فیض آباد میں جاری دھرنا ختم کرانے کے لیے ممکنہ کارروائی مؤخر
پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے فیض آباد میں جاری مذہبی جماعتوں کا دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ کارروائی کو 24 گھنٹوں کے لیے موخر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پولیس اور ایف سی سمیت سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری فیض آباد اور اس کے گرد کے علاقوں میں موجود ہیں۔
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق وزیرِ داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عمل کرنا قانونی تقاضا ہے۔
دھرنا: مذہبی جماعتوں کا عدالتی حکم ماننے سے انکار
انھوں نے مذہبی رہنماؤں اور مشائح سے معاملے کو ختم کرنے کے لیے مدد کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو تکلیف اور خونریزی سے بچانا چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا ’ختم نبوت کا قانون پارلیمان سے منظور کیا جا چکا ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور اس کی منظوری کے بعد دھرنا بلا جواز ہے۔ ‘
اطلاعات ہیں کہ ممکنہ آپریشن کے لیے فیض آباد سے راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والی سڑکوں کو کنٹینرز رکھ کر بلاک کر دیا گیا ہے۔
پولیس اہلکاروں کے پاس آنسو گیس کے شیل بھی موجود ہیں اور امکان یہی ہے کہ انہیں اسی کی مدد سے منتشتر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پرامن طور پر منتشر ہونے کا حکم
جمعے کی رات بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا تھا کہ پارلیمان نے قانون میں ختمِ نبوت کی شقوں کو اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم سب کا ختمِ نبوت پر ایمان ہے اور پاکستان کی عوام کی نبی سے محبت بہت زیادہ ہے۔‘
احسن اقبال نے زور دے کر کہا تھا کہ کہ مذہبی جماعتوں کا احتجاج ریکارڈ ہو گیا ہے اور دین کے معاملے پر کسی کو تشدد پر اکسانا مناسب نہیں ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے دھرنے کے شرکا کو پیار اور دھونس سے حکومتی موقف سمجھانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ ’شرکا سے آخری بار اپیل کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہو اور مذاکرت کرنا چاہتے ہیں تو ہم سے مذاکرات کریں لیکن راستوں کو کھولیں۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ عوام کے صبر کا امتحان نہ لیں اور ہائی کورٹ کا حکم مانتے ہوئے دھرنے ختم کریں۔
دھرنا ختم کرانے کا عدالتی حکم
یاد رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے گذشتہ دس روز سے جاری دھرنے کو اگلے 24 گھنٹوں میں ہر حال میں ختم کروانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ تھا کہ پہلے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور اگر اس میں کامیابی نہیں ملتی تو پھر طاقت کا استعمال کیا جائے۔
عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ اس ضمن میں فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف فیض آباد کے مقام پر دھرنا دینے والی جماعتوں نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کسی بھی اقدام کے نتیجے میں مظاہرین کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
فیض آباد دھرنا: ’مظاہرین کو راستہ چھوڑنا ہوگا‘
لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد انتخابی اصلاحاتی بل کے مسودے میں ارکان پارلیمان کے لیے حلف میں ختم نبوت سے متعلق مبینہ طور پر ہونے والے ردو بدل کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمد مشتاق نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے محکمے سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی تعداد 1800 سے 2000 تک ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مظاہرین نے اپنے پاس پتھر اکھٹے کیے ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے متعدد افراد کے پاس اسلحہ بھی موجود ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).