سابق صدر کی ڈائری


میری نئی اڑان سے نام نہاد روشن خیال اور لبرل بھی پریشان ہیں۔ جعلی روشن خیال جانتے ہیں کہ جب حقیقی چیئرمین روشن خیالاں (تاحیات) واپس آ کر چھا گیا تو ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ زمینی حقائق سے نابلد مغربی جمہوریت کے دلدادہ ہیں اور مجھ پر آئین شکن کی پھبتیاں کستے ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں آئین کا احترام کرتا ہوں تو یہ جاہل اسے آئینِ مے کشی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں‘ حالانکہ میری مراد 73ء کا آئین ہوتا ہے۔ البتہ میں نے اپنی سرزمین کے تقاضوں کے مطابق سترہویں ترمیم کے ذریعے اس کی نوک پلک ضرور سنواری تھی، جیسے میرے پیش رو بزرگ نے آٹھویں ترمیم کی وساطت سے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بنا دیا تھا اور لوگ اس کامیاب ترین نظام کو حیرت سے دیکھتے تھے۔

میری روشن خیالی میں تو اتنی لچک ہے کہ بیک وقت ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کو اپنے ساتھ ملوث کرکے ملکی ترقی کے لیے کام کر سکتی ہے‘ جبکہ ہمارے نام نہاد لبرل اپنے ہی کنوئیں کے مینڈک ہیں۔ ان عاقبت نااندیشوں پر مغربی جمہوریت کا بھوت سوار ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ ہماری سرزمین پر جمہوریت کے تقاضے مختلف ہیں۔ ہم دہشت گردی اور غربت کے ساتھ نبرد آزما ہیں جبکہ وہ خوشحالی اور آزادی کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔ ہم اپنی خواتین کو زندہ دفنانے میں مشہور ہیں اور وہ اپنے مُردوں کو بھی زندہ کرنے کے درپے ہیں۔ عوامی حاکمیت والی جمہوریت کی نقالی میں یہاں کے عوام پر ان کی اپنی سرزمین بھی تنگ ہو رہی ہے، اُدھر وہ خلا میں بستیاں بسانے پر کمر بستہ ہیں۔ انہی زمینی حقائق کا عمیق مشاہدہ کرکے میں نے قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے ایک وردی پوش اور گائیڈڈ جمہوریت متعارف کرائی تھی، جو سازشوں کا شکار ہو گئی اور ملک دوبارہ مسائل کی دلدل میں دھنس گیا۔ آج میں عشاقِ شتر بے مہار جمہوریت اور اقامے والوں کے ہاتھوں ملک کی درگت بنتے دیکھتا ہوں تو تاسف سے کہتا ہوں ”کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘

جیلسی اور تنقید جیسے فنون میں ہمارا جمہوریت پسند طبقہ اپنی مثال آپ ہے۔ میں انہیں ”فنونِ لطیفہ‘‘ کہتا ہوں کیونکہ یہ سرداروں کے لطیفوں سے کم نہیں۔ گزشتہ برس جب میں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لیے موزوں نہیں تو تنقید کا طوفان امڈ آیا۔ حالانکہ میں نے بقائمی ہوش و حواس، لگ بھگ نصف صدی پر محیط اپنی عملی زندگی کا نچوڑ بیان کیا تھا۔ میں وطنِ لذیز میں بھیڑ بکریاں نہیں چراتا رہا (اگرچہ کچھ مخصوص حلقے معروف معنوں میں تو یہی سمجھتے ہیں) میں نے ملک کے سب سے طاقتور ادارے میں اپنی گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں اور آٹھ سال تک کامیاب حکومت بھی کی ہے۔ دریں حالات میرا کہا ہوا مستند ہونا چاہیے لیکن ”فنونِ لطیفہ‘‘ مذکور کی بنا پر ایسا شور اٹھا، جیسے میں نے بھِڑوں کے چھتے میں پتھر مار دیا ہو۔ ہمارے نام نہاد دانشور اور سیاستدان معقولیت کی ہر بات میں اپنی ٹانگ اڑانا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنے انٹرویو میں دلائل کے ساتھ کہا تھا کہ یہاں کے جمہوری نظام میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ کسی نابغے نے گرہ لگائی کہ اگر چیک اینڈ بیلنس ہوتا تو سابق صدر بیرون ملک نہیں، جیل میں ہوتے۔ اب عقل کے ان اندھوں کو کون سمجھائے کہ یہاں جیلیں تو کرپٹ اور چور اہل سیاست کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی اتنا بے ضمیر نہیں کہ قوم کے نجات دہندوں کو عدالتوں میں گھسیٹے یا انہیں جیل کا رستہ دکھائے۔

اگر کوئی سبق حاصل نہ کرنا چاہے تو اس کی مرضی مگر میں اپنی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے ایک سبق آموز بات ضرور لکھوں گا۔ ہوا یوں کہ پچھلے سال جب بھری دوپہروں میں میرے احتساب کے خواب دیکھنے والے بے وقوفوں کی طرف سے مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے کے مطالبات کا غوغا زوروں پر تھا، تب ای کے 611 نے مجھے لے کر کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھری۔ خلیجی ایئرلائن کی پرواز آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی اور جمہوریت کے مجاور زمین میں گڑے جا رہے تھے۔ ایسے میں مجھے ایک شوخ سی رفیقہء دیرینہ کی مختصر مگر جامع ای میل موصول ہوئی، جس کے الفاظ ہمارے نظام کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ اس گل گلاب نے لکھا تھا:
چھوٹا سا الزام تھا اور وہ چلے گئے
پیش نظر آرام تھا اور وہ چلے گئے
یا کہ ضروری کام تھا اور وہ چلے گئے
ای سی ایل میں نام تھا اور وہ چلے گئے

میں سمجھتا ہوں کہ میرے کندھوں پر ایک مرتبہ پھر بھاری ذمہ داری آ پڑی ہے۔ تاہم میں گھبرانے والا نہیں۔ میں قوم کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ میری قیادت میں پاکستان قومی اتحاد تیزی سے ترقی کرے گا اور ملکی سیاست پر چھا جائے گا۔ یہ اتحاد 23 جماعتوں تک محدود نہیں رہے گا۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ میری اکابرین ایم ایم اے کے ساتھ بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے۔ میں نے عمران خان اور طاہرالقادری کو بھی پارلیمنٹ میں ایک ایک سیٹ دلائی تھی۔ چوہدری برادران اور ان کی پارٹی کے دیگر ممبران بھی میرے ممنون ہیں۔ میں نے ق لیگ کی تخلیق اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کی تھی۔ یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ان لوگوں کو سرکاری دھارے میں لانے کی میری ادنیٰ سی کاوش تھی، جو بہت کامیاب رہی۔ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی میرا نباہ خوب رہا۔ ان تمام لوگوں نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے کارِ خیر میں میرے ہاتھ مضبوط کیے۔ انہوں نے میرے ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کے لیے بے پناہ محنت کی اور آئین کی سترہویں ترمیم منظور کرانے میں بھی ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ میری طرح عوام میں گہری جڑیں رکھنے والے یہ سب رہنما بہت جلد میری قیادت میں دوبارہ ملک کو اسی شاہراہ پر دوڑانے کے لیے کمربستہ ہوں گے۔ اگلے دن ایک تقریب میں عزیزی شوکت عزیز سے بھی ملاقات ہو گئی۔ میں ان کا نام پیراڈائز لیکس میں آنے پر ان سے اظہارِ افسوس کرنا چاہتا تھا مگر وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں تھے، سو میں نے انہیں بھی ایک دفعہ پھر گرین سگنل دے دیا کہ ان کی جڑیں بھی عوام میں خاصی گہری ہیں۔
وہ دن دور نہیں جب ہم سب ایک بڑی طاقت بن کر ابھریں گے اور دو نمبر قیادت کو دیوار سے لگا کر ملکی سیاست پر چھا جائیں گے۔ میں تو کہتا ہوں کہ وقت کی آواز سنتے ہوئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ جیسی تانگہ پارٹیوں کو بھی میرے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے۔ اس طرح ملک میں ون پارٹی سسٹم وجود میں آ جائے گا اور انتخابات وغیرہ کے اخراجات سے قومی خزانے کو آزاد کراتے ہوئے صحیح معنوں میں قومی حکومت قائم کرنے کی منزل آسان ہو جائے گی، ورنہ میں نے تو رفقائے بالا اور رکشوی جماعتوں کے فاورڈ بلاکس کے ساتھ مل کر تیز رفتار ترقی کا سفر وہیں سے شروع کر ہی دینا ہے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔

ڈائری کا آف دی ریکارڈ حصہ
ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ کامیاب بندے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل گھر ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ میری یہ ڈائری پڑھ کر بیگم صاحبہ نے طنز کا ایک ناقابل بیان سا نشتر چلایا تو میں نے کہا کہ وطن لذیز میں جا کر دیکھئے بیگم صاحبہ! ہر تیسرے ٹرک کے پیچھے میری تصویر کے ساتھ لکھا ہے ”تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد‘‘۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا ”کمانڈو صاحب! اگر سات عشروں تک ان سادہ لوحوں کو ٹرکوں کی بتیوں اور تصویروں کے پیچھے نہ لگایا جاتا تو آج اپنے جینوئن رہنمائوں کی قیادت میں ترقی یافتہ ہوتے‘‘۔ میرا دل ایسے ٹوٹ گیا جیسے کسی نے 58-2B کے تحت اسمبلی توڑ دی ہو۔ میں نے سوچا … اس قوم کو بے وقوف بنانا جتنا آسان ہے، بیگمات کو بنانا اتنا ہی مشکل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).