٹی گارڈ اور دوسرے لوگ بھی جنسی طور پر ہراساں کرنے لگے ہیں۔ کیا خواتین کے ساتھ جنسی طور پر ہراسانی کا صرف نوٹس اعلیٰ عدلیہ کو لینا چاہیے یا کسی اور کو بھی خواتین سے ساتھ ظلم و زیادتی اور جنسی ہراسانی کا نوٹس لینا چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنسی ہراسانی کے خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی سرکاری دفاتر اور نجی کمپنیوں میں بھی خواتیں کے ساتھ ہراسانی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ چاہے قائد اعظم یوینورسٹی ہو یا پنجاب، کراچی، سندھ، اور بلوچستان کے دیگر تعلیمی ادارے ہوں۔ ان میں خواتین طالبات اور ٹیچرز اور ساتھی خواتین کے ساتھ ہراسانی کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ مگر ہراسانی کیس میں سزا شاید ہی کسی کو ملی ہو۔ بس صرف انکوائری کمیٹی مقرر ہوتی ہے اس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

یہ معاملہ صرف پاکستانی یونیورسٹیز کا ہی نہیں بلکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مصری پروفیسر طارق رمضان کو فرانسیسی کارکن سمیت دو خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات میں تفتیش کا سامنا ہے۔ حال ہی میں شرمین عبید چنائے تمام نیوز چینلز اور اخبارات کے نیوز ہیڈلائنز کی توجہِ کا مرکز بنی رہی ہیں انہوں نے آغا خان ہسپتال کے ایک ڈاکٹر پر اپنی بہن کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر جنسی طور ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس کے بعد آغا خان ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر کو فوری طور پر برطرف کیا گیا مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی نے بھی متعلقہ ڈاکٹر سے کسی طرح کی کوئی رائے لینا گوارا نہیں کیا اور بحث چلتی رہی کہ جنسی ہراسانی سے کیا مراد ہوتی ہے؟ اور جنسی طور پر ہراساں کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور وہ کونسی ایسی حرکات یا عمل ہے جو جنسی طور پر ہراساں ہونے کے زمرے میں آتا وغیرہ وغیرہ۔ کوئی مزے لیتا رہا تو کوئی شرمین عبید کو اس اقدام پر شدید قسم کی تنقید کا نشانہ بناتا رہا اور کوئی شرمین عبید کے اسِ اقدام کی حوصلہ افزائی کرتا نظر آیا۔ اور یوں یہ بحث ختم ہوئی۔ لوگ جنسی ہراسانی کا مطلب سمجھنے کے لیے پھر سے ایک واقعے کے لئے تیار ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).