اس لئے ہے ڈاکٹر ذاکر نائک پر اعتراض


صاحبان نظر اس معاملہ پر بارہا غور و فکر کرتے رہے ہیں کہ مذہب کی تبلیغ کا سب سے بہتر طریقہ کون سا ہے اور دعوت کے عمل میں کن باتوں سے اجتناب کیا جائے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے طریقہ تبلیغ پر میرے سابقہ مضمون کے بارے میں بہت سے افراد نے اپنی آراء کا اظہار فرمایا۔ میرے خیال میں دعوت و تبلیغ کی تربیت کے دوران پہلا سبق یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تبلیغ کیسے کریں بلکہ بات یہاں سے شروع ہونی چاہیے کہ تبلیغ میں کیا کیا نہ کریں؟ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رکھنی اہم ہے کہ تبلیغ کا اکلوتا راستہ مناظرہ، شعلہ بیانی یا تکذیب ہی نہیں ہے بلکہ تفہیم اور مکالمہ کہیں زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے اسلامی حلقوں میں دعوت و تبلیغ کی پوری چکی ہی عام طور پر تکذیب اور مناظرے کی دھری پر گھومتی ہے۔ اسلام کی تبلیغ کی بات تو چھوڑیے مسالک اور مکاتب فکر کے علماء، ذاکر، مناظر عام طور پر اپنی حقانیت ثابت کرنے کا اکلوتا ذریعہ فریق مخالف کی تکذیب کرنے کو سمجھتے ہیں۔ یہ انداز ایک ہی بات پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے پاس اپنے موقف کی حمایت میں دلیلیں نہیں ہیں اس لئے ترازو کے دوسرے پلے میں رکھی شئے کو ہم انگلی سے دھیرے دھیرے باہر گرا کر اس کا وزن کم کرنا چاہ رہے ہیں۔

تبلیغ دراصل ایک بہت وسیع کام ہے جس کو ہم نے سہل ترین کام سمجھ لیا ہے۔ تبلیغ کا مطلب انسان کو اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلی لانے کی دعوت دینا ہے۔ یہ انقلاب اتنا معمولی نہیں ہوتا کہ کسی کی تکذیب میں چار باتیں سن لینے سے برپا ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اجتماع میں کوئی فرد وقتی طور پر کسی خطاب یا مناظرے سے متاثر ہو کر دعوت قبول کر لے لیکن یا تو یہ استثنی ہوگا یا پھر اس میں استقلال نہیں ہوگا۔

ہم پیغمبر اسلام کی زندگی کو بار بار پڑھتے ہیں لیکن اس سے نتائج اخذ کرنے کے معاملہ میں کنجوسی کر جاتے ہیں۔ حضور اکرم نے اعلان رسالت سے پہلے چالیس برس تک مکہ میں جو زندگی گذاری کیا کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ وہ تبلیغ یا دعوت نہیں تھی؟ اس بات کو اور سمجھنے کے لئے یاد کیجئے کہ ایک شخص حضرت امام جعفر صادق کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں تبلیغ دین پر نکلنے والا ہوں مجھے کوئی ہدایت فرما دیں۔ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ کوشش کرنا کہ تمہیں تبلیغ کے لئے اپنی زبان استعمال نہ کرنی پڑے۔ مطلب یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذریعہ انسانی زندگی میں جس انقلاب کی دعوت دی جاتی ہے وہ تحریک نمونہ عمل دیکھ کر زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے ذہن میں کبھی یہ سوال کیوں نہیں آتا کہ صرف قرآن مجید کا نزول بھی تو ہدایت کے لئے کافی سمجھا جا سکتا تھا پھر رسول اسلام کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا بھی جواب وہی ہے کہ عملی نمونہ دیکھ کر انسان زیادہ تحریک پاتا ہے۔

دعوت و تبلیغ کو ایونٹ بنانے کے حوالہ سے ڈاکٹر ذاکر نائک پر میرے اعتراض کا مطلب یہ تھا کہ یہ دعوت صرف کلمہ گو بننے کی نہیں دی جانی چاہیے بلکہ زندگی میں اس انقلاب کے لئے دی جانی چاہیے جس انقلاب کے برپا ہونے کے بعد ایک شخص صحیح معنی میں مسلمان قرار پاتا ہے۔ میری تقریر یا مناظرے سے متاثر ہوکر مجمع عام میں کسی کا مسلمان ہو جانے کا اعلان کر دینا میری تبلیغی انانیت اور مجمع کی ملی انانیت کے لئے تو سکون کا سامان ہو سکتا ہے لیکن اس سے حق تبلیغ ادا ہو گیا ہو ایسا ضروری نہیں ہے۔

تبلیغ کے عمل میں غور و فکر کی دعوت دینے کا بہت بڑا کردار ہے لیکن کسی کو غور و فکر کی دعوت دینے کی ہمت وہی کر سکتا ہے جس میں جواب دینے کی اہلیت بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مبلغین کی ایک پوری فوج چاہتی ہے کہ ان کی ایک گھنٹے کی تقریر سے متاثر ہوکر سارے غیر مسلم اسلام کو سردرد کی گولی کی طرح گٹک لیں۔ مذاکرے اور مکالمہ سے ایسے مبلغین کرام کو ناگواری محسوس ہوتی ہے۔

حال ہی میں عدنان خان کاکڑ صاحب نے مولانا طارق جمیل اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے طریقہ دعوت پر لکھے مضمون میں ایک اہم بات کی جانب اشارہ کیا تھا۔ غامدی صاحب کی جو بات سننے والے کو پہلی ہی نظر میں اپیل کرتی ہے وہ ان کا تبلیغی اعتدال ہے۔ کسی معاملہ پر اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے حقائق پیش کرنے کے بعد باقی سب کچھ سامنے والے کے تدبر پر چھوڑ دینا زیادہ موثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے طریقہ تبلیغ میں اس تدبر اور اعتدال کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے طریقہ دعوت میں جو جارحانہ دلائل دیے جاتے ہیں اس کی سند نہ تو رسول اسلام کی دعوت میں نظر آتی ہے نہ اسلاف میں۔

بہت سے دوست دلیل دیتے ہیں کہ رسول اسلام نے بھی تو کفار کے معبودوں کی تکذیب کی تھی پھر دوسرے مذاہب کی تکذیب میں کیا مضائقہ ہے؟ یہ دوست یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کفار کے معبود بتوں کی تکذیب، پیغمبر کے پورے تبلیغی عمل میں رائی کے دانے کی برابر حصہ رہا۔ اس ایک روایت کے علاوہ ہزاروں روایات اور احادیث میں تبلیغ کا جو طریقہ پیغمبر اسلام نے اختیار کیا کیا وہ نمونہ عمل نہیں ہونا چاہیے؟ پیغمبر اسلام نے کتنی بار اپنی دعوت صرف تقریروں کے ذریعہ کی؟ مکہ میں دشمنوں کے ذریعہ صادق و امین کا خطاب رسول اسلام کو تقریر کرنے یا مناظرے کرنے سے نہیں ملا تھا۔ یہ عمر بھر کی اس عملی تبلیغ کا صلہ تھا جس میں زبان کو کبھی زحمت نہیں دی گئی تھی۔ پیغمبر اسلام سے ان کی عملی تبلیغ کے نتیجہ میں مکہ میں لوگ جوق در جوق متاثر ہوئے اور مدینہ میں بھی یہی عملی تبلیغ تھی جس نے لوگوں کو متاثر کیا۔

مبلغین کو دعوت کے عمل میں دو باتیں سامنے رکھنی چاہئیں۔ پہلی، مذہب کی تفہیم ہی مذہب کی اصل تبلیغ ہے اور دوسری، تبلیغ کا مطلب دوسرے کی تکذیب کرنا ہی نہیں ہے۔


اسی بارے میں

مولانا طارق جمیل اور جاوید غامدی پڑھے لکھے طبقے میں کیوں مقبول ہیں؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter