’پدماوتی‘ اور ’ورنہ‘


آج بی بی سی ورلڈ نیوز پر (بی۔ بی۔ سی انڈیا نہیں) پدماوتی فلم کے بارے میں سنا۔ سن تو پہلے ہی رکھا تھا کہ بالی ووڈ میں یہ فلم بننے جا رہی۔ اس فلم میں دیپکا پدوکون کا بطور ہیروئن انتخاب پہلے ہی ہو چکا تھا کیونکہ دیپکا نے فلم باجی راؤ مستانی میں تاریخی کردار ادا کر کے اپنے آپ کو منوا لیا ہے کہ وہ ایسے کردار بخوبی ادا کر سکتی ہے۔ بالی ووڈ کے کئی ہیرو تاریخی کردار ادا کر چکے ہیں جن میں سر فہرست ہریتک روشن، عامر خان، رنویر سنگھ اور شاہ رخ خان ہیں۔ ہریتک نے فلم جودھا اکبر میں مغل بادشاہ اکبر اعظم کا کردار ادا کیا تھا۔ میں اکثر فلمیں دیکھتے ہوئے یہ بھی سوچتی ہوں کہ اس اداکار کے علاوہ یہ کردار اور کون کر سکتا تھا۔ بات جب جودھا اکبر میں ہریتک روشن کی ہو تو ذہن میں کسی اداکار کا نام نہیں آتا جو ہریتک کی جگہ لے سکتا۔ یہی رائے باجی راؤ مستانی میں رنویر سنگھ کے بارے میں ہے۔ البتہ اشوک میں شاہ رخ خان کی جگہ کسی کو بھی لیا جا سکتا ہے۔ (فلم اشوک میں مجھے بس ایک ہی چیز پسند آئی اور وہ کرینہ کپور کے بازوؤں پر مہندی کا سٹائل)۔ فلم منگل پانڈے میں عامر خان کی بات ہو تو خاموش رہنا بہتر ہو گا۔

پدماوتی میں دیپکا کے شوہر راجپوت رتن سنگھ کے لئے شاہد کپور کا انتحاب کیا گیا جو کہ میرے حساب سے درست انتخاب تھا۔ شاہد کپور نے فلم حیدر میں اپنی ادا کاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ فلم میں رنویر سنگھ نے علا الدین خلجی کا کردار کیا ہے۔ بالی ووڈ کے دو منجھے ہوئے ادا کار آمنے سامنے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بازی کون لے جاتا ہے۔ رنویر تو بہترین پروفارمنس دے گا ہی اور مجھے شاہد کپور سے بھی یہی اُمید ہے۔ یہ فلم یکم دسمبر کو ریلیز ہو گی۔ اس فلم کی کامیابی یقینی کہہ سکتے ہیں۔ جس فلم میں شاہد کپور، رنویر سنگھ اور دیپکا جیسے بڑے اداکار ہوں اور ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی تو اس فلم کے فلاپ ہونے کے بہت کم چانس ہوتے ہیں۔ اور اگر فلم ہٹ نہ بھی ہو تو بھی بزنس تو کر ہی جائے گی۔

ادھر ہمارے ہاں بھی شعیب منصور کی تیسری فلم ’ورنہ‘ 17 نومبر کو ریلیز ہو رہی ہے۔ مجھے اس فلم کی کامیابی پر بھی کوئی شک نہیں اور اس اعتماد کی وجہ شعیب منصور ہیں۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ شعیب منصور ضرور ماہرہ خان سےمعمول سے ہٹ کر ادا کاری کروانے میں کامیاب ہوں گے۔

ابھی یہ تجریر مکمل نہیں کر پائی تھی کہ ایک خبر پڑھ لی کہ فلم ”ورنہ“ کی ریلیز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور وجہ جان کر نہایت افسوس ہوا۔ فلم کا موضوع ریپ یعنی کہ جنسی زیادتی ہے۔ بعض خلقوں میں اس موضوع پر اعتراض ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی جو بعد میں ہٹا دی گئی۔ (فلم ’ورنہ‘ پر پابندی کے بارے متضاد خبریں آ رہی ہیں)۔

ایک دن کسی دوست سے پی ڈی ایف کاپی ڈاون لوڈ کرنے پر بات ہو رہی تھی۔ دوست نے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔ مزید بتایا کہ ان کے ایک دوست فلم میکر ہیں اور وہ فلم ہمیشہ خرید کر دیکھتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ فلم بننے میں کتنا پیسہ لگتا ہے اور یہ فلم میکر کا حق ہے کہ اس کی فلم کاپی کرنے کے بجائے خرید کر دیکھی جائے۔

اس واقع کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک فلم پر بہت پیسہ لگتا ہے اور عین وقت پر جب فلم ریلز ہو رہی ہو تو پابندی عائد ہو جائے تو کتنا نقصان ہوتا ہے اس کا اندازہ میں اور آپ جن کو فلم میکنگ کے اخراجات معلوم نہیں ہے، نہیں لگا سکتے۔

جب شعیب منصور کی فلم خدا کے لئے آئی تو پاکستان کی فلم انڈسٹری سے بہت سی امیدیں وابستہ ہو گئی تھی لیکن افسوس کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کوئی اَور شعیب منصور پیدا نہیں کر سکی۔

کسی ملک کی فلم انڈسٹری جہاں ملک کا سافٹ امیج بناتی ہے وہاں معیشت پر مثبت اثر پڑا ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری دنیا کے سامنے انڈیا کا سوفٹ امیج پیش کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ ایک بار ایک امریکی این۔ جی۔ او ورکر سے بات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ انڈیا میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں کیونکہ انڈیا میں کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے حالات ایک جیسے ہیں تو پھر وہ پاکستان میں کام کیوں نہیں کرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کو پاکستان کی امن کی صورت حال سے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن پاکستان میں زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ انڈین فلموں میں انڈیا کا کلچر دیکھتے ہیں اور اِس وجہ سے اُن کو معلوم ہوا کہ انڈیا میں ایجوکیشن کی کتنی ضرورت ہے۔ جن سے بات ہوئی وہ ایجوکیشن کے لئے کام کرتے تھے۔ امریکی نے مزید کہا کہ وہ انڈیا اِس لئے بھی جانا چاہتا ہیں کیونکہ انڈیا میں قدرتی حسن بہت زیادہ ہے۔ میں اُنہوں بتایا کہ کیا کبھی اُنہوں نے ایشیا کا سویٹزر لینڈ دیکھا؟ جواب ملا وہ کہاں ہے۔ میں بتایا کہ پاکستان میں ہے، سوات اور کالام میں۔ آج سنیما کی پاور بہت بڑھ گئی ہے۔ کسی ملک کا سوفٹ امیج اور معیشت پر اثر انداز ہونے کے علاوہ ٹوریزم کو بھی پروموٹ کرتا ہے۔

خیر ’پدماوتی‘ اور ’ورنہ‘ کو لے کر میرے اندر ایک جنگ چل رہی ہیں۔ ایک طرف بالی وڈ کے معروف فلم ساز، ڈائریکٹر، پرڈیوسر، سکرین رائٹر اور موزیک ڈائریکٹر سنجے لیلا بنسالی ہیں جن کے کام کو ذاتی طور پر بہت پسند کرتی ہوں اور دوسری طرف انہی خوبیوں کے مالک شعیب منصور ہیں جو میرے لئے پسندیدگی سے کچھ زیادہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

جہاں میں شاہد کپور اور رنویر سنگھ کے درمیان مقابلہ دیکھتی ہوں تو وہاں سنجے لیلا بنسالی اور شعیب منصور میں بھی مقابلے کی فضا نظر آ رہی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ فلم ’ورنہ‘ بزنس کے پوائنٹ آف ویو سے بھی کامیاب ہو اور پاکستانی سنیما سے پاکستان کا سوفٹ امیج بن کر ابھریں، معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں اور ٹوریزم میں اضافہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).