ایدھی سے حسد کرنے والا خادم رضوی اور شہید مرغی


فیصل آباد میں ایک واقعہ بلکہ ایک سانحہ پیش آیا۔ کسی نے نومولود کو کچرے کے ڈبے میں پھینک کر آگ لگا دی۔ بعد ازاں وہ بچہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ یہ کوئی پہلا یا آخری ظلم نہیں۔ ایسے ظلم روز پاک سرزمین پر ہوتے رہتے ہیں۔ ایک ویڈیو شاید ابھی بھی ڈھونڈنے سے مل جائے جس میں ایک کتا کسی بچے کا ادھورا وجود اپنے منہ میں دبائے سڑک پہ دوڑتا جارہا ہے۔ یہ ویڈیو جب کسی نے مجھے ٹیگ کی تو اس کے بعد مجھے وہ کتا جانور نہیں لگا۔ اس سے بھی بڑا جانور تو وہ تھا جس کی بدولت وہ ادھورا جسم کچرا کنڈی تک آیا۔

ہمارا معاشرہ بے حسی کی تمام حدیں عبور کر چکا ہے اس لئے ہمیں کسی دلخراش واقعے کی خبر سے زیادہ باکسر عامر خان اور فریال مخدوم کے جھگڑے، صلح، خلع، رجوع جیسی خبریں زیادہ چٹخارے دیتی ہیں۔ پہلے دو واقعات پڑھ کر آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھیے کہ کیا محض صوبوں کی حکومتیں ذمہ دار ہیں یا اس ملک کی عدالتیں جو کبھی مجرم کو نشان عبرت نہیں بناتیں۔ پہلا واقعہ ہے ڈیرہ اسماعیل خان کا۔ جہاں ایک بچی کو با اثر افراد نے برہنہ کر کے علاقے میں پھرایا کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے کیونکہ ایک چھوٹے، بے اثر اور غریب خاندان نے متھا لگانے کی جرات کی ایک اعلی حسب نسب اور با اثر خاندان سے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق متاثرہ بچی لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی مدد مانگتی رہی مگر کسی نے اس کا تن نہ ڈھانپا۔ یہ ہے اس علاقے کی داستان جہاں کے افراد کے پاس غیرت کے ٹانک کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔

دوسرا واقعہ ہے پنجاب پولیس کے ان گنت دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں سے ایک۔ فیصل آباد میں ایک ایس ایچ او اور اس کے اوباش ساتھیوں نے ایک اے ایس آئی کی بیوی کو برہنہ کر کے تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ خبر آتے ہی ڈی آئی خان واقعے سے شرمندہ افراد پنجاب پولیس کو کوس کر وہ حساب برابر کرنے لگے جو گایاں خیبر پختونخواہ کی پولیس اور انتظامیہ کو گذشتہ ہفتے سے سننے کو مل رہی تھیں۔

ان دو واقعات کے ساتھ ایک تیسرا واقعہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ پنجاب کے علاقے حافظ آباد میں ایک 14 سالہ لڑکے نے مرغی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ مرغی کے مالک کی تھانے میں عرضی اور دو عینی شاہدین کی گواہی کے باعث ملزم گرفتار ہوا اور اس نے اقبال جرم بھی کیا کہ یہ سب اس نے جنسی جنونیت کا شکار ہو کر کیا۔ یہ بھی قدرت کی طرف سے ہو گیا کہ متاثرہ مرغی دو گواہان کا انتظام کر کے پرلوک سدھارگئی ورنہ عدالتوں کے چکر کاٹتی یا تو مقدمہ واپس لیتی، معاشرتی دباؤ کے باعث ملزم سے صلح کرتی یا غیرملکی شہریت حاصل کر کے باہر چلی جاتی کیونکہ اس نظام سے ’بے اثر‘ کو انصاف ملنا ایک دیوانے کا خواب ہے۔ بدترین تشدد اور انسانی جنونیت کا شکار مرغی میری نظر میں تو شہید ہے کیونکہ امریکا کے خلاف لڑنے والا کتا اگر شہید کہلایا جا سکتا ہے تو کمزور کردار اور درندگی کا شکار بے چاری مرغی کیوں نہیں؟

فیض آباد پہ بیٹھے انتشار پھیلانے میں مشہور جناب خادم رضوی جب عمران خان کو بول بک کر تھک گئے تو اچانک انہیں محسن انسانیت ”عبدالستار ایدھی“ یاد آئے۔ ان کا فرمان تھا کہ ایدھی بھیک مانگ کر ناجائز بچے پالتا رہا۔ اور (گالی دیکر) فلاں فلاں سب اس کے جنازے میں پہنچ گئے اور اس کو سلیوٹ کس بات کا پیش کیا۔ میڈیا کو یہودی کہنے والے خود میڈیا بائیکاٹ کا بھی رونا ڈالتے رہے۔ جناب خادم رضوی صاحب! آپ کی فحش گالیوں سے بھرپور بیان، منبر سے پھیلتا شر اور آپ کے دماغ میں بسا فساد سب مل کر بھی کسی ایک انسان کو زندگی نہیں دے پائے۔ آپ گالیوں کے بیچ صرف مرنا مارنا سکھاتے ہیں، وہ عظیم انسان کچرے کے ڈبے سے نکال کر بچوں کو زندگی دیتا تھا۔

ان تمام ناجائز بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے والے ایدھی سے آپ کو حسد اس لئے ہے کہ اس کی جھولی سے کچھ مال آپ کے ڈبے میں نہیں آیا۔ آپ تو لوگوں کے رستے روک کر ایمبولینس میں مریضوں کو تڑپاتے ہیں جبکہ ایدھی تو ان بوڑھے بزرگوں کو گلے لگاتا تھا جن کے اپنے بچے انہیں دھکے دیتے تھے۔ آپ جیسے شر انگیز اور اسلام کا چہرہ فساد سے مسخ کرنے والے ایک لاکھ خادم رضوی اس ایک ایدھی کی قبر کی خاک برابر نہیں ہو سکتے جو سچے مسلمان ہونے کا عملی ثبوت دے گیا۔ ہمارے معاشرے کی پستی کا حال یہ ہے کہ ایسے شر پسندوں کو رہبر بناتے ہیں، منبر پہ بٹھاتے ہیں اور ان کے کہنے پر بندوق اٹھاتے ہیں۔ کیا کبھی کوئی ان سے سوال کی جرات بھی کر سکتا ہے؟

ہمیں تحقیق اور سائنس سے دور رکھ کر کونسا مذہبی فریضہ سر انجام دیا جا رہا ہے؟ اگر دنیا قتل و فساد سے ہی مسخر ہوتی تو منگول راج کبھی ختم نہ ہوتا۔ آج ہم ادویات سے لے کر گاڑی تک سب اس لئے درآمد کرتے ہیں کیونکہ ہم تحقیق میں بہت پیچھے ہیں۔ بجلی، پانی، آلودگی، امراض اور وسائل کی کمی کے مسائل اسی لیے بڑھتے جارہے ہیں کہ جنگجووں کی ایک فوج بناتے گئے مگر علم و تحقیق نہ کر پائے۔ ‏اسلام اکیسویں صدی کے اوائل میں ہی دنیا پہ چھا سکتا تھا اگر مولوی کے بجائے سائنسدان، مفکر، ادیب اور محقق ہمارے رہبر ہوتے۔ کیوں ہم خلاوں میں سفر کرنے کے بجائے اپنے ہی جہالت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں؟ بچے، بچیاں حتی کہ گدھے، بکری اور مرغیاں تک انسانی پستی کا شکار ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی نصاب میں جنسی آگہی کی تعلیم ڈالنے کی بات ہو تو یہ ڈنڈا بردار فورس کھڑی ہو جاتی ہے۔ آپ معاشرے میں جنسی گھٹن کو اتنا بڑھا چکے ہیں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ بچے اپنا رویہ صحیح سمت میں نہیں لا پاتے۔

درسگاہ اور گھر دونوں جگہ ہی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تو اپنی ذہنی الجھنوں کو چبوتروں، چوراہوں تک لایا جاتا ہے کہ کہیں سے کچھ مزید پتہ چلے۔ چاہے گرلز کالج ہو یا محلے کے میدان، سب جگہ بات گندے لطائف سے شروع ہو کر جھوٹے سچے واقعات اور مبہم معلومات تک گزرتی بچے کو انسان بنانے کے بجائے مرد یا عورت بنا دیتی ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسمانی تبدیلیوں سے زیادہ ذہنی تبدیلیاں انسان کو انسان یا جانور بناتی ہیں۔ یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں کو اعتماد میں لے کر انہیں ہراچھا برا بتائیں کہ ان کی حدود کیا ہونی چاہیئیں اور کسی بھی صورتحال سے کیسے نمٹنا ہے۔ یاد رکھیں چاہے مدرسہ ہو یا خاندان کے گھر، جو بات آپ بچوں کو صحیح نہیں سمجھاتے، باہر والے ہمیشہ اسے غلط سمجھائیں گے اور پھر چھوٹے بچے، مرغی، بکری کسی کے لئے بھی ہمارا معاشرہ محفوظ نہیں ہو گا۔ خادم رضوی جیسے متشدد اذہان قبولیت کی سند حاصل کرتے رہیں گے اور ایدھی جیسے انسانیت پسند کو مرنے کے بعد بھی گالی دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).