سیکولر ازم اور مذہبی استدلال


کیا ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہمارے یہاں دینی، سیاسی جماعتوں اور سیکولرعناصر کے مابین عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہماری سیاست اب بھی انہی دو دائروں میں گھوم رہی ہے۔

سیکولر عناصر ریاست میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہیں. ان کے نزدیک مذہب کی سیاست میں مداخلت نے بہت سے مسائل اور مشکلات کو جنم دیا ہے۔ مثلاً سیاست میں فیصلے حالات کے تناظر میں کیے جاتے ہیں۔ اس میں اختلاف رائے اور سمجھوتے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس کے برعکس مذہبی سیاست میں وہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر سے درست اور صحیح ہوں چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ اس میں کیونکہ قوانین کو خدائی حکم کا درجہ دے کر نافذ کیا جاتا ہے اس لیے اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ایسے حالات میں عوام الناس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جس سے معاشرے میں جمود پیدا ہوتا ہے۔

اس جمود کا فائدہ حکمران طبقے کو ہوتا ہے وہ ہر قسم کی عوامی تنقید سے محفوظ ہوجاتے ہیں اس طرح طاقتور لوگ مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں مذہبی حکومتیں قائم ہیں وہاں انتشار، بغاوت اور سیاسی عدم استحکام کی فضا دکھائی دیتی ہے۔

مذہب میں فرقوں کا وجود ایک ٹھوس حقیقت ہے ایک فرقہ جب اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے تو پھر لازمی طور پر دوسرے فرقے اس کے نزدیک گمراہ تصورکیے جاتے ہیں۔ سیاست میں مذہب کے عملی نفاذ کی صورت میں مختلف فرقوں کے درمیان باہمی کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ہر مسلک اور فرقہ اپنے تحفظ کے لیے تبلیغی ونگ کے ساتھ سیاسی اور عسکری ونگ بھی تشکیل دیتا ہے۔ نتیجے میں ان مسالک اور فرقوں میں بالادستی کی جنگ شروع ہوجاتی ہے ایک مسلک کی بالادستی دوسرے مسلک کے استحصال کا ذریعہ بن جاتی ہے جس سے معاشرہ اور ملک دونوں بد امنی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

مذہب کو سیاست کے ساتھ ملانے کا زیادہ تر فائدہ مذہبی طبقے بالخصوص علما کو ہوتا ہے وہ اس کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوجاتے ہیں، کیونکہ علما کو مذہبی سیاست میں ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں جس سے مذہبی طبقے کو فائدہ پہنچے، انھیں عام عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، سوچیے ایک عام آدمی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے یومیہ اجرت کے حصول کے عذاب میں مبتلا ہے اسے اس بات سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ مذہبی ریاست میں ایسے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں جو معاشرے کو پسماندہ بنادیتے ہیں۔

اسلامی قوانین کا عملی ذخیرہ جو فقہہ کی صورت میں موجود ہے صدیوں کے حالات کے تناظر میں مرتب کیا گیا ہے جو موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس کے نفاذ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ جدید مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا جو تصور موجود ہے اس میں کڑی شرائط ہیں جس کی وجہ سے جو تبدیلی آتی ہے وہ سطحی ہوتی ہے، سیاسی ماہرین کے نزدیک قدیم افکارکی بنیاد پر نئے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مشکلات پیش آتی ہیں۔

مذہب کی بنیاد دعوت پر ہے۔ تبلیغی ذہن اپنے مخاطب کے لیے محبت کے جذبات رکھتا ہے اور اس محبت کے دلی جذبات کے ساتھ اس کی اصلاح کا خواہش مند ہوتا ہے اس کے برعکس سیاست کی بنیاد ٹکراؤ پر ہوتی ہے سیاسی تعبیر سے متاثرہ ذہن اپنے مخاطب کو ضرب لگانے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے یہ عمل مخالفین میں رد عمل پیدا کرتا ہے جس سے مخالفین میں نفرت جنم لیتی ہے۔ یہ نفرت دعوت کے عمل کے لیے زہر قاتل ہے یہی وجہ ہے کہ (تبلیغی جماعتیں اسی بنیاد پر سیاست سے کنارہ کش نظر آتی ہیں) ایسے حالات میں سیکولر نظام ہی وہ واحد سیاسی نظام ہے جس کے ذریعے ریاست کے امورکو با آسانی چلایا جاسکتا ہے۔ سیکولر ازم نہ ہی مذہب کی طرح مقدس ہے اور نہ ہی کوئی کامل نظریہ در اصل یہ وقتی ضرورت اور ابدی تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کا دوسرا نام ہے۔

سیکولر نظام میں تمام مذاہب کو کسی امتیاز کے بغیر برابری کی بنیاد پر مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں اس میں کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس نظام کو لادینی قرار دینا اور یہ تاثر دینا کہ ایسی ریاست کے قیام سے لوگ مذہب اور عقائد سے لا تعلق ہوجاتے ہیں کسی طرح درست نہیںہے۔ یورپ، ترکی، ہندوستان میں یہ نظام عرصہ دراز سے رائج ہے ان قومی ریاستوں کے شہری بہ حیثیت مجموعی اپنے مذہبی عقیدے سے منحرف نہیں ہوئے یہ نظام مذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کے معاملے میں غیر جانب دار ہوتا ہے یعنی مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھتا ہے اور اسے فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے سیکولر ازم کو لادینی نظام قرار دینے کے بجائے اسے انسان دوست نظام سمجھنا چاہیے۔

جہاں تک مذہب کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی ہدایت کے لیے جو بھی پیغمبر دنیا میں بھیجے ہیں انھوں نے اقتدار کے حصول کے بجائے دعوت اور تبلیغ کا راستہ اختیار کیا اور اس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی۔

ہمارے پیارے آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مکہ میں آپ کو حکومت کی پیش کش بھی کی گئی مگر آپؐ نے اس کو قبول نہیں فرمایا اگر اصل مقصد اقتدار ہوتا تو آپؐ فوراً اس کو قبول فرماتے اور حکومتی زور پر اسلامی قوانین نافذ کردیتے لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ دعوت کا منشا اصلاح قلب ہے نہ کہ اصلاح سیاست، سیاست کی اصلاح بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسلام کا کوئی واضح سیاسی نظام اور ڈھانچہ فراہم نہیں کیا البتہ چند اصول وضع فرمائیں ہیں مذہب کی صورت میں انسان کے اندر خود احتسابی کا نظام وجود میں آتا ہے ایک شخص جو صحیح معنوں میں مذہبی اور دینی ہوگا وہ زندگی کے جس شعبے میں داخل ہوگا اس کا مذہب اس کے ساتھ رہے گا وہ سیاست میں ہوگا تو اس کی سیاست اصولی ہوگی اگر تاجر ہوگا تو اس کی تجارت دیانت دارانہ ہوگی۔

اگر جج ہوگا تو اس میں عدل ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جوابدہ نہ ریاست ہے اور نہ ہی معاشرہ نہ ادارے وہاں فرد اللہ تعالیٰ کے رو برو ہوگا اور اپنے اعمال کا جواب دے گا۔ اس لیے مذہب کے نزدیک فرد کی اصلاح دین کا اولین تقاضا ہے یہی دین کی اصل روح ہے جو دائمی طور پر دین کو مطلوب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).