لطف الاسلام صاحب کے جواب میں ۔۔۔۔


محترم جناب لطف الاسلام کی تحریر “مولوی خادم رضوی کی گندہ گوئی اور خطابت کی احراری روایت” نظر سے گزرا۔ گماں ہوتا ہے کہ یہ تحریر حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ میں لکھی گئی ہے۔ خادم رضوی کی کیا پالیسی ہے؟ وہ کس مقصد کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، اس سے ہزار اختلاف ہوسکتا ہے۔ ہمیں بھی ہے۔ لیکن خادم رضوی کا سید عطا اللہ شاہ بخاری اور آغا شورش کاشمیری جیسی شخصیات سے کیا موازنہ!

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری صرف خطیب ہی نہیں، بلکہ ایک مدبر، مفکر اور سیاستدان تھے۔ ان کی خوبیوں کے تو مخالف بھی معترف ہیں۔ وائس آف جرمنی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے بہترین شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ بر صغیر پاک و ہند میں صوفیانہ طرز عمل کے حوالے سے عطاء اللہ شاہ بخاری سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں۔ شاعر عوام حبیب جالب نے شاہ جی کی وفات پر کہا تھا کہ

ایک طرف توپوں کے دہانے، ایک طرف تقریر ٹوٹ گئی زنجیر

شاہ ! تجھے کہتی تھی دنیا، تو تھا ایک فقیر ٹوٹ گئی زنجیر

شاہ جی کی شخصیت میں اگر گندہ گوئی ہوتی تو سلمان تاثیر مرحوم کے والد ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اپنے ہاتھ شاہ جی کے قدموں پر نہ رکھتے، شاہ جی جب میاں والی جیل سے رہا ہوئے تو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر انہیں لینے گئے اور شاہ جی دروازے سے باہر آنے لگے تو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے اپنے ہاتھ رکھ دئیے کہ شاہ جی میرے ہاتھوں پر پاؤں رکھ کے باہر آئیں۔

امیر شریعت، محبت کا پیکر تھے۔ جب بیمار ہوئے تو نشتر اسپتال میں زیر علاج تھے۔ موسی سے مارکس تک کے مصنف سبط حسن تشریف لائے اور شاہ جی سے لپٹ گئے۔ رونے لگے۔ اور کہا شاہ جی اٹھو، چلیں، ابھی تو بہت سی تقریریں کرنا باقی ہیں۔ ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی بھی شاہ جی کی مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے۔

ایک بار عبدالحمید عدم شراب پی کر شاہ جی کی محفل میں آکر بیٹھ گئے۔ شاہ جی نے پوچھا، ہاں بھئی عدم، چائے پیو گے؟ عدم نے ہاں میں سر ہلایا، شاہ جی نے خود چائے بنا کر دی، عدم نے چائے ختم کی تو شاہ جی نے اسی پیالے میں چائے بنا کر خود پی، سب حیران تھے۔ جب عدم چلے گئے تو لوگوں نے کہا کہ شاہ جی، عدم شرابی ہے اور شراب پی کر آیا تھا، امیر شریعت کو غصہ آگیا، کہنے لگے، کیا تم نے اسے شراب پیتے دیکھاہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں البتہ شراب کی بو آرہی تھی اس سے۔ تو شاہ جی نے فرمایا کہ پھر بھی خاموش رہو۔ تم لوگوں کی تو عادت ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو عقاب کی نگاہ سے دیکھتے اور صبا کی رفتار سے پرکھتے ہو، کبھی کسی کی نیکیوں پر بھی نظر ڈال لیا کرو، اس سے تمہاری اپنی سیرتیں سنور جائیں گی۔

سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اللہ پاک نے خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھا، آپ نے ساری زندگی انگریز کے خلاف جدوجہد میں بسر کی۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آدھی زندگی ریل میں اور آدھی زندگی جیل میں گزار دی۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی جان تک کی پروا نہ کی اور ہندوستان کو انگریز سامراج سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی ۔

جس دوسرے شخص کا ذکر لطف الاسلام صاحب نے اپنی تحریر میں کیا، آج بہت یاد آرہی ہے، مجاہد احرار آغا شورش کاشمیری کی، جو زندہ ہوتے تونہ صرف آپ کی اس تحریر کا جواب دیتے، بلکہ آپ کے ذہنی شجرہ نسب اورنفسیاتی درماندگی کا بھی تعارف کرواتے۔ جن کے بارے میں شاہ جی نے کہا تھا کہ میں کوئی برگد کا درخت نہیں جس کے نیچے دوسرا پودا نہیں اگ سکتا ۔ شورش میری مراد ہے۔ جن کے بارے میں سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ چٹان اور اس کے ایڈیٹر کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، جرات مند صحافت پر شورش کو سلام پیش کرتا ہوں۔ لطف الاسلام صاحب ! شورش نے ہی کہا تھا کہ اگر احرار بکنے والے ہوتے تو خریدنے والے نسل در نسل بک بک کر ہمیں خریدتے۔

محترم جناب لطف الاسلام صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص گروہ کی روح کی تسکین چاہتے ہیں۔ اختلاف رائے کو قبول کرنا چاہیے لیکن اختلاف رائے کے نام پر جھوٹ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت مجلس احرار اسلام آج بھی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق اپنا کام کررہی ہے۔ آپ کم از کم یہی دیکھ لیں کہ عنوانِ مدّعا کی یکسانی کے باوجود احرار اس وقت مولانا خادم حسین رضوی کے ساتھ نہ دینے کے اصولی فیصلے پر قائم ہیں۔ احرار نہ مذہب کا استحصال کرتے ہیں اور نہ اپنے نظریاتی و اصولی موقف کو گندہ گوئی کی پستیوں میں اتارتے ہیں۔ آپ نے تحریکِ پاکستان کا ذکر کر کے اپنے استدلال کے افلاس کا ثبوت دیا، یہی بتا دیں کہ کلمۂ اسلام کو سیاسی استحصال کی بھینٹ چڑھانے کا کام کم از کم احرار نے نہیں کیا۔ احرار دشمنی میں جسٹس منیر جیسے بدنام زمانہ، رسوائے عالم انصاف فروش سے دلیل لانا، اللہ اللہ کیا بے دست و پائی ہے، ترس آتا ہے، ہمارے زمانے کے شاعر نے کہا تھا

اپنی صورت سے ہی بے رحم سا خوف آتا ہے

اپنے حالات کی تصویر ڈرا دیتی ہے

زندگی بوجھ اٹھائے ہوئے ارمانوں کا

یاس کے تپتے ہوئے صحرا میں چلی جاتی ہے

لطف الاسلام صاحب !نہ تو شاہ جی کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج ہے نہ ان کی جماعت۔ شاہ جی نے جو کیا اس کا صلہ اللہ کے ہاں ضرور ملے گا۔ اگر آپ اپنا قبلہ درست نہیں کرسکتے تو کم ازکم غیر جانبدار ضرور رہیے۔ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں، شاہ جی اور ان کی حریت پسند جماعت مجلس احرار کی سیاسی پالیسی سے اختلاف کریں لیکن اپنے دلائل کی کمزوری کو مولوی سے عمومی نفرت کے سہاروں سے مستحکم مت کریں۔ بات کریں گالی نہ دیں۔ فررت من المطر و قمت تحت المیزاب۔ (بارش سے بھاگے ہو اور پرنالے کے نیچے جا کھڑے ہوئے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).