کہانی کے بازی گر شکیل عادل زادہ سے خصوصی مکالمہ (2)


اقبال:  کن ادبی شخصیات سے زیادہ قربت رہی؟

شکیل بھائی:  رئیس امروہوی، جون صاحب، سید محمد تقی۔ ان کے گھر میں رہا ناں پندرہ سولہ سال۔

اقبال:  کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا بہت خود پسند تھے؟

شکیل بھائی:  بھئی ہر شاعر خود پسند ہوتا ہے۔ خیر، ہم نے تو شروع ہی ان کے ساتھ کیا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ جب میں کچھ لکھتا تھا، تو پہلے انھیں سناتا۔

اقبال:  پہلے آپ رئیس صاحب کے اخبار”شیراز “کا حصہ تھے، اس سے ایک بدمزگی کے باعث الگ ہوئے، پھر جون ایلیا کے عالمی ڈائجسٹ سے بھی الگ ہوگئے، تو رشتے میں تلخی نہیں آئی؟

شکیل بھائی: نہیں۔ ساری زندگی ان کے ساتھ گزری تھی۔ گھر جیسا معاملہ تھا۔ ہاں، جب ”سب رنگ“ نکالا، تب کچھ عرصے تعلق خراب رہا۔ جون صاحب نے میرے خلاف عالمی ڈائجسٹ میں اداریے بھی لکھے۔ (ہنستے ہوئے) وہ لکھتے تھے:  جس شخص کو آپ لکھنا سکھائیں، وہ کل آپ کے محضر قتل پر دستخط بھی کرسکتا ہے۔ یہ چھپا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا تھا، مگر ”سب رنگ“ بڑھا اس تیزی سے کہ دوسرے سال 42 ہزار، تیسرے سال 62 ہزار اور پانچ سال میں ڈیڑھ لاکھ پر پہنچ گیا۔ سن 70 میں غالباً جون صاحب کی شادی ہوئی۔ انھوں نے مدعو کیا۔ میں چلا گیا۔ پھر دوستی ہو گئی۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ جون صاحب دوپہر کو ”سب رنگ “ کے دفتر آ جاتے تھے، کھانا وہیں کھاتے تھے، وہیں سو جاتے تھے۔ اچھا، ایک بار انھوں نے پیش کش کی کہ تم عالمی ڈائجسٹ مجھ سے خرید لو۔ میں نے سوچا ایک دو دن، مگر کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک گرتے ہوئے پرچے کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوتاہے۔

اقبال: ” سب رنگ“ کی کہانیوں کے علاوہ آپ کے دفتر کا کچن بھی بڑا مشہور تھا؟

شکیل بھائی: جی ہاں، ہمارے ہاں دوپہر کا کھانا باقاعدگی سے پکتا تھا۔ چھے کمرے تھے، ایک چھوٹے سے کمرے کو کچن بنا دیا تھا۔ مجھے کھانا پکانے کا شوق تھا۔ کبھی کبھار میں بھی پکاتا تھا۔ اچھی خاصی مقدار ہوتی تھی۔ کوئی بھی آ جائے، تو کم نہیں پڑتا تھا۔ دس بارہ لوگ تو دفتر کے ہوتے تھے، کچھ لوگ باہر سے بھی آجاتے۔ کبھی بیس ہوگئے، کبھی تیس۔ اس کچن پر کئی کالم بھی لکھے گئے۔

اقبال:  اب بھی کچن میں جاتے ہیں، کوکنگ کرتے ہیں ؟

شکیل بھائی:  (مسکرا کر) بیوہ اجازت نہیں دیتی (وہ اپنی بیگم کو بیوہ کہتے ہیں) ورنہ مجھے توشوق ہے۔ اور مجھے تجربے کرنے کا شوق ہے۔ کبھی اچھا پک جاتا ہے، کبھی نہیں پکتا۔ اچھی پکی ہوئی ہر چیز پسند ہے، مگر زیادہ پسند ہے، قورمہ۔ دلی کا قورمہ نہیں، جو خوشبوﺅں سے لدا ہوتا تھا۔ مجھے پسند ہے بھنا گوشت۔ سبزیوں کے ساتھ بھی گوشت پسند ہے۔

اقبال:  نوجوانوں کو کن ملکی اور بین الاقوامی ادیبوں کو پڑھنا چاہیے؟

شکیل بھائی:  جتنے بڑے افسانہ نگار ہیں، انھیں تو پڑھنا ہی چاہیے۔ منٹو کہانی لکھنا جانتے تھے۔ یعنی پلاٹ اچھا برا ہو، یہ الگ بات ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کہانی لکھی کیسی گئی ہے۔ ان کی بڑی مضبوط تکنیک تھی۔ ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیتے تھے۔ اسی طرح کرشن چندر تھے، عصمت آپا تھیں۔ روسی ادیبوں کو لازماً پڑھیں، روس میں شان دارفکشن لکھا گیا ہے۔ ٹالسٹائی اور چیخوف کو پڑھیں فرانس کا ادب بہت اچھا ہے۔

اقبال:  آپ کے پسندیدہ ناول کون سے ہیں ؟

شکیل بھائی:  عالمی ادب میں مجھے میکسم گورگی کا ”ماں “بہت پسند ہے۔ اگرچہ وہ دو سو صفحات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور اردو میں ”آگ کا دریا “بہت اچھا لگا۔

اقبال:  تو جس دل چسپی کو آپ نے” سب رنگ“ میں پیش نظر رکھا، کیا وہ” آگ کا دریا“ میں ہے؟

شکیل بھائی:  نہیں۔ دراصل جب بھی ہم نے قرة العین کی کہانی اپنے بورڈ کو دکھائی، تو وہ نمبر نہیں ملے، جو اشاعت کے لیے ضروری ہوتے تھے۔ ہاں، ان کی ایک کہانی ”حسب نسب “ہم نے پسند کی تھی، مگر وہ عالمی ڈائجسٹ میں چھپ گئی۔ قرة العین سے ہماری بڑی دوستی تھی۔ انھوں نے مجھے خط بھی دیا تھا کہ پاکستان میں میری جتنی کتابیں چھپیں، شکیل اُن کے نگراں ہیں۔ میں ہندوستان سے وہ خط لے آیا۔ ایک دو پبلشرزکو خط لکھا۔ پھر زاہدہ حنا سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں بھی قرة العین نے ایسا خط دے رکھا ہے۔ پھر پروین شاکر نے بھی بتایا کہ ان کے پاس بھی ایسا ایک خط ہے۔ دراصل وہ بہت مضطرب تھیں کہ پاکستان میں کوئی ان کی کتابوں کی رائلٹی کی دیکھ بھال کرے۔ مگریہ ممکن نہیں تھا۔

اقبال:  شعرا میں کون پسند ہے؟

شکیل بھائی:  فیض صاحب بہت پسند ہیں۔ اُن سے ملاقاتیں بھی رہیں۔ جب ہم نے پرچا نہیں نکالا تھا، تب میں اور انور شعور فیض صاحب سے ملنے گئے۔ وہ کہنے لگے:  بھئی آپ کے پاس پیسے ویسے کتنے ہیں؟ میں نے کہا:  جناب، پیسے سے تھوڑی نکلتا ہے پرچا! وہ چپ ہوگئے۔ پھر بولے:  پھر تو آپ پرچا نکال لیں گے۔ فیض صاحب آدمی بہت اچھے تھے۔ مختصر بات کرتے تھے۔ مجھے منیر نیازی بھی بہت پسند ہیں۔

اقبال:  اب اردو ادب میں فیض، جالب اور منیر جیسے رائے عامہ کے نمائندے نہیں رہے۔

شکیل بھائی:  بات وہی ہے کہ اب اردو میں معاملات نہیں رہے۔ زبان کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ البتہ پنجاب میں میں دیکھتا ہوں کہ بہت اچھے شاعر آرہے ہیں۔ لاہور میں اچھی شاعری ہورہی ہے۔

اقبال:  کس قسم کی فلمیں پسند ہیں ؟

شکیل بھائی: آج کل تو وقت نہیں ملتا، مگر فلمیں ایک زمانے میں میں نے بہت دیکھیں۔ فکشن نگار کے لیے فلمیں دیکھنا بہت ضروری ہے۔

اقبال: یہ ماورائی کہانیوں کا سلسلہ کیوں کر شروع ہوا ؟

شکیل بھائی: دراصل کراچی کی ڈائجسٹوں نے ماورائی کہانیاں شایع کرنی شروع کی تھیں۔ عالمی ڈائجسٹ یوں مقبول ہوا کہ بہزاد لکھنوی نے ”کالی مائی“ اور”کالا علم“ جیسے سلسلے شروع کیے۔ ”سب رنگ“ میں پہلی کہانی تھی:  سونا گھاٹ کے پجاری۔ اس کے ساتھ شروع ہوئی؛ انکا۔ پھر ہم نے اقابلا چھاپی۔ پھر احساس ہوا کہ ماورائی کہانیوں میں یکسانیت آگئی ہے۔ امبربیل میں کوشش کہ کہانی حقیقی زندگی کے قریب تر ہو، ماورائی پہلو کم کر دیا۔ بازی گر شروع کی، تو وہ مکمل طورپر حقیقی زندگی پر تھی۔ اور وہ دیگر کہانیوں سے زیادہ پسند کی گئی۔

اقبال:  بازی گر آپ کی تخلیق، یہی معاملہ انکا، اقابلا، امبربیل کا، مگر کچھ اور لوگ بھی اس کے دعوے دار ہیں ؟

شکیل بھائی: دراصل یہ کہانیاں پہلے انوار صدیقی لکھتے تھے۔ سونا گھاٹ کے پجاری تو تقریباً انھوں نے ہی لکھی۔ ہم کرتے یہ تھے کہ جو کہانی ہمارے پا س آتی، اس پر کام بہت کرتے۔ انوار صدیقی کی دیگر ڈائجسٹوں میں شایع ہونے والی کہانیوں کو سامنے رکھیں، تو فرق نظر آجاتا ہے۔ انکا کا معاملہ یہ ہے کہ احمد صغیر صدیقی ڈیڑھ صفحے کی ایک کہانی لائے۔ وہ یہ تھی کہ ایک صاحب کا قتل ہوگیا۔ قاتل کہتا تھا، میرے سر پر ایک عورت بیٹھی ہے، اس نے قتل کروایا ہے۔ میں نے کہا، ڈیڑھ صفحے کی کہانی کیا چھاپیں گے، اسے قسط وار سلسلہ بناتے ہیں۔ انوار صدیقی لکھنے لگے۔ ہم تیرہ تاریخ کی شام کو بیٹھ جاتے۔ ڈسکس کرتے تھے، وہ پوائنٹ لیتے رہتے۔ پھر کہانی لکھتے تھے۔ جب لکھ کر لاتے، تو ہم اس پر بہت کام کرتے۔ ڈیڑھ سال انکا کا سلسلہ چلتا رہا۔ پھر مجھے لگا کہ ان کا ذخیرہ الفاظ محدود ہے۔ نئی نئی کیفیات کے لیے نئے نئے الفاظ ہونے چاہییں، تو وہ میں نے لکھنی شروع کر دی۔ آخری دو سال میں نے لکھی۔ اب اس المیے کو کیا کہیے کہ انوار صدیقی نے وہ تمام سلسلے، جن پر اُن کا ضمیر جانتا ہے کہ کتنی انھوں نے لکھیں، کتنے میں نے لکھیں، کتابی صورت میں اپنے نام سے چھاپ دیں۔ امبربیل شروع اُنھوں نے ضرور کی تھی، بعد کی سب میں نے لکھی۔ سنا ہے، اُنھوں نے کسی پبلشر سے 90 ہزار روپے لے کر اُس کی آخری قسط لکھ دی اور اُس کے پیش لفظ میں میری برائی بھی کی۔ اقابلا عربی ڈکشن کی کہانی تھی، جوعذرا اور عذرا کی واپسی، تائیس، دیگر عربی تراجم اور جون صاحب کی وجہ سے میرا پسندیدہ طرز تحریر تھا۔ میں بچپن ہی سے اس ڈکشن سے آشنا ہوگیا تھا۔ اقابلا بھی انھوں نے پوری اپنے نام سے چھاپ دی اور میں دیکھتا رہ گیا۔

اقبال:  ان واقعات کے بعد کبھی انوار صدیقی سے ملاقات ہوئی؟

شکیل بھائی:  نہیں، میں ان سے نہیں ملتا، اور ملنا بھی نہیں چاہتا۔ میں کسی شخص کی برائی نہیں کرتا، مگر مجھے اس کا صدمہ رہا۔ اتنا تعلق تھا، گھر آنا جانا تھا، انھوں نے ایسا کیا اور ذکر بھی نہیں کیا۔ میں نے ان کا مسودہ اور اپنا مسودہ محفوظ کیا ہوا ہے۔ ہم تو اسے پورا پورا ری رائٹ کیا کرتے تھے۔ ایک بار ناراض ہو کر انھوں نے پیسے بھی واپس کر دیے تھے کہ اگر تم لکھتے ہو، تو میں پیسوں کیوں لوں۔ یہ بھی ثبوت ہے۔

اقبال: ” سب رنگ“ خوب بکتا تھا، یہاں چلتے ہوئے کاروبار کو نظر لگ جاتی ہے، بھتے کی پرچی آجاتی ہے، کبھی ایسا کچھ ہوا؟

شکیل بھائی:  نہیں، کبھی نہیں۔ اس وقت نہیں آتی تھی پرچیاں۔ بعد میں بھی ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

اقبال: ادیب تو تذکرہ کرتے ہی ہیں کہ ”سب رنگ“ نے ان پر گہرا اثر چھوڑا، مگر ایسے لوگ بھی ملیں ہوں گے، جنھوں نے پرچے کا ذکر کر کے آپ کو حیران کر دیا ؟

شکیل بھائی: بہت سے لوگ ہیں۔ مثلاً ایک قیدی تھا۔ کسی سلسلے میں میرا عدالت جانا ہوا، تو وہاں اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ پڑھا کرتا تھا۔ فوراً میرا دوست بن گیا۔ بازی گر شروع ہوگئی تھی۔ اس نے بڑی مدد کی۔ چاقو کے استعمال کا بتایا۔ اور بہت سے لوگ تھے۔

اقبال:  زندگی کے کسی فیصلے پر افسوس ہے؟

شکیل بھائی:  ہماری خامی یہ تھی کہ ہم منتظم اچھے نہیں تھے، جو معراج رسول صاحب تھے۔ اُنھوں نے ادارہ بنا لیا۔ میں ادارہ نہیں بنا سکا، کیوں کہ میں لکھنا شروع ہوگیا تھا۔ ایڈیٹر کو لکھنا نہیں چاہیے۔ اس کی وجہ سے ”سب رنگ“ ختم ہوگیا۔

اقبال:  آپ بیتی کا سوچا؟

شکیل بھائی:  بہت لوگ کہتے ہیں، مگر میرا اب لکھنے کا جی نہیں چاہتا۔ نہ لکھنے کو، نہ پڑھنے کو۔

اقبال:  زندگی سے متعلق آپ کا نظریہ ترقی پسندانہ ہے؟

شکیل بھائی:  ہم رہے ترقی پسندوں میں۔ البتہ انتہا پسندی غلط چیز ہے۔ جون صاحب کے بعض دوستوں میں انتہاپسندی تھی، جو اب بھی ہے۔ وہ غلط بات ہے۔

اقبال:  کیا ادب کو نظریے کا پابند ہونا چاہیے؟

شکیل بھائی: بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری سوسائٹی کا اپنا ڈھب ہے۔ اورادیب نظریے کا سو فی صد پابند نہیں ہوسکتا۔ تخلیق اسے ادھر ادھر لے جاتی ہے۔ اگر ادیب نظریے کا پابند ہو جائے، تو جانب دار ہوجاتا ہے۔

اقبال:  تو ادب کا مقصد کیا ہے، تفریح طبع؟

شکیل بھائی: ہاں، ایک معنوں میں آپ نے ٹھیک کہا۔ مگر شاید یہ لفظ موزوں نہیں۔ ادیب پر لازم ہے کہ حقائق لکھے، زندگی لکھے۔ سبط حسن نے بہت اچھی تحریر یں لکھیں، مگر وہ ہمیشہ ایک ہی طرح لکھتے رہے۔ دوسری طرف بھی زندگی ہے، اچھے لوگ ہیں۔ ٹھیک ہے، نظریے کی کہیں نہ کہیں جھلک آجائے، مگر وہ جھلک ہی ہو۔

اقبال:  زندگی میں کن چیزوں کو آپ اہم مانتے ہیں ؟

شکیل بھائی:  تین چیزیں ہیں۔ پہلی تعلیم، دوسری دولت، تیسری دیانت، تینوں کی یکساں اہمیت ہے۔

اقبال:  نوجوان ادیبوں کو کیا مشورہ ہے؟

شکیل بھائی:  مطالعے کی بہت اہمیت ہے۔ مطالعے کے بغیر آپ نہیں لکھ سکتے۔ پھر جو شخص خواب نہیں دیکھتا ہو، اس کے ہاں خیال نہیں آسکتا۔ خیال نہ ہو، تو لکھا نہیں جا سکتا۔ زندگی کو طرح طرح سے محسوس کرنے کی خواہش ہونی چاہیے۔ تب ہی انسان لکھ سکتا ہے۔

اقبال: آخری سوال، ڈائجسٹ میں اصل مصنف کا نام نہیں آتا، مختلف نام ہوتے ہیں، تو اس سے آپ کے اندر کا ادیب کہیں ضایع تو نہیں ہوا؟

شکیل بھائی:  دراصل ڈائجسٹ میں یہ مناسب نہیں ہوتا کہ بہت سی چیزوں پر آپ کا نام ہو، تو ہم مختلف ناموں سے لکھا کرتے تھے۔ باقی لوگ بھی یہی کرتے تھے۔ جون صاحب نام رکھنے کے ماہر تھے۔ طرح طرح کے نام رکھتے۔ تو بہت سے ناموں سے لکھا۔ بعد میں افسوس ہوتا تھا کہ اچھی چیز تھی، مگر اب دوسرے کے نام سے آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).