خود اپنی قبر کھودتی ہوئی بلوچ مسلح تحریک


ہم سکول میں تھے جب لڑکیوں والے واقعے کا سنا۔ شرمندہ شرمندہ افغان ہم جماعت نے بتایا تھا۔ یتیم افغان لڑکیاں خلیج میں عرب شیخوں کو بھجوا دی گئی تھیں۔ پھر بہت وقت بعد کارخانو مارکیٹ میں اک فقیرنی نما نے نامردی کا طعنہ دیا تھا۔ ہم بچے ہی تھے ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے تھے۔ جب اس نے کہا کہ تم سے تو فلاں کمانڈر اچھا جو پیسوں کے ساتھ ایک ٹی وی بھی تحفہ دیتا ہے۔ یہ کون تھے ان کے نام سے آج ذرا فرق نہیں پڑتا۔ آج کے افغانستان میں ان کا کوئی کردار باقی نہیں۔ ان کی تنظیمیں برباد ہوئیں وہ خود مٹی ہوئے۔

اٖفغان جہاد کے لیے پشاور پہنچے ہوئے عربوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے اکثر حق سمجھ کر ہی اس تحریک کا حصہ بننے آئے تھے۔ ایک طالبان کمانڈر پر دوسرے گروپ نے ناکام خود کش حملہ کیا تھا۔ ہم جب کوریج کے لیے پہنچے تو وہ آرام سے کھڑا اپنی داڑھی میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔ لوگ اس سے احوال لے رہے تھے۔ میری نظریں اس ازبک خود کش سے ہٹتی ہی نہیں تھیں۔ جو خدا معلوم کہاں سے چل کر آیا تھا یہاں آ کر پھٹ گیا تھا۔ جان دے گیا تھا وہیں پڑا تھا کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔

بدقسمتی ہے کہ باربار عسکری تحریکوں کو زور پکڑتے دیکھا ہے۔ پہلے خوف پھیلاتی ہیں پھر اک بے بسی، اک انتشار، اک اضطراب کا نشان بن کے رہ جاتی ہیں۔ مایوس قائدین جو خود بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے ساتھی بھی۔ یہ مرنے مارنے کو نکلے ہوئے لوگ، جب کہیں انہیں ذرا کریدیں تو سیدھا پیار کہانیاں سنائیں گے، سیکس کی باتیں کریں گے۔ لوگوں کے لیے دہشت بنے رہنے والے خود ذرا سی آواز پر راتوں کو اپنی پناہ گاہوں میں ڈرون ڈرون ریڈ ریڈ کی چیخیں مارتے اٹھتے ہیں۔

کوئی بھی تحریک لوگوں کے نام پر ہی اٹھائی جاتی ہے۔ پھر اس میں لوگ مرتے ہیں۔ مرنے مارنے والے وہ بھی ہوتے جو پہلے ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں اور جو پھنس جاتے ہیں دونوں میں ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی پہلا ردعمل بھی دیتے ہیں اس مارا ماری سے نفرت کا پہلا اظہار بھی پھر یہی کرتے ہیں۔

ہم نے اپنے پڑوس میں ایک بہت مضبوط مسلح تحریک کشمیر میں دیکھی۔ یہ اتنی طاقتور تحریک تھی کہ ایک وقت میں بھارتی حکومت بھی اپنی شکست سامنے دیکھ رہے تھے۔ بھارتی فوج کو ایک ہفتے کے نوٹس پر کشمیر خالی کر دینے کی مشقیں کر لینے کو کہا گیا تھا۔ اہم بھارتی قائدین کشمیری عسکری قیادت سے ایک کچے دھاگے سے بندھا تعلق باقی رکھنے کی درخواستیں کرنے لگ گئے تھے۔ پھر یہ مضبوط عسکری تحریک رفتہ رفتہ دم توڑنے لگی۔ گیارہ ستمبر کے بعد دنیا ہی بدل گئی۔

بلوچستان میں ایک مستقل بے چینی قیام پاکستان سے مسلسل ہے۔ اس کو بھڑکا کر آگ میں تبدیل مشرف حکومت نے کیا۔ بلوچستان کی سب سے شدید مسلح تحریک مشرف کے اقدامات اور حماقتوں سے ہی شروع ہوئی۔ ادھر اک بے موقع سا واقعہ یاد آ گیا۔ ڈگری ڈگری ہوتی ہے قسم قسم کے بیانات سے مشہور ہوئے بلوچ نواب کی ایک بار راہ جاتے ملاقات ایک کشمیری لیڈر سے ہو گئی۔ اس کشمیری لیڈر سے بلوچ نواب نے حال احوال کیا اور رخصت ہوتے وقت گلے لگا کر کہا کہ کشمیر اور بلوچستان اکٹھے آزاد ہوں گے۔ سوچتے رہیں۔ بلوچ نواب کی ستم ظریفی کو ہی نہیں اس کے طنز کی کاٹ کو بھی داد دیں۔

جاری بلوچ مسلح تحریک کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کی قیادت نوابزادے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اپنے قبیلے میں حمایت رکھتے ہیں۔ اپنے ہی علاقے میں درد سر بنے رہے۔ خود باہر آرام سے رہتے ہیں یہاں اپنے حواریوں کو آگ میں جھونک رکھا تھا۔ اس عسکری جدوجہد کا زور سال دو سے ٹوٹ رہا ہے۔ اب کافی کم ہو گیا ہے۔ ایک اہم اور سیاست سے لاتعلق ہوئے سردار نے سردارزادوں کی اس مسلح تحریک کی اندر کھاتے شدید مذمت کی، ان کی مزاحمت اور رائے نے بھی کافی اہم کردار ادا کیا۔

دوسری قسم کے بلوچ جنگجو وہ ہیں جو ڈاکٹر اللہ نذر کی قیادت میں سرگرم ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی تحریک میں عام آدمی شامل ہوا تھا۔ ان کے لیے پاکستان بھر میں ایک سافٹ کارنر موجود ہے۔ حال ہی میں ان کے خاندان کی خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا گیا تو اس پر شدید ردعمل آیا۔ پورے ملک کے ہر مکتب فکر سے احتجاج ہونے کے بعد ان کے خاندان کو رہا کر دیا گیا۔

ڈاکٹر اللہ نذر کی تنظیم کا جس علاقے میں زور ہے وہیں پردیس جانے والے مسافروں کو مارا گیا۔ اس سے پہلے سندھی مزدوروں کو مارا گیا تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی تنظیم مقامی آبادی میں اپنی اپیل کھو رہی ہے۔ ان کی ایسی عسکری کارروائیوں کی مذمت تو کی ہی جاتی ہے لیکن ان کے خلاف اب مزاحمت بھی ہو رہی ہے۔ بہت توانا آوازیں سوشل میڈیا پر اب بلوچستان سے ان کی مذمت میں اٹھ رہی ہیں۔

مسلح تحریکوں کا زمانہ چلا گیا۔ باقی شدت پسند عسکری تحریکوں کی طرح اللہ نذر کی مسلح تحریک بھی مر رہی ہے اور اپنی قبر بھی خود ہی کھود رہی ہے۔

باقی سب کی طرح ان سے بھی پرانی اور عام سی غلطی ہی ہوئی ہے۔ لوگ اپنا حق ضرور چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے جیسوں پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ بھلے وقتی اشتعال میں خود کبھی کسی مخالف سے زیادتی کا حصہ بھی رہے ہوں۔ ہم اول آخر انسان ہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب انسانوں کو انسان مارنے لگ جائیں تو مارنے والے خود اپنی قبر ہی کھود رہے ہوتے ہیں

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi