چاکیواڑہ میں انناس  کا شربت بیچنے والا ۔۔۔ عدنان خان کاکڑ


جیسا کہ ہم جانتے ہیں (اور درسی کتاب ہذا کے باب چہارم میں پڑھ آئے ہیں) کہ عدنان خان کاکڑ صاحب ایک عظیم مدیر ہیں، ایک عظیم مصنف ہیں اور ایک عظیم شخصیت ہیں۔ (عظمت کی یہ ارزانی دیکھنا بھی ہمارے نصیب میں لکھا تھا)۔  دروغ بر گردن راوی، ایک محترم دوست جمال عبداللہ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ عدنان خان کاکڑ کی عظمت ہی کے طفیل دن رات آواز سنائی دیتی ہے کہ “ہم سب بانس پر چڑھ گئے۔۔۔ اور یہ کہ ہم سب بانس سے اتر آئے”۔

مخلص دوست حسنین جمال کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ یہ  کیسے ممکن ہے کہ عدنان خان کاکڑ اس قدر عظیم انسان ہوں اور اردو ادب کے اکابر میں سے کسی نے ان کے اس فانی دنیا میں ورود کی پیش گوئی نہ کی ہو، اس دنیا کی ہو بہو تصویر نہ کھینچی جہاں ہم سب کی آمد کے بعد تاریکی کا دور دورہ ہو۔ تلاش کرنے پر انہوں نے محمد خالد اختر کے ناول “چاکیواڑہ میں وصال” کا یہ ٹکڑا ڈھونڈ نکالا۔ حسنین جمال کا دعویٰ ہے کہ محمد خالد اختر نے اپنے عظیم ناول میں عدنان خان کاکڑ اور ان کے ساتھیوں کا نقشہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔

٭٭٭ ٭٭٭

شام کو میں قربان علی کٹار کی فلیٹ پر مڈل وے سٹریٹ میں گیا۔ وہ فلیٹ پر نہیں تھا جو اس جیسے شخص کے لیے خلاف معمول تھا۔ میں واپس وہاں سے الٹا پھرا اور کارپوریشن سٹریٹ پر پہنچ کر بیکری اور لی مارکیٹ کی طرف جانے کی بجائے دائیں طرف انناس کا شربت بیچنے والوں کے چوک کو ہو لیا۔ میں اس چوک کواس نام سے پکارتا ہوں، ورنہ اس کا اصل نام کچھ اور ہے۔ چاکی واڑہ کا سب سے زیادہ بے تکان انناس کا شربت بیچنے والا۔۔۔ شاید دنیا کا سب سے زیادہ بے تکان انناس کا شربت بیچنے والا۔۔۔ اس چوک میں اپنا مفرح شربت بیچتا ہے۔

پی لو یارو! ایک آنے کا گلاس ہے ۔

اور ایک آنے کا گلاس ہے

او پی لو یارو ۔۔

ایک بڑی اونچی، کچھ شکایت آمیز، کچھ دیوانہ کر دینے والی آواز میں وہ یہ ہانک لگاتا ہے۔ اس کی آواز ایک لمحہ کے لیے خاموش نہیں ہوتی۔ صبح سے شام تک وہ اسی طرح اس تنگ کرنے والی آواز میں چلاتا ہے۔ اگر اس کے شربت میں کچھ فرحت ہے (میں نے اسے کبھی نہیں پیا) تو یہ کرخت، اعصاب کے لیے تباہ کن آواز، اس میں سے وہ ساری فرحت اور مٹھاس لے لیتی ہے۔

پہلے پہل اس کے اس چوک میں رقیب تھے۔ دوسرے انناس کے شربت بیچنے والے، مگر وہ ملائم آواز، متحمل شخص تھے اور ان کے حلق اتنے مضبوط نہ تھے۔ اس نے ان سب کو ان سے کہیں اونچا اور متواتر چلا چلا کے ہرا دیا، اور وہ اس کی شدید آواز کی تاب نہ لاکر وہاں سے چلے گئے۔

اس مقصد کے لیے وہ اپنی مدد کو اپنے لڑکوں کی پلٹن بھی لے آیا اور وہ آدھ درجن چھوکرے جو سب سے چھوٹے سے لے کر سب سے بڑے تک اپنے فقید المثال باپ کے ہو بہو مثنیٰ تھے۔ اپنے باپ کی راہنمائی میں، اس اونچا چلا کر ہرا دینے والے کھیل میں ، شریک ہوئے۔ ان کا باپ چلاتا، “پی لو یارو ایک آنے گلاس ہے”، اور اس کے بعد باپ اور بیٹے مل کر کورس میں اپنے حلق کے پورے زور سے چلاتے، “پی لو یارو ایک آنے گلاس ہے”۔

رقیب اتنے زبردست محاذ کے مقابلے میں بے بس تھے اور وہ تاب نہ لا کر رخصت ہو گئے۔ یہ شخص اب اس چوک میں اکیلا ہے ۔ ایک فاتح نپولین جس نے اپنے دشمنوں کو مار بھگایا ہے۔ مگر اس فتح کے باوجود اس کے انداز میں آسودہ خاطری نہیں آئی، اپنے رقیبوں کے واپس لوٹ آنے کے امکان اور خطرہ کے پیش نظر وہ اپنی آواز کو اتنا ہی کرخت اور اونچا رکھے ہوئے ہے اور اس نے اس کو ایک ذرہ بھر نیچا نہیں کیا۔ اس کی پلٹن اسی طرح اس کی مدد کو موجود ہے اور ان کے لیے غالباً بڑے عرصے سے اس رٹ میں کوئی لطف نہیں رہا۔ ان کے لیے یہ ایک افسردہ لے بن کے رہ گئی ہے اوراگر ان میں سے کوئی اپنی پوری آواز سے نہ چیخے یا اس چیخنے میں بے دل ہو جائے تو ان کا باپ ایک تند گالی سے اس کو جھڑکتا ہے اور ایک دو ہتڑ بھی رسید کرتا ہے۔ وہ ایک ظالم باپ ہے۔

اس طرح یہ انتھک باپ بیٹوں کی ٹیم صبح سے رات تک چاکی واڑیوں کے کانوں میں ایک آنے کا گلاس ہے، کا اداس راگ ٹھونکتی رہتی ہے۔ اس شخص کے کردار میں بہت کچھ ہے جو ہنسنے کے لائق ہے، بہت کچھ ہے جو افسوس ناک ہے مگر کچھ ایسا بھی ہے جو قابل تعریف ہے، اپنے حلق کی نسوں کے بل پر اور اپنے ایک ہی جنون کی بدولت ۔۔۔ اپنا انناس بیچنے کا جنون۔۔۔ اس نے اپنے رقیبوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ اس کی فتح حلق کی فتح ہے۔ اور ایک جدید جمہوری سیاست دان کی فتح بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).