مولوی خادم رضوی کی گندہ گوئی اور خطابت کی احراری روایت


مولوی خادم حسین رضوی کےارشادات سن کر محسوس ہوتا ہے کہ اب مذہبی فن تقریر میں ایک نئی صنف کا اضافہ کر لیا جائے۔ مذہبی ظرافتی تقاریر۔ گالم گلوچ، جگتیں، پھبتیاں اور فحش کلامی پر مبنی ان تقاریر سے اس دھرنے کے حاضرین کو جس قسم کا اسلام سکھایا جا رہا ہے مجھے معلوم نہیں کہ اس سے کسی کے دل میں نیکی کا کوئی خیال پیدا ہو۔

ختم نبوت کی تحریکیں ایک عرصہ سے ملک میں جاری ہیں اور اس سے وابستہ مولویوں کی کئی نسلیں اپنی روزی روٹی اسی فن تقریر پر چلاتی رہی ہیں۔

ہمارے یہاں علمائے دین کا اب یہ وتیرہ ہے کہ مجمع اکھٹا کر کے لفاظی اور صوتی ناثرات سے بھرپور فنکاری پیش کر کے واہ واہ وصول کرتے ہیں۔ میں نے ایک عرصہ سے کوشش کی کہ ان تقاریر کو سن کر ان میں سے کوئی علم کی ایک بوند ہی نچوڑ سکوں لیکن افسوس کہ سوائے عامیانہ جملوں، گھسے پٹے اشعار اور بے ہنگم نعروں کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پنچاب کے مولوی حضرات کو تو خودستائشی کا ملکہ عطا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کے مولوی کو سنا۔ اپنی تعریفوں سے فارغ ہو کر کچھ صدر مجلس کی ستائیش ہوتی ہے۔ پھر حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ بیان ہو تو ہر جملے میں ایک عدد چنگھاڑ کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ سنتے ہوئے کان تھک جاتے ہیں۔ پھر جگتیں اور اور لطیفے چلتے ہیں۔ مخالفین کو للکارا جاتا ہے۔ ہر بات کا موازنہ کائنات سے کیا جاتا ہے۔ ان کے جلسے بھی کائنات میں پہلے نہیں دیکھے گئے اور ان جیسی کتاب بھی کائنات میں پہلے تصنیف نہیں کی گئی۔ پھر حاضرین کو گرمانے کے لئے مخالف فرقہ کی کتابوں کے چیدہ چیدہ حوالے مرچ مسالہ لگا کر پیش ہوتے ہیں۔ ہر حوالے کے ساتھ تکفیر اور لعنت۔ جہاں ربط ٹوٹتا نظر آئے وہاں جلسہ کے شرکا سے ہاتھ اٹھوا کر لڑنے مرنے کے وعدے لئے جاتے ہیں۔

مولوی خادم رضوی کوئی نئی ورائٹی نہیں۔ ان کی قبیل کا مولوی ملک میں عام دستیاب ہے۔ ہمارے مدرسوں میں بندھے غریبوں کے بچے ڈنڈے اور بھوک کے زیر اثر پلتے ہیں۔ کڑواہٹ اور احساس محرومی کی مسلسل خوراک پر پروان چڑھے یہی مولوی پھر ملک کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

مولوی خادم رضوی کی گالیاں سن کر کچھ لوگوں کی طبعیت مکدر ہو جاتی ہے لیکن یہی لوگ عطا اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری جیسوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ عطااللہ بخاری تو امیر شریعت مشہور ہیں۔ ان کی تقرریں ہمارے عوام کی نظر میں الف لیلوی مقام رکھتی ہیں۔ پوری پوری رات محفل گرمائے رکھنے والے شاہ جی کو بھی گالم گلوچ کا ملکہ عطا تھا۔ پاکستان کی تحریک کی مخالفت میں شاہ جی نے کئی بار زبان دراز کی.

شاہ جی نے 1953 کے فسادات میں خوب دل کھول کر حصہ ڈالا اور ملک کے کونے کونے میں اپنی خطابت کے زور پر عوام الناس کو احمدیوں پر ظلم کی ترغیب دلائی۔ منیر کمیشن رپورٹ میں ان کے فرمودات کے حوالے پڑھنے کے لائق ہیں۔ جھوٹ اور بدزبانی کے کئی شاہکار ریکارڈ پر لائے گئے ہیں لیکن ایک جگہ پر تو کمیشن نے ان کے ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ کے متعلق فرمودات لکھنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ منیر کمیشن رپورٹ میں موجود اقتباسات سے لگتا ہے کہ شاہ جی کو ملکہ برطانیہ کی خوابگاہ سے خاص دلچسپی تھی۔

شورش کاشمیری بلاشبہ تقریر کے فن میں یکتا تھے۔ مجمعے کو باندھ کر رکھتے تھے۔ مداری کی طرح بیان کو طنز اور شاعری اور چٹکلوں سے سجا کر، عوام کے مزاج مطابق بنا کر داد وصول کرتے۔ لیکن بازاری ذہن پایا تھا۔ احراری روایات کے عین مطابق اپنے معتوبوں کی ذاتی زندگی کو تختہ مشق بنائے رکھتے اور اسی شوق میں کئی خرافات بک جاتے۔ خود کو فنکار کہتے تھے۔ شورش کاشمیری بھی شاہ جی کے ٹولے کے اہم رکن تھے۔ ان کی ایک تقریر عرصہ پہلے سنی۔ اردو دانی میں واقعی کمال رکھتے تھے۔ لیکن وہ بھی گالیوں سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ختم نبوت کے پنڈی کے جلسے میں ایسی گالیاں دیں کہ سنتے ہوئے کراہت آتی تھی۔

برصغیر میں اردو خطابت میں کچھ معتبر نام بھی ہیں۔ مولانا آزاد کی فصاحت بھی مشہور ہے۔ ان کی تقاریر میں ایک علمی رنگ تھا، جو کسی حد تک مودودی صاحب میں بھی دیکھا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دارالعلوم دیوبند اور ندوہ العماء کے اوائل علماء میں شائستگی اور علم دوستی پائی جاتی تھی جو احراری سیاست کے آنے سے مفقود ہو گئی۔ بریلوی طبقہ اور گدی نشینوں میں بھی مقررین موجود ہیں ۔ گولڑے کے پیروں میں بھی خطابت کا شوق پایا جاتا ہے ۔ طاہر القادری بھی اس فن میں یکتا ہیں۔ لیکن تھوڑا سا کریدیں تو ان کی جادو بیانی اور لفاظی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ عوام کو جلسوں میں بٹھا کر تصنع اور بناوٹ سے ان کی ستائش وصول کرتے ہیں اور مجال ہے کہ ان کی صحبت سے کوئی اچھا اثر لے کر اٹھے۔

مجھے عرب کے ایام جہالت کے شاعروں اور ان مولویوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ وہ بھی خود پسندی اور نسلی اور قومی افتخار میں رطب السان تھے، اپنے دشمنوں کی ولدیت اور ان کی عورتوں کے کردار پر پھبتیاں کستے تھے۔ ان مولویوں میں بھی کچھ ایسی ہی بات نظر آتی ہے۔ میرے اس موازنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ مولوی خادم رضوی اور ان کے درجہ کے دوسرے مذہب کے بیوپاری کسی قسم کے کلام پر قدرت رکھتے ہیں۔ قبل از اسلام عرب کم ازکم شاعری میں کمال رکھتے تھے۔ یہ مولوی برصغیر کے مذہبی ظرافتی کلچر کے ترجمان ہیں۔ کرائے کے بھانڈ ہیں۔ نہ ان کو زبان پر قدرت حاصل ہے اور نہ ہی دینی مسائل کی باریکیوں سے ان کو کوئی علاقہ ہے۔ گھسے پٹے مہمل نعروں اور جعلی تقدیس کے جال میں پھنسے نہ جانے کتنے مستقبل کے ممتاز قادری اسلام آباد کی سڑکوں پر نفرت کا ایندھن اکھٹا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).