سندھیا۔۔۔ بیٹی کا درد اور لاپتہ لوگوں کا مقدمہ


وہ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کی شاگرد ہیں، وہیں سے کیمیکل انجنئیرنگ میں گریجویشن کی، اس آخری امتحان میں انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑکر پوزیشن اپنے نام کرلی۔ بچی کے والد سندہ کے ایک پسماندہ علاقے سے کراچی آئے اور صوبائی دارالخلافہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ کراچی سندہ کا دل ہے، اسے دوسرا گھر بنانے کا مقصد کچھ اور نہیں، بس بچوں کی اچھی تعلیم تھا۔ یونیورسٹی کی اس انجنئیر لڑکی نے اپنے والد کے سپنے سچ کر دکھائے اور یہ ثابت کردی کہ اجاڑ، بکھرے، بنجر اور تعلیمی تباہی کا شکار بنے، وڈیروں، بھوتاروں اور سرداروں کے چنگل میں پھنسے سندھ میں رہنے والی لڑکی کو بھی اگر معیاری اور اچھی تعلیم کے مواقع اور ماحول میسر ہوں تو وہ مقابلے جیت کر سب مات دے سکتی ہے۔

لڑکی کا نام سندھیا ہے، یہ ان کا ایک تعارف ہے۔ لیکن دوسرا تعارف یہ ہے کہ وہ پوزیشن ہولڈر لڑکی اس وقت اپنے والد کی تلاش میں ہے، والد جو گھر میں نہیں، جس نے مرضی سے گھر بھی نہیں چھوڑا لیکن اسے جانے پہچانے ریاستی نامعلوم افراد نے اٹھا کر نہ جانے کہاں پر حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ سندھیا کے بابا کو بھی کئی اور لوگوں کی طرح وہ نادیدہ قوتیں اٹھا کر لے گئی ہیں، جن کو دیکھ کر ہر آنکھ بند ہو جاتی ہے، ہر زبان چپ ہو جاتی ہے، ہر قلم رک جاتا ہے، ہر ٹی وی چینل خاموش ہو جاتا ہے اور اس پر بولنے والے اینکرز کے لبوں پر تالا لگ جاتا ہے۔

سندھیا کے والد کوئی امیر کبیر شخص نہیں، ان کے پاس نہ کوئی کاروبار، نہ بڑی جائیداد، نہ بیوپار، نہ بڑی نوکری، نہ زیادہ پیسہ، نہ ہی بڑی سفارش۔ اپنے چھوٹے سے گلشن کا کاروبار چلانے کے لیے اس کے پاس بس لکھنے، پڑھنے اورکتب شائع کرنے کا ایک محدود وسیلہ روزگار ہے۔ انعام عباسی قلم کے دھنی اور ایک صحافی ہیں، وہ لکھاری بھی ہیں اور کراچی سے ایک سندھی میگزین بھی نکالتے ہیں، انہوں نے کچھ کتابیں مرتب کیں اور کچھ چھاپیں، سندھ، سندھی ادب وعلم، اور سندھ کی سیاست سے محبت اس کا بڑا جرم ٹھہرا۔

انعام عباسی

 سندھیا اب ان بچوں کی لسٹ میں ہے، جن کے پیارے بن بتائے کسی نامعلوم قید میں بند ہیں، اور سندھیا جیسے بچوں کی نگاھیں ان کو دیکھنے کی آس میں ہر دم دروازے پر لگی رہتی ہیں اور کان اپنے پیاروں کے قدموں کی آہٹ سننے کو ترس رہے ہیں۔ انعام کی سانسیں اب ان ٹھیکیداروں کی مرہون منت ہوں گی، جو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں۔

 آپ ایک لمحے کے لیے سندھیا بن جائیں یا خود کو ان کے والد کی جگہ رکھیں تو یہ پورا قصہ اور سندھیا کا درد بھی سمجھ جائیں گے۔ فرض کرلیں کہ آپ ایک عاقل بالغ طالب علم اور یونیورسٹی کی پوزیشن ہولڈر لڑکے یا لڑکی ہیں اور آپ کے والد اٹھا لیے گئے ہوں، آپ کو یہ پتہ نہ ہو کہ وہ کہاں اور کیسے ہیں، وہ زندہ آئیں گے بھی کہ نہیں، آپ کو یہ بھی علم میں ہو کہ اس طرح اٹھائے گئے کئی لوگ تاریک راہوں میں مارے جا چکے ہیں، ان کے ورثا کو تشدد زدہ لاشیں چیتھڑوں کی صورت میں ملا کرتی ہیں، کچھ دیر کے لئے آپ سندھیا کے والد بن جائیں اپنی اولاد کی تعلیمی کامیابی یا کسی بھی خوشی سے بے خبر، کسی نامعلوم مقام پر ذھنی اور جسمانی تشدد سہنے والے ایک بے بس شہری، اپنے ملک میں ایک دشمن جیسا رویہ برداشت کرنے والے شہری۔

اگر کوئی سنجیدہ ہو کر سوچے تو اپنے بندوں کے ہاتھوں اپنے بندوں کا اغوا اور پھر ان گمشدگیوں نے ہمارے اداروں کو کتنا بدنام کیا ہے؟ کیا گمشدگیوں کا معاملہ اس ملک کےماتھے پر سیاہ داغ نہیں؟ سنگین نوعیت کے الزمات میں ملوث ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بجائے گم کرنے یا تشدد کر کے مارنے کے نتائج بھگتنے کے باوجود ہم نے وہ ڈگر نہیں چھوڑی نہ ہی راستہ بدلا، اپنے شہریوں کو غائب کرنے والے اور ان کے سربراہ حکام کو آخرکار یہ سادہ سی بات سمجھ میں کیوں کر نہیں آتی کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو قانون کے مطابق سزا بھی دلوائی جا سکتی ہے۔ ہم تو یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ اس ملک کے دولخت ہونے کے اسباب میں گمشدگیوں اور پھر لوگوں کے پرخچے اڑانے والے غیر قانونی افعال کو دخل رہا ہے۔ لوگوں کو گم کرنے کے پیچھے کون ہے۔ اس سوال کا جواب نہ پاکستان کی سپریم کورٹ دے سکی ہے، نہ حکومت وقت اور نہ ہی کوئی سیاستدان، اور تو اور گمشدہ لوگوں کو بازیاب کرنے والے کمیشن کو بھی کچھ پتہ نہیں۔ ایک تو بات طے ہے اور سب کے علم میں بھی کہ ان گمشدگیوں کے پیچھے چھپے ہاتھ اتنے ہی تگڑے ہیں جتنے تگڑے وہ ہاتھ تھے جو کبھی ملک کے منتخب وزیراعظم کی گردن تک جا پہنچتے ہیں کبھی ان کو پھانسی تو کبھی گولی، کبھی وہ ہاتھ کسی وزیراعظم کو برطرف کرنے لئے استعمال ہوا تو کبھی کسی کو جلاوطن کرنے یا سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے لئے استعمال ہوا۔ دلچسپ بات تو یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی ان ہاتھوں کو ظاہر کرنے کی بجائے سوال کرتی ہے کہ بندہ آخر کس نے اٹھایا؟ یہ مجھے کیوں نکالا جیسا ہی بے بسی والا سوال ہے؟

سپریم کورٹ میں گذشتہ سماعت پر جسٹس اعجاز افضل نے بے بس ہو کر کہا تھا کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہو رہا۔ گم شدگیوں کے حوالے سے ہمیں اصل صورت حال بتائی نہیں جا رہی ہے، ہم ورثا کو کیا جواب دیں؟ ہمارے پاس معلومات ہی نہیں۔ ایسی ہی بے بسی کی ایک جھلک تو گمشدہ لوگوں کی بازیابی کے لئے قائم کردہ کمیشن کے چئرمین جسٹس جاوید اقبال کے اس بیان میں بھی نظر آتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ثبوت نہیں ملتے کہ لوگوں کو کون اٹھاتا ہے۔۔۔ اس ملک میں کسی وزیراعظم کو تڑی پار کرنا ہو، سیاست سے بے دخل کرنا ہو، پارلیمنٹ کے کسی قانون کو اڑانا ہو، کسی آئینی ترمیم کے خلاف عدالتی فتوی دینا ہو، کسی حکومت کا تختہ دھڑن کرنا ہو، دو سو لوگوں کو بٹھا کر کسی حکومت کو مفلوج کرنا، آئین کی پائمالی کرنی ہو، قوانین کو ادھیڑنا ہو یا کسی ادارے پر حملہ کرنا ہو تو وہ سب آسان ہے لیکن مشکل ہے تو بس اس ہاتھ کو ڈھونڈنا مشکل جو ہاتھ سندھیا جیسی بچیوں کے والدین کو اٹھا کر گم کر رہے ہیں۔۔۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar