سیاستدان کا مطلب گالی نہیں ہوتا


وطن عزیز میں جتنا کیچڑ سیاستدانوں پر اچھالا گیا ہےشاید ہی دنیا کے کسی ملک کے سیاستدانوں پر اتنا کیچڑ اچھالا گیا ہو۔ آپ کسی مزدور، چھابڑی فروش یا جاہل سے لے کر عالم تک سے بات کریں تو سب کا جواب ایک ہی ہوگا ”اس ملک کے سیاستدان ڈاکو ہیں لٹیرے ہیں یہ سارا ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں“

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہیں اور باقی سب شعبوں کے لوگ کیا پوری ایمانداری سے اپنا کام کر رہے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ یہاں جس کا جتنا بس چلتا ہے، وہ کر گزرتا ہے رونے پیٹنے والے وہی ہیں، جن کے لیے انگور کٹھے ہیں یا جو دوسروں کی آنکھ میں دھول جھونکنا اور مزید غیر آئینی حرکتوں کا جواز تراشنا چاہتے ہیں۔

سیاستدان کی حثییت کسی بھی ملک میں وہی ہے جو انسانی جسم میں دماغ کی ہوتی ہے اور میرے نزدیک ایک اچھا سیاستدان کسی استاد، ڈاکٹر یا جج سے زیادہ معزز اور قابل احترام ہے کیونکہ سیاستدان اگر واقعی اپنے کام سے انصاف کر رہا ہے تو وہ کسی ڈاکٹر، استاد یا جج کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا رہا ہے اور دنیا میں سیاستدانوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں اگر عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہوا ہے یا انصاف کی فراہمی بہتر ہوئی ہے تو یہ بہتری سیاستدانوں کی کاوشوں اور محنت کی ہی مرہون منت ہے۔

فطری طور آزاد پیدا ہونے والے انسان کو ہزاروں سال کے بعد غلامی کی لعنت سے نجات ابراہام لنکن نامی ایک سیاستدان نے ہی دلائی تھی اور یہ وہ کام تھا جو دنیا کا کوئی مذہب نہ کر سکا۔ آج ساوٴتھ افریقہ کو“ نیلسن منڈیلا کا دیس ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ساؤتھ افریقہ کے سیاہ فام باشندے نسل در نسل اپنے سفید فام آقاؤں کے تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار تھے اور پتا نہیں ان کی کتنی اور نسلیں اسی طرح نسلی امتیاز اور ذلت سہتےسہتے مر جاتیں اگر ان کے ملک میں نیلسن منڈیلا جیسا دھن کا پکا اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والا سیاستدان پیدا نہ ہوتا۔ جس نے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ان کالوں کو گوروں کے برابر لا کرکھڑا کر دیا۔

مہاتیر محمد نامی ایک شخص جو آج ملائیشیا کی پہچان بن چکا ہے ایک سیاستدان ہی تھا جس نے اپنے ویژن، محنت اور خلوص سے ملائیشیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ مہاتیر محمد نے اپنے ملک کی دو بڑی قوموں ملائی اور چینیوں کو ایک قوم میں بدل دیا اور آج وہاں سب ملائیشین ہیں اور معاشی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے آج کا ملائیشیا ستر کی دہانی سے بالکل مختلف اور بہترملک ہے۔

پاکستان جیسے ملک کے لیے تو سیاستدانوں کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ ملک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ہمارے سیاستدانوں نے بنایا تھا اسے کسی جنگ یا معرکے میں فتح نہیں کیا گیا تھا۔ تحریک پاکستان ایک مسلسل سیاسی جدوجہد کا نام ہے جس میں ہمارے بزرگوں نے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا تھا۔ بابائے قوم محمد علی جناح سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے انسان تھے آپ نے گیارہ اگست انیس سو سنتیالیس کو اپنی تقریر میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ یہاں امور ریاست عوام کے نمائندوں یعنی سیاستدانوں کے ذریعے جمہوری طریقےسے چلائے جائیں گے۔ اور تمام شہری بلا امتیاز وتفریق صرف اور صرف پاکستانی ہوں گے۔ افسوس کہ یہ ملک بابائے قوم کی موت کے بعد واقعی یتیم ہو گیا۔ قائد نے جو ذمہ داری سیاستدانوں کو سونپی تھی سیاستدان وہ ذمہ داری کچھ اپنی کمزوریوں، غلطیوں اور کچھ طالع آزماؤں کی بار بار مداخلت کےباعث نہ نبھا سکے۔ لیکن ان نہایت گئے گزرے حالات میں بھی ہمارے سیاستدانوں نے مجموعی طور پر بہتر پرفارم کیا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ ایک سیاست دان نے پاکستان کے لئے حاصل کی۔ چھ ہزار مربع میل رقبہ اور نوے ہزار جنگی قیدی ایک سیاستدان ہی چھڑوا کر لایا تھا۔ اس ملک کو متفقہ آئین بھی سیاستدانوں کی کوششوں کے طفیل ہی نصیب ہوا۔

ہمارے ہاں سیاستدان اگر وہ نتائج نہیں دے سکے جو انہیں دیناچاہیے تھے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں باقاعدہ منصوبے کے تحت ملکی اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیاگیا کیونکہ اگر ادارے آزاد اور مضبوط ہو تو پھر آمریت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ جس ملک کے ادارے مضبوط ہوں، وہاں کرپٹ سے کرپٹ سیاستدان بھی کرپشن کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).