لیاقت علی، سہروردی کو کتا اور ایوب خان غدار کہتے تھے چنانچہ۔۔۔


سیاسی حریف کو غدار اور ایجنٹ قرار دینے کی قبیح سیاسی روایت کی داغ بیل لیاقت علی خان نے ڈالی۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد، حسین شہید سہروردی کو غدار, ہندوستانی ایجنٹ اور بھارت کا چھوڑا ہوا کتا تک کہا۔ اس پر مولانا مودودی نے بیان دیا تھا کہ غداری کا الزام تو ایسا ہے کہ جیسے کسی شخص پر کوئی آدمی بدکاری کا الزام لگا دے، اس لیے جب تک ثبوت نہ ہو، یہ گالی دینا سیاست میں مناسب نہیں۔ خیر، سہروردی نام کے یہ ’غدار‘ بعد میں وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے۔ وزیر اعظم بنے۔ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سہروردی کا سابقہ مرتبہ بحال ہوگیا۔ وہ ایک بار پھر ’غدار‘ قرار دیے گئے۔ ایبڈو کے کالے قانون سے سہروردی ڈرے نہیں اورسیاست کو خیرباد کہنے سے انکار کیا۔ مقدمات کا سامنا کیا ۔ جیل کاٹی۔ 1963 میں دنیا سے چلے گئے وگرنہ نہ جانے کتنے اور سنگ گراں عبور کرتے۔ سہروردی نے ایوب خان کے نام جیل سے لکھے خط میں اپنے پر لگنے والے الزامات کا دفاع کیا ہے ۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ سہروردی جیسے بلند قامت کو اس آئین توڑ جرنیل کے سامنے اپنی حب الوطنی ثابت کرنی پڑ رہی تھی جس سے بانی پاکستان قائد اعظم نالاں تھے۔

حسین شہید سہروردی لکھتے ہیں:

مسٹرپریذیڈنٹ،

مجھے 30 جنوری 1962 کو گرفتارکیا گیا اور میں اس دن سے آج تک سینیٹرل جیل کراچی میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت نظربند ہوں۔ 5 فروری 1962 کو مجھے اپنی نظربندی کی’’وجوہات‘‘ موصول ہوئی تھیں۔ یہ وجوہات اس قدرمبہم اور غیرواضح ہیں کہ تردید میں کوئی معقول محضر تیار کرنے کی کوشش عبث ہو گی، میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ ملک وقوم کے لیے اپنی سابقہ خدمات کا حوالہ دے کران الزامات کی عدم صحت کی طرف اشارہ کروں۔ بایں ہمہ ان الزامات کی لغویت کتنی ہی واضح کیوں نہ ہو، میرا خیال ہے کہ میں آپ سے مخاطب ہونے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ جناب صدر، معاف کیجئے گا، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ مجھے اس قدر قریب سے جاننے کے باوجود آپ نے میری حب الوطنی کو مشکوک قرار دینے والے ان بیانات، کینہ آمیز اشاروں اور مبنی بردروغ الزامات کو کیسے قابل اعتنا سمجھ لیا جو یقیناً آپ تک پہنچائے گئے ہوں گے۔ میرا اشارہ نظربندی کی’’سرکاری وجوہات‘‘ کی طرف نہیں ہے کیوں کہ ان وجوہات میں دیے گئے الزامات اس قدر لغواور بچگانہ ہیں کہ وہ میری نظربندی کی اصل بنیاد نہیں ہوسکتے۔

یقیناً آپ کے ذہن کو کچھ اورتہمتوں کی مدد سے زہر آلود کیا گیا ہے۔ میری گرفتاری سے اگلے روزآپ نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران میری نظربندی کی جو وجوہات بیان کی تھیں، ان میں سے ایک بھی فہرست میں شامل نہیں، جومیرے حوالے کی گئی ہے۔چناں چہ یہ واضح ہے کہ میری گرفتاری کی اصل وجوہات سرکاری طور پر مجھے مہیا کی جانے والی وجوہات سے مختلف ہیں۔ میں ان’’وجوہات‘‘کا کھوکھلا پن واضح کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی وجہ!’’قیام پاکستان کے بعد سے اورخاص طور سے گذشتہ تین برس کے دوران آپ نے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان دشمن عناصرسے میل جول رکھا۔‘‘

اس الزام کے حوالے سے سہروردی نے ایوب خان سے استفسار کیا ’’جن دنوں ہم کابینہ میں رفیق کارتھے میں نے کبھی آپ کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ آپ میری حب الوطنی کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔‘‘

سہروری نے اپنے طویل خط میں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا بڑے مدلل اندازمیں جواب دیا ہے۔ آخر میں وہ ایوب خان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:

’’اپنے بیان کے پہلے حصے میں آپ نے کہا کہ میں ابتدائی طور پر مشرقی پاکستان کی شکست وریخت اور پھر پورے ملک کی تباہی کے درپے ہوں۔ ’مشرقی پاکستان کی شکست وریخت‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا میں اس کے حصے بخرے کرنے کی فکر میں ہوں؟ یا پھر آپ کے اس بیان کے ایک دوسرے اقتباس کے مطابق مجھ سے یہ بھی بعید نہیں کہ میں نے پاکستان کے مخالفین سے مالی اعانت قبول کی ہو، نی زیہ کہ ایسے عناصرموجود ہیں جو مشرقی پاکستان کی شکست وریخت کے مقصد واحد کے لیے میرا آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔ غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کرنے کے لیے بھارت سے مالی امداد وصول کررہا ہوں۔ جناب صدر! ایک بار پھر دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے اوراللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کر لے گا، اس دنیا میں یا اگلے جہاں میں، کیوں کہ اگر آپ کے یہی جذبات ہیں تو پھر مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

حسین شہید سہروردی کی ایوب خان کے ہاتھوں رسوائی نے مشرقی پاکستان والوں کو بہت مایوس کیا۔ وہاں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ سہروردی جیسے بلند پایہ لیڈر سے یہ سلوک ہوسکتا ہے تو ہما شما کا کیا شمار۔ سہروردی وہ آخری کڑی تھے جو ملک کے دونوں حصوں کو جوڑ سکتی تھی ۔ جن قوتوں کو سہروردی قبول نہ ہو انھیں آگے چل کرشیخ مجیب الرحمٰن کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ڈکٹیٹر کو اپنے خلاف قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے باوجود اسے رہا کر کے گول میز کانفرنس میں بلانا پڑتا ہے، پر اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی اور ملک ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا، جس کے لیے فضا عشرہ ترقی ہی میں ہموار ہوئی۔ سہروردی مرنے سے پہلے ملک کے دونوں حصوں کے درمیان آئینی تصفیہ کرانے چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے بعد یہ کام کسی اور سے نہ ہوسکے گا لیکن ان کی بات سنی نہ گئی، جس کا حتمی نتیحہ ہم نے 16دسمبر 1971 کو بھگت لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).