مولوی غنڈہ کیوں بن رہے ہیں؟


غنڈے جب سیاستداں بننے لگیں تو جمہوریت کو فکرمند ہو جانا چاہئے، سیاستداں جب دلالی پر اتر آئیں تو عوام کو اپنی خیر منانی چاہئے اور جب مولوی غنڈہ گردی کرنے لگیں تو امت کو اپنے مستقبل پر غور کرنا چاہئے۔ کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ جب کسی سوراخ سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے تو اسے ایک انگلی سے دبا کر روکا جا سکتا ہے لیکن جب وہی آگے بڑھ کر دریا کی شکل لے لیتا ہے تو بڑے بڑے بند بھی اس کی ٹکر سے لرزتے ہیں۔ کوئی مذہبی رہنما جب مجمع لگا کر مخالفین کو گالیاں دے اور حامیوں کی بھیڑ سے مرنے مارنے کی قسمیں وعدے لے، اس وقت بھی اگر ریاست خبردار نہ ہو تو مان لینا چاہئے کہ یہ یا تو یہ شخص ریاست کا آلہ کار ہے یا ریاست اس کا آلہ کار بننے کی ٹھان چکی ہے۔ یہاں بات کسی زید، بکر، عمر یا مولوی خادم حسین کی نہیں ہے یہاں ایک سوچ سے مقابلہ درپیش ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ذمہ داران ریاست کے مفادات کی تکمیل کے لئے ریاست کو یرغمال بنا کر غازی کا درجہ پا لیتے ہیں، ان کے حامی انہیں ریاست سے ٹکرانے والا جرار مان کر ان کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوئے جاتے ہیں جبکہ اکثر یہ بزرگ ریاست کا حق نمک ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

برصغیر میں مولویوں کی ایک جماعت اپنے جارحانہ تیور دکھا کر قائد ملت بننے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ کولکاتہ کی مسجد کے ایک معزول امام کی ویڈیو یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے جس میں وہ لائیو ٹی وی ڈبیٹ کے درمیان ایک پینلسٹ کو باقائدہ گالیاں دے رہے ہیں۔ میڈیا نے کسی مسلم مذہبی رہنما کا یہ رنگ پہلی بار دیکھا تھا اس لئے ان کو بار بار ٹی وی مباحثوں میں بلایا جانے لگا جہاں وہ کتا، سور جیسے القابات سے یوں نواز دیتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ ان کے ملفوظات کو سن کر انہیں مسجد کی امامت سے ہٹا دیا گیا لیکن سوشل میڈیا پر انہیں پسند کرنے والوں کی بھیڑ اگ آئی۔ چاہے سرحد کے اس پار کی بات ہو یا اس طرف کی ہمارے یہاں یہ تمیز ختم ہو گئی ہے کہ منہ پھٹ، بدتمیز اور بے باک ہونے میں فرق ہے۔ کسی کو گالیاں دے دینا بے باکی نہیں بدتمیزی کہلاتی ہے لیکن امت کا ایک بڑا طبقہ جارحانہ تیور والے منہ پھٹ مولویوں کو بے باک اور نڈر بتا کر تعریف کرتے نہیں تھکتا۔

مولوی خادم حسین مجمع لگا کر جو کچھ کر رہے ہیں اسے بلوے کے لئے اکسانا کہا جاتا ہے اور اس کے اثرات بہت دور تک جا سکتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب اس بریلوی مسلک کو ریڈیکلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی تاریخ امن پسند رہی ہے۔ بریلوی اور خانقاہی افراد عموما مسلم شدت پسند گروہوں کا شکار رہے ہیں اب اسی مسلک کو دھیرے دھیرے جارحانہ مزاج کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ امر کسی اور کے لئے نہیں بلکہ صوفی اور بریلوی علماء کے سب سے بڑی فکرمندی کا سبب ہونا چاہئے۔ اسی کوشش کی ایک جھلک ممتاز قادری کے جنازے میں امڈی لاکھوں کی بھیڑ میں بھی نظر آتی ہے۔

فکر مندی کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں حالات اتنے حساس بنا دیئے گئے ہیں کہ آپ کوئی بات کہنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ مثلا ممتاز قادری کے بارے میں کسی پاکستانی صحافی کو دو صفحہ کا مضمون لکھنا جتنا دشوار کام ہو سکتا ہے اس کی مثال کسی اور بات سے نہیں دی جا سکتی۔ آپ ہر ہر لفظ پر غور کرتے ہیں کہ کہیں اس کا کوئی غلط مطلب نہ نکال لے، کہیں کوئی ہمیں بھی توہین مذہب کا مجرم نہ ٹھہرا دے۔ کہیں کوئی ہمیں بھی سڑک چلتے ٹھوک کر داخل ثواب ہونے کی کوشش نہ کر لے۔ یہ سب باتیں آپ کو اس وقت سوچنی پڑتی ہیں جبکہ آپ کا دل اسلام سے لبالب ہے لیکن جب کسی پر عقیدت کا بھوت سوار ہوتا ہے تو کسی مشال خان کی بات کہاں سنی جاتی ہے؟۔ حالات کو ایسے حساس درجہ تک پہچا دینے اور ڈر کا ماحول پیدا ہونے سے اسلام کی شبیہ پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کی پرواہ کسی جرار و کرار کو نہیں ہے۔

کچھ مولویوں کے جارحانہ انداز اور دبنگ لیڈر بننے کی کوشش سے نقصان کئی سطحوں پر ہو رہا ہے۔ اس سے جارحیت کو فروغ مل رہا ہے، خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، اندھی عقیدت فروغ پا رہی ہے اور ریاست میں بظاہر غیر ریاستی عناصر، ریاست سے کہیں اونچے مقام پر بیٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس قسم کے مولوی حضرات کا طریقہ کار تقریبا ایک جیسا ہے۔ سب سے پہلے اپنے حامیوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں تمہارے مذہب کے خلاف میدان میں اتر آئی ہیں، پھر ان کو بتایا جاتا ہے کہ مذہب اور اس کے مقدسات خطرے میں ہیں، پھر انہیں مذہب کے دفاع کی خاطر تن من دھن لٹانے کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے اور اخیر میں انہیں تاثر دیا جاتا ہے کہ اس وقت بس میں ہی نجات دہندہ ہوں جو مذہب اور ملت کی حفاظت کر سکتا ہوں اس لئے تم سب پر لازم ہے کہ آنکھ بند کرکے میرے پیچھے چلے آو۔

میرے خیال میں اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی قیادت کو اعتدال اور عقل کی چھلنی میں چھان لیا جائے۔ ہر کس و ناکس کو اپنے علانیہ اور درپردہ مفادات و مقاصد کے لئے اٹھ کھڑے ہونے دینے اور جذبات و جارحیت کی آڑ میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لینے سے سب سے زیادہ نقصان امت کا ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں ایک منظم کوشش کے تحت ان علماء کو کھڈے کر دیا گیا جو اعتدال اور عقل کی بات کرتے ہیں۔ سرحد کے اس پار جاوید احمد غامدی اور اس طرف مولانا وحید الدین خان جیسے اسلامی مفکرین کو جس طرح حاشیہ پر دھکیلا جا رہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جارحانہ زبان درازوں کے لئے میدان صاف کیا جا رہا ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter