علاؤالدین خلجی کی پریم کہانی!


ہم نے جب تاریخ پڑھی تو ایک خشک مضمون تھا جس میں بہت سے بادشاہ دوسرے بادشاہوں کی جان کے بیری ہوئے، تیر تفنگ لیے دیوانہ وار دشت وصحرا میں بھٹکتے نظر آتے تھے۔ خاصی غیر رومانوی زندگیاں نظر آ تی تھیں۔ گھوڑوں، بیلوں کی لیدوں اور سان سے اڑتی چنگاریوں کے سائے میں یہ جینا بھی کیا جینا؟

پھر ادب میں جب ان ہی بادشاہوں پہ نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ ارے، ان پہاڑوں کے اندر بھی محبت کا لاوا جوش مارتا تھا نیز یہ خاصے رنگین مزاج بھی واقع ہوئے تھے۔

مزید آ گے بڑھے تو بادشاہوں کے دیگر ‘مشاغل’ بھی کھل کر سامنے آ ئے۔ پھر ایک دور ایسا آ یا کہ مخصوص ادیبوں نے بادشاہوں کو عظمت کے غلافوں میں لپیٹنا شروع کیا۔

ابھی دو چار بل ہی دیے تھے کہ ردِ عمل شروع ہوا اور ایسا ہوا کہ عظمت کا غلاف اتارتے اتارتے بے چاروں کے کپڑے بھی اتار لیے ۔اب صورتِ حال یہ تھی کے بچے کیا بڑے کیا، سب کہتے تھے کہ بادشاہ ننگا۔

خیر، بادشاہوں کے ساتھ تو بادشاہوں نے وہ سلوک کیے کہ ضرب المثل ہو گئے مگر ہمیں تو آ ج بے طور ہنسی، سنجے لیلا بھنسالی کی درگت پہ آ رہی ہے۔

تاریخی فلم یا ڈرامہ بنانا وہ نشہ ہے جو جس کے منہ کو لگ جائے چھوٹے نہیں چھوٹتا۔

تاریخ کا یہ ہے کہ ہر ایک کی اپنی اپنی کتا ب ہے۔ چنگیز خان، جہاں ظالم ہے وہاں انسانیت کامحسن بھی ہے۔ اتنے بہت سے انسان نہ مارتا تو جانے آ ج دنیا کی آ بادی کس قدر ہوتی۔ لیکن ذرا کہیئے تو یہ بات، چند لمحوں میں وہ حال ہو گا جو برسات میں سر منڈوا کے بجلی کے بلب کے نیچے بیٹھنے سے ہوتا ہے۔

سنجے لیلا بھنسالی نے محمد جائسی کی کتاب ‘پدما وت’ اٹھائی اور اپنی حجامت کا انتظام کرا لیا۔ بھئی یہ شاعر ادیب، ان کا تو کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ ایسی ایسی کہتے ہیں، ایسی ایسی ہانکتے ہیں کہ بس۔

روایت ہے کہ کسی نے جھنگ کے کسی رہائشی سے ہیر وارث شاہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بزرگ بڑی حلیمی سے گویا ہوئے کہ قبلہ ہماری لڑکی کا قصور اتنا نہیں تھا جتنا وارث شاہ نے اس کو بد نام کر دیا۔

یہاں بھی یہ ہی ہو ا۔ تاریخی حقائق کے مطابق سلطان علاؤالدین خلجی کے زمانے میں کوئی پدما وتی نہ تھی بلکہ کسی زمانے میں بھی نہ تھی۔ محمد جائسی کے خیالوں میں ہی تھا جو بھی تھا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چتوڑ کی رانی واقعی بہت حسین تھی اور علاؤالدین خلجی نے حملہ اس ہی کو پانے کے لیے کیا تھا۔

عقل یہ بات گوارا نہیں کرتی۔ حسین عورت کے پیچھے ریاستوں پہ حملہ کرنے والے اتنی بڑی سلطنتیں نہیں سنبھالتے۔ انسان یا تو عشق کر سکتا ہے یا بادشاہت۔

جائسی نے جب یہ کہانی نظم کی ہو گی تو انھیں کیا معلوم ہو گا کی ایک دن اس پہ فلم بھی بننی ہے ورنہ ذرا کچھ سوچ لیتے۔ جو دل میں سمایا لکھ گئے۔ پیچھے جوتے کھانے اور چوٹی نچوانے کو رہ گئے سنجے لیلا بھنسالی اور دیپیکا پادوکون۔

فلم پہ بڑا اعتراض تو یہ ہی ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ ایک ہندنی پہ عاشق کیوں ہوا کم بخت۔ چلو عاشق ہوا تھا تو ہو جاتا اس کے بارے میں الٹے سیدھے خواب کیوں دیکھتا تھا؟ اس بات پہ کرنی سینا والے اتنے برا فروختہ ہوئے کہ اسی سال جنوری میں فلم کے سیٹ پہ توڑ پھوڑ کی، دھمکیاں دیں اور اب ایسا ہے کی فلم کی نمائش کھنڈت میں پڑ گئی ہے۔

اتنی بات تو ہم بھی مان لیتے ہیں کہ اسے تاریخی فلم نہ کہا جائے، فکشن کا ایک کام سمجھا جائے۔ فکشن میں 200 سال چھوڑیے، ہزار سال کی چھلانگ بھی لگائے جا سکتی ہے۔ یہ اعتراض تو معقول ہے لیکن مسلمان بادشاہ کے مبینہ خوابوں پہ اتنا کف اڑانا اور اس قدر مغلوب الغضب ہونا کچھ سمجھ نہیں آ تا۔

خوابوں پہ کس کا زور چلا ہے ؟ ویسے ہماری معلومات کے مطابق تو سلطان کے خوابوں میں مانک پورہ سے اٹھ کر دلی پہ قابض ہونے کے ارادے ہی مچلتے تھے۔ کوئی حسینہ کہاں اس سارے منظر نامے میں آ تی۔

دوسری بات یہ ہے کہ بادشاہ کو ایسے دکھی، محروم شاعروں کی طرح خواب دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ لازمی اپنا فارغ وقت کسی اچھے کام میں گزارتا ہو گا۔ یہ کالج کے لونڈوں والی حرکتیں کیوں کرتا ہو گا؟

چلیئے پھر بھی اگر غریب نے کوئی خواب دیکھ ہی لیا تھا تو ایک خواب پہ اتنی آ فت ؟ معاملہ کچھ اور ہے۔ فلم، ناول، ڈرامہ، افسانہ، ان سب کو اس قدر سنجیدہ کب لیا جاتا ہے ؟

فلم ’رضیہ سلطان‘ میں جو کچھ دکھا یا گیا حقیقت میں شاید ایسا کچھ بھی نہ تھا، ’مغلِ اعظم’میں جو کہانی کہی گئی اس کی صحت بھی مشکوک ہی ہے لیکن ان فلموں پہ اس قسم کے بھونڈے اعتراض نہ اٹھے۔ حالانکہ مجھے ذاتی طور پہ ‘رضیہ سلطان’ میں دھرمیندر کا ہر دو طرح سے منہ کالا کرنے پہ شدید اعتراض ہے لیکن دل کی دل ہی میں رکھی۔ بھلا فلموں پہ بھی اس قسم کے نامعقول اعتراض کیے جا سکتے ہیں؟

اب ایسا ہے کہ اس فلم کا جو بھی انجام ہوتا ہے وہ ہمیں یہ بتائے گا کہ انڈیا میں فلم انڈسٹری تو 100سال کی ہو گئی لیکن کیا فلم بین بھی 100سال کا ہو ا یا اب بھی وہ 15 سال کاجذباتی جوان ہے جو اپنی ہم مذہب عورت کو غیر مذہب کے آ دمی کے ساتھ دیکھ کر قتل کرنے کو دوڑتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو فلم کو 100 سال نہیں ہوئے تعصب اور تنگ نظری کو ضرور سال ہو گئے ہیں۔

راجپوت یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی غیرت کی پگڑی ایک خیالی رانی کے سر پہ نہیں ان کے اپنے سروں پہ رکھی ہے اسے کس کے تھام لیں کہیں اس ساری مارا ماری میں یہ سچ مچ گر ہی نہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp