آؤ ری سکھی کھیلیں ہولی


\"inam-rana\"

خبر آئی ہے کہ حکومت اب سرکاری چھٹی دے گی ہولی دیوالی اور ایسٹر پر۔ حیران ہوں کہ میرا وطن کیا واقعی اب ’سب‘ کا ہو چلا ہے؟ کیا ہم ماننے پہ تیار ہو گئے ہیں کہ ہمارے ملک میں تین فیصد ہی سہی کچھ ایسے انسان بھی بستے ہیں جو ہمارے مذہب کے نہیں؟ خدا خیر کرے، خوشی کی ایسی ہی خبریں ہوتی ہیں جب دل بے اختیار کہتا ہے

’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘۔

ہم میں سے بہت سے ان تہواروں کو ’غیر اسلامی تہوار‘ قرار دیتے ہوئے اسلام کے خلاف سازش سمجھیں گے۔ ملک کو لبرل بنانے کا ہتھکنڈہ بیان کریں گے۔ شاید ایسا ہی ہو۔ مگر بھائی، اگر وہ تین فیصد بھی یہ سمجھنے لگیں کہ ’یہ وطن ہمارا ہے اور ہم ہیں پاسباں اس کے‘ تو ایسا لبرل ازم بھلا کیا برا ہے۔ کسی دن لکھوں گا کہ میرے ملک میں ایک قوم ایسی بس رہی ہے کہ آج تک ان کی شادی طلاق کے قوانین بھی سرکاری نہی بن سکے۔ سو اگر وہ ایک دن ہی سہی ہمارے برابر آ جائیں تو صبر کیجیے گا۔

ہولی تہوار ہے بہار کا اور بہار سے وابستہ رنگوں گا۔ پھاگن کے مہینے میں چاند کی پندرھویں یا پھاگن پورن ماشی کو منایا جانے والا یہ تہوار ’بسنت اتّسَو‘ بھی کہلاتا ہے اور ’پھاگنا‘ بھی۔ ہولی کا ذکر پرانوں میں بھی ہے اور کالی داس کی چوتھی صدی کی نظموں میں بھی۔ یعنی یہ اس خطے کا ایک قدیم ترین تہوار ہے۔ بہت سی روایتوں کے مطابق ہولی ’ہمارا‘ ہی تہوار ہے اگر ہم یہ مانیں کہ اسلام کے آنے سے قبل بھی ہم کوئی وجود رکھتے تھے۔ جانتے ہیں ہولی شروع کہاں ہوئی؟ ملتان شریف کے پرہلاد پوری مندر سے اور موقع تھا حق کے باطل پر حاوی آنے کا۔ پرہلاد ملتان کے بادشاہ ہرنیاکشپ کا بیٹا تھا۔ بادشاہ ظالم تھا اور طاقت میں اتنا بڑھا ہوا کہ خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ پرجا مجبور تھی اور ظلم کا شکار مگر دہائی دیتی بھی تو کس کے آگے۔ جب حکمران ہی ظالم ہو جائے تو عوام فقط خدا کے سامنے دہائی دے سکتی ہے مگر یہاں تو اس کی بھی اجازت نہ تھی کہ بادشاہ کو بھگوان بننے کا شوق چرایا تھا۔ فطرت کا مگر اصول ہے کہ ’ہر فرعونے را موسی‘۔

\"holi1\"

ایسے میں جیسے فرعون کے گھر نبی موسیؑ نے پرورش پائی، پرہلاد پروان چڑھا اس ظالم کے محل میں۔ پرجا باپ کو پوجنے پر مجبور تھی مگر یہ ناستک باپ کو چھوڑ کر وشنو کا بھگت بن گیا۔ باپ کو بستر میں یہ کانٹا چبھا تو چونکا کہ یہ کیا ہوا جو میرا خون میرے خلاف ہی کھڑا ہو گیا۔ اصول فطرت یہ بھی ہے کہ حق ہمیشہ آزمایا جاتا ہے۔ خالی باتوں پر ایمان مکمل نہی سمجھتے، عملی مظاہرہ کرواتے ہیں۔ کہیں آری سے چرواتے ہیں تو کہیں آگ میں پھنکواتے ہیں۔ کبھی چھری ہاتھ میں دے کر آگے بیٹا لٹا دیتے ہیں تو کبھی طائف میں پتھر پڑواتے ہیں۔ مگر اہل ایمان ڈگمگائے بغیر ثابت کرتے ہیں کہ وہ اگر چنے گئے تو صحیح چنے گئے۔ سو یہاں پرہلاد بھی سختیوں کا شکار ہوا۔ جب باپ کے سب ظلم ناکام ہوے تو چالاک پھوپھی ہولکا کو ترکیب سوجی اور بھتیجے کو منایا کہ آ جلتی چلتا پر بیٹھیں، اگر تیرا وشنو سچا ہے تو بچ جائے گا اور مارا گیا تو تیرا باپ ہی خدا۔ سچے بھگت کی طرح پرہلاد نے پرکشا قبول کی اور آگ میں جا بیٹھا۔ اب کرنی ایشور کی کہ پھوپھی نے آگ سے بچنے کو جو خصوصی چادر اوڑھی تھی وہ ہوا سے اڑی اور پرہلاد پر جا پڑی۔ سو ہولکا جل مری اور پرہلاد فتح یاب ہوا۔ لوگوں کے دل سے خوف نکل گیا اور جنتا آزاد ہوئی۔ اسی فتح کی یاد میں ہولکا کی آگ پورن ماشی کو جلائی جاتی ہے اور پھر دن چڑھے سے سب رنگ پھینک کر خوشی مناتے ہیں۔

\"holi2\"

یہی تہوار وسطی ہندوستان میں ’رنگ پنچمی‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اور روایت جڑی ہے کرشنا جی سے۔ کرشنا جی رنگ کے زرا پکے تھے اور رادھا جی تھیں سیندور ملے دودھ سی۔ کرشنا جی کو رادھا سے لوبھ تو تھا مگر اپنی رنگت کی وجہ سے کمتری کا احساس بھی۔ گورا رنگ اس خطے میں ہمیشہ برتر ہی سمجھا گیا کہ شمال سے آنے والا ہر فاتح رنگ گورا رکھتا تھا۔ سو اس احساس کمتری میں کرشنا جی رادھا کو اور خود رادھا جی بھی خود کو برتر جانتیں۔ خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ شاید رادھا جی نے بھی ایک دو بار کہا کہ مراری میرا روپ دیکھ اور اپنا رنگ بھی۔ کرشنا جی یشودا میّا کے پاس جا جا کر روتے تھے کہ ’رادھا کیوں گوری، میں کیوں کالا‘۔ اب ماں تو ماں ہے۔ سمجھایا بجھایا کہ تیرے کالے رنگ کی تو شان ہی کیا ہے مگر کرشن جی مان کر نہ دیے۔ سو اک دن کہا یہ لے رنگ اور رادھا کو لگا دے سو وہ بھی رنگدار ہو جائے گی۔ کرشن جی نے فورا رنگ اٹھائے اور جا پھینکے رادھا جی پر۔ خود پر بھی پھینکے ہوں گے اور کہا ہو گا یہ اب تیرا غرور بھی ان رنگوں میں گم اور میرا احساس کمتری بھی۔ محبوب کو عاشق کی جانے کون سی ادا پسند آ جائے سو رادھا جی بھی اس ادا پر ریجھ گئیں اور کرشن جی کی ایسی ہوئیں کہ صدیوں بعد میرا بھی ان دونوں میں دوری نہ آ سکی۔ ہولی آج بھی عشق کی اس ادا کی یاد کا نام ہے۔ ہولی، ایک دن ، جب عورت مرد، امیر غریب سبھی رنگوں میں رنگ کر ایک رنگ ہو جاتے ہیں اور ہر امتیاز، برتری، کمتری اور فرق بھول جاتے ہیں۔

صاحبو مگر داستانیں تو داستانیں ہیں۔ اکثر تہواروں کے ساتھ مذہبی داستان جوڑ دی جاتی ہے تاکہ وہ مقبول بھی ہوں اور برقرار بھی رہیں۔ لیکن اگر یہ مذہبی داستانیں نا \"holi3\"بھی ہوں تو ہولی فقط خوشی کا تہوار ہے اور موسم کا استقبال۔ یہ برصغیر جہاں غریب کسان کو ہر موسم اپنی شدت کے ساتھ خوفزدہ کرتا تھا اور کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچاتا تھا، فقط بہار ایک ایسا موسم تھا جو اسے خوف سے آزاد رکھتا تھا۔ نہ قحط کا ڈر نہ سیلاب کا خطرہ۔ نہ ٹھٹھرنے کی اذیت نہ گرمی کی تپش اور نا ہی ساون کا سانس بند کرتا حبس۔ ایک کھلا موسم جس میں دھرتی اپنا اصل رنگ دکھاتی اور پھولوں کی صورت رنگ بکھیرتی تھی۔ ایسے میں کسان فطرت کی اس شراب پر مست ہو جاتا اور اس موسم کا بھرپور استقبال کرتا۔ کبھی بسنت منا کر اور کبھی ہولی کھیل کر۔ فطرت کے پھیلائے رنگوں میں اپنے بنائے رنگ بکھیرتا اور کچھ لمحوں کو جاتی سردی کا دکھ اور آتی گرمی کا خوف بھول جاتا۔ یہ فقط زمین کے بیٹوں کا زمین کو خراج عقیدت تھا۔

ہندو ہمارے ملک میں اندازا فقط تیس لاکھ یعنی صرف ایک اعشاریہ چھے فیصد ہیں۔ یقین کیجیے اتنی بہت ساری چھٹیوں میں ایک دو چھٹیاں ان کو دے کر بھی ہم ان سے کم نہیں ہوں گے۔ نہ ہی وہ ہم پر غالب آ سکیں گے اور نہ ہی ہمارا اسلام خطرے میں آئے گا۔ ہم اتنے برسوں سے انھیں شاید دکھ ہی دیتے آئے ہیں۔ چلئے ایک دن خوشی کا بھی دے دیجیے۔ اور اگر، گو اس اگر کا امکان قریباً ناممکن ہے، کوئی پیار سے آپ کو بھی رنگ لگا دے تو لگوا لیجیے گا۔ گلال خون جیسا سرخ سہی پر اس میں خون کی بو نہیں ہوتی۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments