تین درخت جن کے ارمان پورے ہوئے


ایک جنگل میں تین درخت ہوتے تھے۔ باقی درختوں کی نسبت وہ تھوڑے قریب قریب لگے ہوئے تھے۔ ان کی عمر ابھی کم تھی۔ وہ اپنے سے بڑے درختوں کو حیرت سے دیکھتے اور سوچتے رہتے کہ ایک دن آئے گا جب وہ بھی اتنے ہی بڑے اور عظیم الشان ہو جائیں گے۔ وہ کبھی کبھی آپس میں گپ شپ بھی لڑاتے رہتے۔ ایک دن سہ پہر کا وقت تھا۔ سردیاں ایسی ہی تھیں جیسی آج کل ہیں۔ تھوڑی بہت دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ جاتا سورج انجوائے کرتے ہوئے ایک درخت کہنے لگا کہ یار تم دونوں کی کیا خواہشیں ہیں، میں تو کچھ بھی نہیں چاہتا سوائے ایک جادوانی عمر کے، میں چاہتا ہوں کہ میں ہمیشہ اس زمین پہ موجود رہوں، سب درختوں سے زیادہ سینئر ہو جاؤں، آندھی آئے، طوفان آئے، میں اپنی جگہ پہ کھڑا سب کچھ دیکھتا رہوں، اس کے علاوہ میں کچھ بھی نہیں چاہتا۔

دوسرا درخت بولا بھائی میرے ارمان تو بہت عجیب و غریب قسم کے ہیں۔ میرے بس میں ہو تو میں اس پورے ملک کا نگران بن جاؤں، اپنے ایک اشارے پہ سب کو روک دوں، دوسرا اشارہ کروں تو لوگوں کی زندگیوں میں رونق آ جائے، میں صرف اور صرف حکومت کرنا چاہتا ہوں، اس پورے جنگل پہ، یہاں کے سارے درختوں پہ بلکہ اس پورے ملک پہ، تو میں یہ سب کرنا چاہتا ہوں۔ تیسرا درخت منہ کھولے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموش رہا۔ اس نے کوئی بات نہیں کی۔ شام ڈھلے باقی دونوں کو یاد آیا کہ اس نے تو کچھ کہا ہی نہیں، انہوں نے پھر سے پوچھا کہ ہاں میاں تمہارا کیا پروگرام ہے۔ کہنے لگا مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے یارو، میں تو بس جب تک ہوں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم دونوں اپنی اپنی خواہشیں پوری کر سکے تو تمہاری ہی کہانیاں بچوں کو سناتا رہوں گا، نہ بھی کچھ ہوا تو بس ٹھیک ہے، میں کیا، میرا ہونا کیا اور میری خواہشیں کیا۔ وہ تیسرا والا درخت تھوڑا ملنگ قسم کا تھا، یہ کہہ کر اس نے جمائی لی اور سو گیا۔

جس وقت وہ یہ باتیں کر رہے تھے اس وقت ایک جن بھی وہیں بیٹھا تھا۔ شہروں میں تو موبائل وغیرہ جب سے آئے ہیں کسی گھر میں جن شن نظر ہی نہیں آتے، شاید فوٹو کھنچنے کا خطرہ ہو لیکن جنگلوں میں درختوں پہ وہ اب بھی موجود ہوتے ہیں۔ تو اس جن نے تینوں درختوں کی بات سن لی۔ اس نے ایک بڑا عجیب قسم کی حرکت کی۔ مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ وہ بے چارہ نادان دوست تھا۔ اس نے جا کے اپنے پیر صاحب کو بتایا (جہاں وہ بطور موکل ڈیوٹی دیتا تھا) کہ سائیں ادھر جنگل میں وہ فلانی سائیڈ پہ تین درخت ہیں، وہ اس اس طرح اپنی خواہش کا اظہار کر رہے تھے، آپ دعا کیجے گا کہ جو کچھ وہ درخت چاہتے ہیں، ویسا ہی سب کچھ ہو جائے۔ پیر صاحب نے اسے تو اوکے کی رپورٹ دے کر ایک اور مشن پہ کھٹمنڈو بھیج دیا اور ادھر جیب سے موبائل نکال کر مقامی ٹال والے کو فون لگا دیا کہ استاد جنگل میں فلانی جگہ پہ تین چھوٹے درخت ہیں، بڑے درختوں میں چھپے ہوں گے، انہیں کاٹ لو تو کسی پہریدار کی نظر بھی نہیں پڑے گی اور آسانی سے ٹرانسپورٹیشن بھی ہو جائے گی، میں فقیر آدمی ہوں، مجھے میرا جو بھی حصہ دو گے رکھ لوں گا، باقی تم جانو تمہارا کام۔

ٹال والے کی تو موج ہو گئی۔ دو تین لکڑہارے لیے، ایک ٹرک لیا اور پہنچ گیا بتائی ہوئی جگہ پر۔ درخت مزے سے کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے لکڑہارے اور ان کی چمکتی ہوئی کلہاڑیاں دیکھیں تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ سوچنے لگے کہ یار ہم تو کیا کیا خواہشیں کر رہے تھے اور ادھر سب کا سب مٹی میں مل گیا۔ ابھی ہمیں کاٹ پیٹ کے یہ منحوس آدمی لے جائے گا اور کہیں بیچ باچ دے گا۔ وہ چیخیں مارتے ہوئے یہ سوچ ہی رہے تھے کہ دوسرے درخت کا تنا پانچ چھ ضربوں کے بعد نیچے پہنچ گیا۔ تیسرے کے ساتھ بھی یہی ہوا، فٹا فٹ اسے گرا کے لٹا دیا گیا۔ پہلا درخت کانپتا ہوا اکیلا کھڑا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ یار کہاں میں جادوانی عمر کی بات کرتا تھا اور کہاں۔ سوچنا ختم ہوا، پہلا درخت بھی زمین پہ تھا۔

فٹا فٹ انہوں نے تینوں درختوں کو ٹرک پہ لادا اور شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ چوری کا درخت جو ابھی تازہ تازہ کٹا ہو اسے ٹال پہ رکھ کے مرنا تھوڑی تھا، تو بس اونے پونے بیچ کے واپس آ گئے اور پیر صاحب کو تھوڑا بہت نذرانہ پیش کر دیا۔ انہوں نے اسے دست غیب سے لنگر پانی کا خرچہ سمجھتے ہوئے قبول فرمایا اور اپنے روزمرہ کاموں کی طرف چلے گئے۔ ادھر وہ تینوں درخت بہت عرصہ اکٹھے پڑے رہے پھر دو تین سال کی دھوپوں اور بارشوں کے بعد ان کا نمبر آیا اور انہیں ایک بڑھئی نے خرید لیا۔

پہلے والے کی تراش خراش ہوئی اور اسے ایک خوب صورت چوکھٹ میں بدل دیا گیا۔ اوقاف کا ایک افسر وہاں سے گزرا، وہ ایک مزار کی رینوویشن کروا رہا تھا، اسے وہ چوکھٹ پسند آ گئی۔ ہاتھ کے ہاتھ پیسے ادا کیے اور چوکھٹ مزار کے مرکزی دروازے کی جگہ گاڑ دی گئی۔ دوسرا درخت بڑھئی کے ایک دوست نے خرید لیا، وہ عصا بناتا تھا۔ اس درخت سے بہت سی مضبوط لاٹھیاں بنیں۔ ایک دن وہاں سے ایک مذہبی گروہ گزر رہا تھا، انہیں وہ سارے عصا بہت پسند آئے۔ پیکیج ڈیل ہو گئی۔ سب کی سب لاٹھیاں خرید لی گئیں اور ان کے حجروں میں پہنچ گئیں۔ تیسرے درخت کی لکڑی کمزور تھی۔ وہ پنسل بنانے والے ایک ادارے کو ردی کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔ اس ادارے کی بنائی ہوئی پینسلیں اخبار والوں کے دفاتر میں ٹینڈر سپلائی کے لیے آ گئیں۔

تینوں درختوں نے جس وقت وہ باتیں کی تھیں شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ پہلے درخت کی بات تو یوں سنی گئی کہ وہ مزار کی چوکھٹ بن گیا۔ مزار کبھی نہ ختم ہونے کے لیے بنتے ہیں۔ دلوں پہ ان کا راج ہوتا ہے۔ ہر ایک زائر آتے جاتے چوکھٹ کو چومتا ہے۔ زلزلہ بھی آ جائے تو عمارت کو بھلے نقصان پہنچے، چوکھٹیں اور سیڑھیاں اپنی جگہ جمی رہتی ہیں۔ تو وہ بھی جما ہوا ہے۔ جیسے اس نے چاہا تھا، آندھی آئے، طوفان آئے، وہ زمین پر موجود ہے، اپنی جگہ کھڑا غرض مندوں کے تماشے دیکھتا رہتا ہے۔ دوسرے والے درخت کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔ جس گروہ نے پیکیج ڈیل کی تھی، وہ ایک دن وہی لاٹھیاں اٹھائے کسی سڑک پہ پہنچ گئے۔ چند مطالبات پیش کیے اور حکومت سے ڈیمانڈ گزار ہوئے کہ انہیں قبول کرو ورنہ سڑک بلاک رہے گی۔ تو اب وہ لاٹھیاں ہلا ہلا کے تقریر کرتے ہیں اور تمام راستے بند رہتے ہیں اور مخلوق خدا چاہے مر بھی جائے، ہسپتال جانے کا راستہ نہیں ملتا۔

تو دوسرا درخت جو اپنے اشارے پہ سب کو روکنا چاہتا تھا، جنگل پہ حکومت کرنا چاہتا تھا، اس کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن پورے ملک کی واٹ لگ گئی۔ تیسرا درخت جو سب سے ٹھنڈا تھا، ملنگ قسم کا تھا، اس کی پینسلیں جب اخبار والوں نے خریدیں تو صحافیوں میں بانٹ دیں۔ آج کل وہ ان سب کی جیبوں میں پڑی ہوتی ہیں یا کانوں پہ ٹکی رہتی ہیں۔ گھڑی گھڑی پل پل اس سڑک پہ جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ لکھ کے وہ لوگ بھیجتے رہتے ہیں اور چھپتی ہے تو پوری دنیا پڑھ لیتی ہے۔ یوں تیسرے درخت کے من کی مراد بھی پوری ہوئی جو اپنے دوست درختوں کی کہانیاں سب کو سنانا چاہتا تھا۔

جس طرح مالک نے ان سب کی مرادیں پوری کیں، سجنوں، بیلیوں، متروں، پیاروں سب کی مرادیں پوری کرے، اپنی تو بس یہی دعا ہے کہ کاش وہ پنسل اب کوئی اچھی خبر سنا دے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain