ریپ کے خلاف آگہی اور خادم حسین دھرنا


آزادی اظہار، عدالتی خود مختاری اور جمہوریت کی بالا دستی کے دعوؤں کے ہجوم میں وفاقی سنسر بورڈ نے ایک ایسی فلم دکھانے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے جس میں ایک طاقتور شخص ایک لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے اور وہ اس ظلم کے خلاف انصاف کےلئے جدوجہد کرتی ہے۔ اگرچہ سنسر بورڈ آج رات پھر اس فلم کو دیکھے گا اور یہ غور کرے گا کہ فلم میں کیسی کانٹ چھانٹ کے بعد اسے ریلیز کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ تاہم وفاقی سنسر بورڈ کا فیصلہ کئی لحاظ سے سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے جو سماجی برائیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش، آزادانہ طریقے سے ریپ جیسے موضوع پر گفتگو، عدالتی نظام کے بے ڈھنگے پن اور سیاسی ماحول کی سنگینی کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اول تو ایک ایسے دور میں جب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ماں باپ بھی یہ بات کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں کہ ان کے بچے کیا دیکھیں اور کیا معلومات حاصل کریں، فلموں، ڈراموں کے مواد یا پیشکش پر کنٹرول کےلئے قائم اداروں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پھر جب یہ ادارہ یہ تسلیم کرنے سے انکار کرے کہ اب اس کی حیثیت رسمی ہے اور درحقیقت آزادانہ اظہار کے حق کو بنیادی انسانی حقوق سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا تو یہ معاملہ صرف ایک فلم کو نمائش کی اجازت دینے سے متعلق نہیں رہتا۔ یہ اس اصول کے بارے میں ہے کہ کس بنیاد پر معاشرے میں آزادی اظہار پر قدغن عائد کی جا سکتی ہے۔

جیسا کہ سوشل میڈیا کے متعدد صارفین نے بھی توجہ دلائی ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے لبیک یا رسول اللہ کےنام سے بننے والی سیاسی پارٹی کے چند سو حامیوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ٹریفک روک رکھی ہے اور شہری زندگی معطل کی ہوئی ہے اور حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسی وفاقی حکومت میں چند افراد کا ایسا گروہ بھی موجود ہے جو دور حاضر کے مسلمہ میڈیم یعنی فلم کے موضوع اور مناظر کو کنٹرول کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ لبیک یا رسول اللہ نامی گروہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو موت کی سزا دینے کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں سامنے آیا تھا۔ اس کے لیڈروں کا موقف ہے کہ ممتاز قادری نے حب رسول اللہ میں سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا، اس لئے اس پر فرد جرم عائد کرنا یا پھانسی کی سزا دینا غلط تھا۔ اب اس احتجاج کو سیاسی پارٹی کی صورت میں منظم کیا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ملی مسلم لیگ کی طرح اس مذہبی گروہ کو بھی مسلم لیگ (ن) کا اثر کم کرنے کےلئے سیاسی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔

ان قیاس آرائیوں سے قطع نظر جو اصول مولوی خادم حسین اور ان کے ساتھی تسلیم کروانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص مذہب کی خود ساختہ تفہیم کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو قتل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس مقصد کےلئے ممتاز قادری کے جرم اور حرمت رسول کو عذر بنا کر ملک میں انتہا پسندی کا سنگین ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی گروہ اب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے فیض آباد میں دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ اس کے لیڈروں کی گفتگو دھمکی آمیز، اشتعال انگیز اور مخرب اخلاق ہوتی ہے۔ انہوں نے ملک کے سیاسی لیڈروں، عدلیہ کے ججوں اور فوج کے قائدین کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی ہے لیکن حکومت اس غیر قانونی حرکت کو روکنے اور اشتعال انگیزی کا خاتمہ کرنے کےلئے حرکت میں نہیں آتی۔ بلکہ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ لیڈروں سے گفت و شنید سے اس مسئلہ کا پرامن حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جو گروہ اپنی صوابدید کی مذہبی تشریح کی بنیاد پر انسانوں کو قتل کرنے کا ’’حق‘‘ مانگتا ہو، اس سے مصالحت آخر کس بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ لیکن اسی حکومت کا ایک ادارہ سنسر بورڈ ایک ایسی فلم کی نمائش کو ملک کے عوام کےلئے نامناسب قرار دے رہا ہے جس میں جنسی تشدد جیسے سنگین موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں کا یہ طرز عمل بزدلانہ اور مسائل سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔

فلم ’’ورنہ‘‘ کو نمائش کی اجازت نہ دینے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس میں ریپ جیسا گھناؤنا جرم کرنا والا شخص گورنر پنجاب کا بیٹا دکھایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ وفاقی سنسر بورڈ میں بیٹھنے والے ارکان فلم کے علامتی اظہار کو حقیقی مسئلہ کے حوالہ سے تو اہمیت دینے کےلئے تیار نہیں ہیں لیکن انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ فلم میں دکھایا جانے والا منفی کردار گورنر پنجاب کا بیٹا بھی ہو سکتا ہے۔ سنسر بورڈ کے ارکان اگر ایک صوبائی گورنر کے ذکر کو طاقت کی علامت کے طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں تو اس رویہ سے سوائے اس کے کیا اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ نہ تو علامتوں کی اہمیت سمجھتے ہیں، نہ مسئلہ کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ اظہار رائے کو عہد حاضر کی بنیادی ضرورت سمجھنے پر تیار ہیں۔ وہ حادثاتی طور پر حاصل ہونے والے اختیار کو استعمال کرکے اس دلیل کو مضبوط کرنے کا باعث بنے ہیں کہ ملک میں فلموں کی نمائش کےلئے سرکاری اجازت ناموں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔

وفاقی سنسر بورڈ کا فلم ورنہ کے خلاف فیصلہ دراصل ملک کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ فلم میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی لڑکی انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ ظاہر ہے اسے اس سلسلہ میں مشکلات، تعصبات اور عدالتی نظام میں حائل دیگر رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اس طرح یہ بات سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہوگی کہ جنسی تشدد جیسے ظلم کا شکار ہونے والے لوگ پاکستان کے سماج اور عدالتی نظام میں کیسی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ سنسر بورڈ جب اس حقیقت حال کی فلمی عکاسی کو سامنے لانے کو معیوب قرار دے رہا ہے تو وہ دراصل یہ تسلیم کر رہا ہے کہ ملک کا عدالتی نظام واقعی مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اس لئے فلم میں اس سچائی کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ اس طرح ملک کے ایک قابل احترام ادارے کے غیر فعال ہونے کے بارے میں تاثر کو تقویت ملے گی۔ ملک کی سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں اور ریمارکس کی روشنی میں دیکھا جائے تو سنسر بورڈ کا رویہ عدالتوں پر عدم اعتماد کے اس تصور پر یقین کرتا ہے جو فلم میں پیش کیا گیا ہے لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اسے تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اس کے ججوں کا کہنا ہے عدالتیں ملک میں انصاف عام کرنے اور سب کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کے عظیم مقصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔ سنسر بورڈ کے ارکان کو سوچنا چاہئے کہ وہ نچلی سطح پر عدالتوں میں مسائل کا شکار مظلوموں اور سائلین کی صورتحال سامنے لانے کی کوشش پر کیوں پریشانی کا شکار ہے۔

سنسر بورڈ کا رویہ ملک کے سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں پر بھی عدم اعتماد کو راسخ کرتا ہے۔ فلم میں علامتی طور سے گورنر پنجاب کے بیٹے کا نام استعمال کرنے سے قیامت برپا نہیں ہوتی بلکہ جب سنسر بورڈ اس قسم کے رویہ کے اظہار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ شبہ یقین میں بدلنے لگتا ہے کہ ضرور ملک میں طاقتور عہدوں پر فائز لوگوں کے اہل خانہ اس پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوں گے۔ تب ہی سنسر بورڈ کے ذریعے اس پر انگلی اٹھانے کی کوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ اس طرح سنسر بورڈ کا بظاہر ایک سادہ سا فیصلہ تعصبات اور شبہات کو جنم دینے اور بے یقینی میں اضافہ کرنے کا سبب بنا ہے۔ یوں بھی اٹھارویں ترمیم کے تحت فلموں کو سنسر کرنے کا کام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب اور سندھ کے فلم سنسر بورڈ فلم ’’ورنہ‘‘ کی نمائش کی اجازت دے چکے ہیں لیکن وفاقی سنسر بورڈ اس فیصلہ کو مسترد کر رہا ہے۔ گویا اٹھارویں ترمیم جو حق صوبوں کو عطا کرتی ہے وفاقی سنسر بورڈ اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ لوگوں کے اخلاق اور رائے کےلئے کون سی فلم مہلک اور کون سے مفید ہو سکتی ہے۔ یعنی کراچی اور لاہور میں بیٹھے صوبائی سنسر بورڈ کے ارکان ان حساسیات اور نزاکتوں سے آگاہ نہیں ہیں جن پر وفاقی سنسر بورڈ کی نظر ہے۔ یا تو سنسر بورڈ اپنے اس موقف کی وضاحت کےلئے مدلل اور تفصیلی جواب سامنے لائے یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ وفاق صوبوں کو اختیار دینے کے باوجود مختلف اداروں کے ذریعے اختیارات بہرصورت اپنے پاس ہی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیار کی تقسیم کے حوالے سے بھی یہ خطرناک صورتحال ہے۔

اسلام آباد میں موجود سنسر بورڈ کے ارکان سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے احتجاج اور اپنے فیصلہ کے بودے ہونے کی وجہ سے ممکن ہے بہت جلد اسے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ فلم ’’ورنہ‘‘ کو اصل حالت میں یا تراش خراش کے بعد نمائش کے لئے پیش کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن بورڈ کے ابتدائی فیصلہ سے اس ادارے کے ارکان کا جو رویہ سامنے آیا ہے وہ ان کی کوتاہ نظری پر دلالت کرتا ہے اور جدید جمہوری معاشروں کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ یہ آزادی اظہار اور سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی آواز پر براہ راست حملہ ہے۔ فلم ’’ورنہ‘‘ کا جو بھی حشر ہو، اس فیصلہ کے بعد وفاقی حکومت کو اول تو سنسر بورڈ جیسے غیر ضروری ادارے کو ختم کرنے کے لئے اقدام کرنے چاہئیں تاکہ قومی وسائل کا غیر ذمہ دارانہ مصرف روکا جا سکے یا کم از کم اس بورڈ کے موجودہ ارکان کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔

یہ فلم اس ویک اینڈ پر پوری دنیا میں نمائش کےلئے پیش کر دی جائے گی۔ اس پر سنسر بورڈ کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی نہ کسی طرح یہ فلم جلد یا بدیر پاکستانی ناظرین تک بھی پہنچ جائے گی۔ البتہ سنسر بورڈ نے جس رویہ کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے پاکستانی معاشرہ کی گھٹن کے بارے میں تصویر زیادہ واضح ہوئی ہے۔ اس گھٹن کو ختم کرنے کےلئے فلموں کے علاوہ ہر دستیاب فورم اور ذریعہ سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali