آزادی میں بھی بے حسی کا رنگ نمایاں ہے


\"zahidماضی کی بہ نسبت، آج ہم آزادی محسوس کرتے ہیں بطور ایک پاکستانی شہری کے۔لیکن یہ عجیب طرح کی آزادی ہے کہ چاروں طرف بے حسی کا موسم رقصاں رہتا ہے۔ ماضی میں جب ایک قید، ایک گھٹن کے احساس کے ساتھ جیتے تھے تب بھی یہ بے حسی موجود تھی۔ ایک پرچھائی، ایک سائے کی مانند۔ تاہم ہم پاکستانی مبارک باد کے مستحق قرار پاتے ہیں کہ قریب قریب سات دہائیوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہمیں آزادی کا یہ احساس حاصل ہوا ہے۔ کہنا چاہیے کہ پوری طرح آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ سوچنا چاہیے کیا یہ سب کچھ جمہوری رویوں کے تسلسل کے سبب ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے ہے یا پھر بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ہے۔ خیر جس سبب بھی ہے آزادی کا احساس موجود ہے اور یہ صورت حال بتاتی ہے کہ آزادی کا یہ احساس تادیر قائم رہے گا۔ ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ آجا سکیں گے۔ پھیپھڑوں میں موجود ہوا کے تناسب کے حساب سے کھل کر سانس لے سکیں گے جو بولنا چاہیں گے بول سکیں گے، جو کہنا چاہیں گے کہہ سکیں گے۔ لکھنے والے جو لکھنا چاہیں گے لکھ سکیں گے او ر جب کبھی الیکشن آئیں گے جس کسی کو ووٹ دینا چاہیں گے اس کو ووٹ دے سکیں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو آج ممکن ہے آنے والے کل میں بھی ممکن ہو گا۔ یقینا یہ ماضی کے کچھ برسوں میں کچھ مخصوص طرز کی حکومتوں میں ممکن نہیں تھا۔ لیکن میں سوچتا ہوں اور شاید آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا اسی کا نام آزادی ہے کہ ہم بولتے رہیں، لکھتے رہیں، کہتے رہیں لیکن جن سے مخاطب ہوں وہ کچھ نہ بولیں ، کچھ جواب نہ دیں۔ ان پر کوئی اثر ہی نہ ہو۔ داغ کے لفظوں میں
اثر اس پہ ذرا نہیں ہوتا
رنج و راحت فضا نہیں ہوتا
تو یہ جو اثر نہ ہونے اور رنج و راحت فضا نہ ہونے کی بات ہے یہ تو صدیوں سے جوں کی توں چلی آرہی ہے۔ ایک روایت کی مانند۔ تو کیا اپنے اس آزاد ہونے کو ہم صحیح معنوں میں آزادی قرار دے سکتے ہیں۔ جب ہمارے رنج اور راحت سے ان کو کوئی سروکار ہی نہ ہوجن کے پاس ہمارے جسم اور دل کی دوا موجود ہو۔ اور صورت حال کچھ ایسی بھی نہ ہو کہ وہ اپنی دکان بڑھا گئے ہوں، نہ ہی ان کے پاس دواﺅں کی کمی ہو۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ہمیں سب کچھ کہنے، لکھنے اور بولنے کی آزادی ہے ۔ ہم جن سے مخاطب ہیں ان کو بھی چپ رہنے، کچھ نہ کہنے، جواب نہ دینے کی آزادی تو حاصل ہے ناں! چاہے ہمارا بولنا، ہمارے بنیادی اور انسانی نوعیت کے حقوق کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہو…. لیکن کہانی کچھ اس طرح کی بن گئی ہے ہم بول بول کے تھک چکے، وہ سن سن کے چپ رہے، ان کے چپ رہنے کی عادت سے ہمیں بھی چپ سی لگ گئی لیکن ایسا نہیں کہ ہم اب خاموشی کو ہی ورد بنانا چاہتے ہیں بقول شاعر بولنے کے احساس سے سلگتی ایک چنگاری اب بھی من میں دہکتی رہتی ہے۔
مدتیں ہو گئیں چپ رہتے
کوئی سنتا تو ہم بھی کچھ کہتے
سوال یہ ہے کہ کیا آپ یہ تماشا روز و شب ملاحظہ نہیں کرتے؟ روز میڈیا پر آ آ کر ہمارے رہنما، ہمارے قائد ہمارے بعض بنیادی نوعیت کے مسئلوں کے حل ہو جانے کی نوید نہیں دیتے؟ اور یہ مسائل ہوتے کیا ہیں۔ مہنگائی میں کمی، روزمرہ استعمال کی اشیاءکی ضرورت کے مطابق فراہمی، ذخیرہ اندوزی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم، بجلی گیس اور پانی کے بلوں میں سے غیر مناسب اور ہمارے استعمال میں نہ آنے والے چارجز کا اخراج، بچوں ، بوڑھوں، عورتوں، مزدوروں اور کسانوں کی زندگیوں سے جڑے ہوئے معاملات اور مسائل کو فی الفور حل کر دینے کے وعدے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے اہم مسائل پر قابو پانے کے نادر نسخہ جات، جو تب تک ان کی پٹاری میں رہتے ہیں جب تک یہ دوا بیچنے کے لیے تماشا لگا رکھتے ہیں اور تب تک ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اور وہ بھی ہفتوں اور دنوں میں اتنے زور و شور کے ساتھ بات کی جاتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی …. اور پھر کچھ ہی عرصہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہی چال بے ڈھنگی سی جو پہلے سے ان کا خاصا ہوتی ہے دہرائی جانے لگتی ہے۔ جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے مسائل اور دکھوںکا حل حکومت وقت کے پاس موجود نہیں۔ آپ پھر بولنے لگتے ہیں ، لکھنے لگتے ہیں، کہنے لگتے ہیں اور کہتے ہی چلے جاتے ہیں۔ وہ سنتے ہیں اور سنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب صورت حال ایسی ہو تو اسے انتہائی درجے کی بے حسی کا ہی نام دیا جائے گا۔ ماضی قریب میں ہی دنیا کے بعض ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلوں نے ہمیں بتایا ہے اور وہاں ہونے والی تباہی و بربادی ہمیں یاد دلاتی رہتی ہے کہ بے حسی جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو یہ سفاکیت کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور بے حسی جن سے روا رکھی جا رہی ہوتی ہے ان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور پھر یہیں پر وہ موڑ آتا ہے جسے قوموں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی اور انقلاب کا موڑ قرار دیا جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں مگر آنے والے اس موڑ کی نشانیاں ابھی کم کم ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وطن عزیز زرعی ملک ہے اور زرعی ریاستوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہاں سانس لینے والے ہر ذی نفس کو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ملتا ہی رہتا ہے۔ جس کو کھا کر نہ تو وہ عزت کی زندگی جی سکتا ہے اور نہ ہی عزت کی موت مر سکتا ہے۔ اس کا مالک اسے کھانے کے لیے اتنا کچھ فراہم کرتا رہتا ہے کہ اس کے بدن میں اتنی طاقت تو رہے کہ وہ اس کا ہر حکم بجا لائے۔ اس کی جانب سے ذمے لگائے گئے ہر کام کو بروقت تکمیل تک پہنچاسکے لیکن اس میں اتنی قوت نہ آنے پائے اور نہ ہی اتنا شعور کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں سوچ سکے اور نہ ہی ان کا تقاضا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments