ابھی رکاوٹیں ختم نہیں ہوئیں


اس ہفتے ہونے والے دو اہم فیصلوں نے آنے والے انتخابات کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیوں کو کسی حد تک کم کر دیا ہے۔ اس میں سب سے اہم فیصلہ کونسل آف کامن انٹرسٹ کے اجلاس میں کیا گیا، چاروں صوبوں اور وفاق کی نمائندگی رکھنے والی سی سی آئی نے حالیہ دنوں میں ہونے والی مردم شماری کے عارضی نتائج کی بنیاد پر نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنے کی منظوری دے دی۔ آئندہ سال میں ہونے والے انتخابات کی قسمت اس فیصلے سے بڑی حد تک جڑی ہوئی تھی۔ اگر اس فورم پر مردم شماری کے نتائج کے بارے میںکوئی فیصلہ نہ ہوپاتا تو اگلے سال اگست میں ہونے والے انتخابات کے موخر ہونے کا خدشہ بہرحال موجودتھا۔ نئی مردم شماری کے حوالے سے سندھ کو بہت سے تحفظات تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بارہا اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی کراچی کی آبادی کم دکھائے جانے کی شکایت کرتی نظر آرہی تھی۔ سی سی آئی کے اجلاس سے قبل ایسا لگتا تھا کہ شاید چاروں صوبے اس مردم شماری کے معاملے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں گے لیکن سیاستدانوں نے غیر معمولی طور پر عقلمندی سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کو احسن طریقے سے حل کر لیا۔اگرچہ جمعرات کے روز پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر ایم کیو ایم نے عجیب رویے کا اظہار کیا ، سی سی آئی کے اجلاس میں ایک فیصد مردم شماری کی چیکنگ کے لئے تیار ہو گئی مگر ووٹنگ سے پہلے 10 فیصد بلاکس کی چیکنگ کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور فوری طور پر وزیر اعظم کو چیمبر میں طلب کیا گیا اور بری مشکل سے آخری لمحے ایم کیو ایم کو 5 فیصد پر رضا مند کیا گیا۔ اب یہ مسئلہ سی سی آئی کے پاس دوبارہ منظوری کے لئے جائے گا۔

دوسرا اہم فیصلہ قومی اسمبلی نے کیا جہاں نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے حق میں دو سو بیالیس اراکین اسمبلی نے ووٹ دیا، جمشید دستی وہ واحد رکن تھے جنہوں نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔بل میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نو نشستیںکم کر دی گئی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں بڑھا دی گئی ہیں، اسی طرح بلوچستان کو بھی قومی اسمبلی کی تین اضافی نشستیں دے دی گئی ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے لئے بھی ایک قومی اسمبلی کی نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کی روشنی میں اب الیکشن کمیشن آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاری کے عمل کا آغاز کرے گا۔

جمعرات کے روز پارلیمنٹ میں عجیب قسم کی افراتفری دیکھنے میں آئی ۔ حکومتی جماعت کی خواہش تھی کہ چوبیسواں آئینی ترمیمی بل جلد از جلد منظور ہو جائے مگر اس کے 188 میں سے 62 اراکین اسمبلی غیر حاضر تھے۔ اب ایک سو چھبیس ووٹوں کے ساتھ تو دو تہائی اکثریت نہیں بنتی کیونکہ اس کے لئے 228 ووٹوں کا ہونا ضروری ہے۔ بل بھی پاس کروانا ضروری تھا تاکہ ملک میں ہونے والی ان چہ مگوئیوں کا خاتمہ ہو سکے جن میں اس بات کے امکانات تھے کہ اگر حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظور نہ ہوا تو انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سال دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کئی لحاظ سے منفرد ہوں گے۔ عموماََ الیکشن سے چند ماہ پہلے ہی سیاسی جماعتیں جلسے جلوسوں جیسی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتی ہیں لیکن اس بار تو شاید انتخابی مہم کا آغاز دو ہزار تیرہ سے ہی ہو گیا تھا۔ پچھلے انتخابات میںخاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پانے کے بعد سے لے کر آج تک اپوزیشن کی سب سے مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں کی مدد سے اپنے ورکر زکے ساتھ رابطے میں ہے۔ تقریباََ پانچ سال سے جاری اس ایکسرسائز سے پی ٹی آئی نے نہ صرف حکومتی جماعت مسلم لیگ ن پر پریشر قائم کیا ہوا ہے بلکہ اپنے حامیوں کو باہر نکالنے کی بھی کافی ماہر ہو چکی ہے۔ آنے والے انتخابات میں اس تمام تجربے سے پی ٹی آئی کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف اس کو اس پانچ سالہ ہلے گلے کا ایک نقصان بھی ہو سکتا ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ انتخابات کے آنے تک پی ٹی آئی کے ورکرزتھکاوٹ کا شکار ہو جائیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات کے لئے کوشاں ہے۔

ایک اور منفرد بات یہ بھی ہو گی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت کرنے والے نواز شریف ، وزرات عظمی کے امیدوار نہیں ہوں گے ۔ اگرچہ اس وقت بھی ان کی سیاسی جماعت کی حکومت ہے لیکن تاحال ان کی جماعت کی جانب سے یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکا کے آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت عمران خان کے مقابلے میں کس کو وزرات عظمیٰ کا امیدوار بناتی ہے۔ کیا شاہد خاقان عباسی ہی آئندہ انتخاب کے بعد وزارت عظمٰی کے امیدوار ہوں گے یا پھر پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو اس عہدے کے لئے نامزد کیا جائے گا؟ ان تمام سوالات کے جواب دیئے بغیر جب مسلم لیگ ن انتخابی میدان میں اترے گی تو کیا اس کے ووٹرز اس کا ساتھ دیں گے؟ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں نواز شریف کو صرف نا اہل ہی نہیں کیاتھابلکہ ان کے خلاف نیب کو کارروائی کرنے کی ہدایت بھی دی تھی اور اب تو احتساب عدالت کے تین مقدمات میں ان پر فرد جرم بھی عائد کر دی گئی ہے۔ اگر احتساب عدالت سپریم کورٹ کی دی ہوئی ڈیڈ لائین کے اندر رہتے ہوئے نواز شریف کے خلاف مقدمات کو چھ ماہ میں نمٹا دیتی ہے تو پھر فیصلہ مارچ یا اپریل تک آجائے گا۔ اگر عدالت نواز شریف کو مجرم قرار دے کر جیل جانے کی سزا سنا دیتی ہے تو پھر مسلم لیگ ن کے پاس کیا آپشن بچے گا؟

دوسری طرف اپوزیشن والے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ سینیٹ سے جو بل نااہل شخص کے جماعت کا سربراہ نہ بننے کے حوالے سے منظور کیا گیاہے وہ اب اسے 21 نومبر بروز منگل پرائیویٹ ممبر ڈے پر پیش کریں۔ کیونکہ انہیں امید ہے کہ مسلم لیگ ن کے 60 اراکین اسمبلی ان کا ساتھ دیں گے۔ 62 اراکین آئینی ترمیم کے وقت غیر حاضر تھے حالانکہ انہیں لانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی، اپوزیشن کا خیال ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ یہاں رانا ثنا اللہ اور کیپٹن صفدر کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ نامعلوم ٹیلی فون کال کے ذریعے مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ ان حالات میں کیا مسلم لیگ ن اگست میں متوقع انتخابات میں نواز شریف کی غیر موجودگی میں جائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو کیا ووٹر ان کے ساتھ کھڑا رہے گا یا پھر کسی اور پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے دے گا؟

ان میں سے بہت سے سوالات کا جواب ہمیں آنے والے دنوں میں مل پائے گا لیکن دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں عوام کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad