دو ٹکے کی عزت


کہنے کو تو ہمارا تعلق پاکستان کے بالائی طبقے سے ہے۔ جی ہاں، صد شکر کہ سنی بھی ہیں اور پنجابی بھی۔ پورا ملک بازیچہ اطفال ہے ہمارے آگے۔ والد صاحب شروع سے اعلی عہدوں پر فائز رہے۔ ہمیں بھی بہترین اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ پاکستانی معیار کے مطابق وقت سے کھاتے پیتے خاندان میں بیاہ بھی ہو گیا۔ راوی نے ہر طرف چین ہی چین لکھا۔ بظاھر۔

پر پکچر تو ابھی باقی ہے دوست۔ یا یوں کہئے اسی پکچر کا ’behind the scenes ’ شو ناظرین کی توجہ کا منتظر ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہمارا خاندان معاشرے میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا جہاں مرد پیسہ خوب کماتے تھے اور عورتیں گھر خوب سجاتی تھیں۔ ایک تو ہم پہلوٹھی کی اولاد تھے اور اوپر سے لڑکی ذات۔ خوب لاڈ اٹھائے گئے لیکن ساتھ ہی ساتھ تربیت میں بھی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ کیسےکندھے سکیڑ کر چلنا ہے، کیسے نزاکت سے اٹھنا ہے، کیسے خود کو سمیت کر بیٹھنا ہے، کیسے کسی آئے گئے کو مخاطب کرنا ہے۔ یہ سب ہی ہماری ملٹری ٹریننگ کا حصہ تھا۔ والدین کا اصول تھا ’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے ’ ۔ ہونا کیا تھا۔ یہ شمع اسی سانچے میں ڈھل گئی۔ خاندان کی باقی لڑکیوں کے لئے مشعل راہ ٹھہری۔

ہمارے پاکباز معاشرے میں چھوٹی بچیوں کو بھی بڑی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ نہ کبھی گودوں میں پیر کے بہانے بٹھایا جاتا ہے نہ ہی اس انداز سے گھورا جاتا ہے کہ ایک سات سال کی بچی بھی پہلو بدلنے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ایسی ناپاک خیال بھی کسی کے ذہن میں آئے تو ہماری مثالی مشرقی تربیت اس بات کا خاطر خواہ انتظام کرتی ہے کہ ماں باپ سے ذکر کرنا تو درکنار اپنے دل میں بھی ایسا رذیل خیال نہ لائے۔ عمر اور معاملہ بڑھے تو بھی بات گھر میں ہی رہے۔ بلکہ مناسب تو یہی ہو گا کہ دل کی بات دل میں ہی رہے۔ نہ رہے تو اس سے بھی اچھا۔

سڑکوں گلیوں بازاروں میں ہونے والے غلیظ نظروں کے فری ایکس رے اور بس ’غلطی سے چٹکی بھر لینے کا تو کہنا ہی کیا۔ خبردار جو کسی نے محلے کے ڈاکٹر صاحب کا زکام کے بہانے چھاتی کے ’چیک اپ‘ کا نام بھی لیا۔

خیر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ہم بیاہ کر ایک نیم انگریز ملک میں آ گئے جہاں گھورنے پر بھی مرد کا گریبان پکڑا جا سکتا تھا۔ یہ بات صرف کہنے کی ہی نہیں بلکہ محسوس کرنے کی بھی تھی۔ رات کے کسی بھی پھر گھر آتے کوئی ٹینشن کی بات نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ یہاں بھی وہی لوگ ہیں جو وہاں تھے۔ بس یہاں قانون کے ڈر سے اپنے اندر کا حیوان چھپائے بیٹھے رہتے ہیں۔ بس ایک بار اپنے ملک واپس پہنچنے دیں اور پھر دیکھئے۔

یہ دیکھ کر ہمیں تو لگا جیسے زندگی ایک دم سے گلزار ہو گئی۔ اپنا آپ محفوظ اور طاقتور لگنے لگا۔ چلتے ہوئے کندھے کم سکیڑنے لگے۔ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دل کی سننے لگے۔
لیکن وہ کیا ہے کہ پکچر تو ابھی بھی باقی ہے۔ اجی پکچر نہ ہو گئی سوپ اوپیرا ہو گیا۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں۔ خیرکہا سنا معاف کیجئے گا۔ رشتےدار دوست یار تو اس پاس تھے نہیں لہذا انٹرنیٹ کی دنیا میں ہی وطن کو تلاش کرنا چاہا۔ ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام۔ بس نام لیجیے اور خاکسار کو پائیے۔ پردیس میں دیس کا سامان بندھ گیا۔ کچھ بھی تو کمی نہ رہی۔

ذرا ٹھہرئیے۔ ادھربھی تو ماجرا وہی اپنے دیس کا سا دکھنے لگا؛ بالکل ہو بہو۔ وہی گلی کے نکڑ پر تاڑتے لوگ، بھوکی ناظرین، وہی سب مسائل پر ہمیں ہمیشہ سے سر جھکنے اور خاموش رہنے کا درس دیا گیا تھا۔ لہذا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری ایک شکایات سائبر اسپیس میں بیٹھے ان سب طرم خان بنے گیدڑوں کی کھالیں ہلکی کر سکتی ہے ہم چپ ہی رہے۔ اپنے اونچے عزت دار خاندان کی پرمپرا کے عین مطابق۔

پر اسی سوشل میڈیا ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہم تو کسی بھی کھیت کی مولی کہلانے کے اہل نہیں ہیں۔ انہوں نے تو شرمین عبید جیسی آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز کو بھی نہ بخشا۔ ماہرہ خان جیسی سپر اسٹار کے کردار کی دھجیاں بکھیریں۔ سوشل میڈیا پر ہر خاتون سیلبرٹی کے ہینڈل کو لیجیے تو ان کے مذہبی بھاشن اور خاتون کو قوم کے عزت دار ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہونے کے خطب خطاب جگہ جگہ دکھتے ہیں۔ یہ وہی عزت ہے جو ایک عورت کے جسم کی جھلک پر تو تار تار ہو جاتی ہے لیکن ان رکھوالوں کے کی بورڈ سے نکلنے والے مغلظات پر سالم سلامت قائم دائم۔ بسا اوقات تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی عزت ان کی خواتین کے پیرہن اور آواز میں ہی مقید ہے۔ ذرا ان میں سے کسی بھی چیز سے ہٹا اور آبرو کے جنازے کا پہلا گئیر اسٹارٹ۔

خدا کا شکر ہے کہ ہم میں ابھی بھی ایسے غیرتمند لوگ موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی گالیوں اور عورتوں کو ہر ممکن طور پر جنسی ہراساں کر کے ملک کی عزت کے چوکیدار بن بیٹھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی دو ٹکے کی عزت اس وقت کسی کونے میں دبک کر سو جاتی ہے جب ڈیرہ اسماعیل خان میں سولہ سالہ بچی کو برہنہ گھمایا گیا، لاڑکانہ میں سات سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی، پنچایت کے حکم پر زیادتی کا باقاعدہ حکم دیا گیا۔ سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہو کا عالم ہوتا ہے ہر طرف۔ موت کا سکوت طاری ہوتا ہے۔ خیر یہاں تو بےزبان مرغیاں، بکریاں اور دریائے سندھ کی بلھن بھی ان کی فرسٹریشن سے محفوظ نہیں۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان جانوروں نے ایسی کیا فحاشی کا مظاہرہ کیا کہ ہمارے یہ بھائی اپنا کنٹرول کھو بیٹھے۔

عجیب کنفیوژن سی ہے نہ؟ نہ تو ہمیں اس وقت اپنے بلاگ کی سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی آبرو کے اس شملے کی۔ خیر بلاگ کا کیا ہے۔ کس کھیت کی مولی ہے۔ یہ عزت کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا میڑھا ہے۔ ہماری ناقص عقل سے باہر۔

ایڈیٹر صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس تحریر کو پڑھ کر اسے آگ لگا دیں۔ ورنہ عزت کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں ہماری عزت محفوظ نہیں۔ شیش محل سی نازک جو ہے۔
چلتے ہیں اپنی جان اور آبرو بچا کے۔
دعاگو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).