اگلا وزیراعظم بننے کے لئے لیڈروں کا جوڑ توڑ شروع


موجودہ وزیر اعظم نے آئندہ انتخابات کے بعد حکومتی سیٹ اپ کے لئے سمجھوتہ کر لیا یا اس سمت پیش قدمی کر لی تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ بعض حلقے تو اب بھی ڈھکے چھپے ا لفاظ میں قرار دے رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی اصل میں ان قوتوں ہی کے بندے ہیں جو مائنس ون کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور اب ان کا مطالبہ ’’مائنس ون فیملی‘‘ ہو گیا ہے۔ مطالبے کی اس گیرائی کو کم کرنے کے لئے ہی موجودہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اب سمجھوتہ کرنا پڑے گا بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) کو آئندہ انتخابات کے بعد بننے والے حکومتی سیٹ اپ میں زیر غور لانے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ شاہد خاقان عباسی لائن پر آگئے تو چوہدری نثار علی خان کے رابطے آج بھی دوسری سیاسی قوتوں کے مقابلے میں اتنے مؤثر ضرور ہیں کہ مسلم لیگ (ن) امید بہار رکھ سکے۔

تاہم اب اس کے پاس تاخیر کی گنجائش نہیں رہی اسے فیصلہ جلد کرنا ہے۔ اس کی حریف جماعتوں ( خاص کر تحریک انصاف) کے نمبر بھی اچھے ہیں اور وہ وزارت عظمیٰ کا منصب پانے کے لئے ہر ممکن حربہ بھی استعمال کرنے پر تیار نظر آتی ہیں۔ کراچی کے صاحب کمال و بدحال لوگوں کے اعتراف نامے کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے اس پر شور و غوغا اسی لئے نہیں مچایا کہ وہ خود بھی رابطوں کو مؤثر بنانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی وغیرہ کی ایک آدھ چوں چرا سنائی دی ہے تاہم سابق صدر اور ان کے ہمنوا اس اہم موقع پر اتنے نادان نہیں کہ زیادہ چوں چرا کرتے۔ اوپر سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے کراچی کے سربراہ نے سب کے رابطوں پر مہر تصدیق ثبت کرکے بھی انہیں خاموش کر دیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خاموشی سے رابطے جاری ہیں اور میاں صاحب کی جماعت نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے رابطے کیسے پہلے کی طرح مؤثر کرنے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھی عرض کیا تھا کہ سندھ سرکار اس صوبے کو ا پنے ہاتھ سے جاتا دیکھ رہی ہے۔ پنجاب و خیبر پختونخوا میں ضمانتیں ضبط کروانے کے بعد اب اس کے رابطوں کا نچوڑ یہی ہے کہ سندھ اس کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے وہ مرکز میں اپنے ’’حق‘‘ سے مزید پانچ سال دستبردار ہو کر صبر شکر سے گزار لے گی۔ یعنی اسے بھی اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے جن حلقوں سے اسے کچھ ملنے کی امید تھی وہاں کپتان کے حق میں اسے دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ دستبرداری اپنی جگہ اب جنوبی پنجاب کے ساتھ جڑے چند مہرانی حلقوں کی بھی اسے فکر لگ گئی ہے جہاں کپتان صاحب جلسے کرتے پھر رہے ہیں۔ سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں نے مفت میں کپتان کی ٹیم میں کھیلنا منظور نہیں کیا۔ سابق صدر اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو میدان میں اتار کر بھی وہ فی الحال کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے اس لئے انہوں نے میاں صاحب سے شدید ناراضگی کا تاثر دے کر ووٹ کے تقدس کی بحالی مہم میں کسی صورت شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے سندھ کارڈ بچانے کی اپنی سی کوشش کر لی ہے۔ البتہ آئندہ انتخابات میں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تو وہ خود میاں صاحب کے ساتھ ایک ہی قوالی گاتے نظر آئیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا اپنا گیم پلان ہے انہیں مجلس عمل کی وہ شاندار کارکردگی اب بھی یاد ہے جس کے بعد وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بلاول بھٹو فی الحال زیر تربیت ہیں اور میاں صاحب کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا ایسے ہی میاں صاحب کی جماعت کو بھی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کی امید نہیں۔ انہیں اپنی سیاسی دانائی کا مظاہرہ کرکے صرف تحریک انصاف کو چت کرنا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجلس عمل کے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے وہ 2002ء والی کارکردگی دہرا گئے تو ایک طرف سابق صدر سے اپنی دوستی کو کام میں لا کر پیپلز پارٹی تو دوسری طرف میاں صاحب کی جماعت کو بھی وہ اپنی تائید و حمایت پر راضی کر سکتے ہیں۔ تاہم فی الحال تو انہیں ’’مجلس عمل والوں‘‘کو راضی کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔

اپنے خواب کو پانے کے لئے انہوں نے دوڑ دھوپ شروع کی ہوئی ہے۔ اکوڑہ خٹک حاضری دینے کے باوجود مولانا سمیع الحق کافی دنوں سے سوچ بچار میں پڑے ہوئے ہیں جماعت اسلامی کے امیر جتنے شریف ہیں بقول بعض حلقوں کے اتنی ہی سادہ لوحی میں مولانا کے دام میں آگئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ترازو کے پلڑے میں اب کتاب ہی ڈالنی پڑے گی ضمنی انتخابات میں پہلے ہی اپناوزن خاصاہلکا کرا چکے ہیں۔ بہر حال مولانا کی مشکل آسان کرنے والے شاید انہیں ابھی دوڑاتے رہیں گے ان کی بھی کچھ شرائط ہیں جن سے ایک دوسرے مولانا اچھی طرح واقف ہیں صوابی سے تعلق رکھنے والے ان مولانا صاحب نے جہاں اسلام کے نام پر ووٹ لینے کو ممنوع قراردے کر مولانا فضل الرحمان کی مشکلات میں اضافہ کیا وہیں مولانا سمیع الحق کو بھی اپنے ہم دم دیرینہ سے سودے بازی کی راہ سمجھا دی گئی۔ امکان ہے کہ اس سارے گیم پلان کامقصد’’ انہیں‘‘ پارلیمانی سیاست کا حصہ بنانا ہے جو کبھی سٹرٹیجک اثاثہ تو کبھی نان سٹیٹ ایکٹر کہلاتے رہے اور اسی طرح نام بدل بدل کر سامنے آتے رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور جے یو آئی(س) مجلس عمل کے ٹوٹنے کے بعد دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر ان کے ساتھ رہے تاہم مولانا فضل الرحمان اس اتحاد سے دورہی رہے۔ اب مولانا سمیع الحق کے حوالے سے افواہیں ہیں کہ وہ مجلس عمل میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔ گویا ملی مسلم لیگ کے نام سے ان رجسٹرڈ جماعت کی رجسٹریشن کے وہ خواہش مند ہیں۔ مجلس عمل کے وسیع احیاء کے خواہش مندوں میں شاید صوابی وال بھی شریک ہو چکے ہیں۔ فی الحال تو مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ کی منشا جاننے کی تگ و دو میں ہیں ایک بارانہیں یقین ہو گیا کہ مجلس عمل کے وسیع اتحاد کی صورت میں انہیں کیا کچھ مل سکتا ہے تو وہ اپنی صفیں درست کرتے نظر آئیں گے۔ انہیں بھی فی الحال میاں صاحب کے ووٹ کے تقدس کی بحالی مہم سے زیادہ دلچسپی اپنی خواہش پوری کرنے میں ہے البتہ ایک مرتبہ پھر اپنی خواہش پوری ہونے سے محروم رہے تو سابق صدر اور میاں صاحب کے ساتھ گزرے اچھے دنوں کو یاد کریں گے۔

اب آیئے کپتان اور ان کی ٹیم کی طرف۔ فی الحال تو ان کے حق میں فضا سازگار ہے اور راوی کے بقول ان ہی کے رابطے مؤثر ہیں۔ خیبر پختونخوا کے انصافیوں کو پکا یقین ہے کہ کپتان کو شیروانی سلوا لینی چاہیے۔ ادھر ان کی ٹیم کے وزیر اعلیٰ نے اگلی ٹرم کے لئے بھی اپنی سیٹ پکی کرنے کی غرض سے تگ و دو شروع کر دی ہے۔ مجلس عمل کو بے اثر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق سے ’’باہمی دلچسپی‘‘ کے امور پر حال ہی میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ گو کہ ان کا بنیادی مقصد اپنے حلقہ نیابت میں اپنی سیاسی مشکلات کم سے کم کرنا ہے تاہم وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے کے لئے مؤثر جوڑ توڑکی ذمہ داری وہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر ہی آئندہ کے لئے وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں۔

رہے کپتان تو وہ قبل از وقت انتخابات کی توقع لگائے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے کیمپ سے رخت سفر باندھنے والوں کے منتظر ہیں۔ ایسی کسی ہلچل سے بچنے کے لئے ہی موجودہ وزیراعظم نے چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر ان سے بات بنا لی جن کے ساتھ سب رابطے میں ہیں تو کپتان کا حال دیکھنے والا ہو گا ۔حرف آخر کہ سب رابطے میں ہیں اور چولہے پر چڑھی ہانڈی سے اٹھنے والی خوشبو بتا رہی ہے کہ کھچڑی کس حد تک پک چکی ہے۔ ہانڈی اترنے کی دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).