بابا مسئلے کا حل نہیں جانتا!


ناصر کاظمی کے پاس انٹرنیٹ ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ کیا وہ تمام رات اس طرح بے فکری سے گھوم سکتے؟ کیا وہ گھنٹوں بغیر سٹیٹس چیک کیے ٹی ہاؤس میں بیٹھتے؟ کیا وہ اپنی غزلیں اصل والے مشاعروں میں سنا پاتے؟ جو قصے کہانیاں وہ اپنے دوستوں کو سناتے تھے، کیا وہ سب وال پوسٹ کی شکل میں آیا کرتیں؟ کیا وہ اپنے کبوتروں کے لیے وقت نکال سکتے؟ کیا وہ پہروں انتظار حسین، شیخ صلاح الدین، زاہد ڈار، عقیل روبی اور صفدر میر سے گپیں لڑا سکتے؟ کیا تب بھی انہیں شکایت ہوتی کہ لاہور میں ٹریفک بڑھ گئی ہے اور وہ پیدل چلتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں؟ کیا ان کی تنہائیاں ویسی ہی حسین، پُروقار، ان حد اور بے پایاں ہوتیں؟ کیا وہ اتنے ہی سکون سے میر تقی میر کو پڑھ سکتے؟
مصروفیت کے اس دور میں ہم سب ویہلے مصروف ہیں۔ ایک موبائل اور ایک گھڑی نکال دی جائے تو کیا بچتا ہے؟ بلکہ کیا بجتا ہے‘ اس کی بھی فکر نہیں ہو گی۔ نوکری جب شروع کی تھی‘ اس وقت موبائل فون ایسے کامن نہیں ہوئے تھے۔ بس صبح دفتر ایک مخصوص وقت پر جانا ہوتا تھا، آدھا گھنٹا انتظار ہوتا کہ باس فون کریں گے، کر لیتے تو ٹھیک‘ نہیں تو آدھے گھنٹے بعد فیلڈ چالو ہو جاتی تھی۔ جس نے کام کرنا ہے کرے، نہیں کرنا تو فرلو مارے۔ سرپرائز چیک قسمت میں ہوا تو اس کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جو سال میں ایک مرتبہ کام چوری کرے گا۔ قسمت خراب ہو تو اونٹ پہ بیٹھے سوار کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ تو مختصراً یہ کہ اس کے بعد سارا دن گھنٹی کوئی نہیں بجتی تھی۔ فون تھا، ایک لمبے سے اینٹینے والا موبائل تھا، لیکن وہ عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔ نمبر بھی وہیں دیا جاتا‘ جہاں بات کرنے کو لیا ہوتا۔ دفتر والوں کو ایسی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی تھی۔ وہ دن جلدی لپٹ گئے۔ پہلے موبائل میں کیمرہ آیا، پھر انٹرنیٹ آیا، پھر ساری زندگی میں ایسا گھسا جیسے بٹیر باز کی جان ایک بٹیرے کی صورت اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ چوبیس گھنٹے اس کو چگاتا رہتا ہے۔

اس وقت پہ رشک آتا ہے، ان لوگوں پہ پیار آتا ہے، ان کی مصروفیات پر آفرین ہے، ان کی زندگی کیسی بھرپور تھی۔ احمد عقیل روبی دو بجے رات ایک مشاعرے سے واپس آئے تو کمرے کے باہر چائے والے نے بتایا کہ ایک مہمان آپ کا بہت دیر سے انتظار کر رہا ہے۔ وہ اندر گئے تو دیکھا‘ ناصر کاظمی بیٹھے ہیں۔ ناصر صاحب کوئٹہ گئے تھے، کوئی مشاعرہ پڑھا اور وہاں سے بجائے لاہور جانے کے سیدھے ملتان آ گئے۔ سردیوں کی رات ہے، گرج چمک والی بارش ہے، عقیل ابھی پہنچے ہیں، دو کا عمل ہے، ناصر کاظمی مہمان ہیں، مہمان کی فرمائش ہے کہ اسی وقت فلاں صاحب کو حاضر کیا جائے۔ سڑکوں پہ ایک فٹ پانی کھڑا ہے، بارش چل رہی ہے، چائے والا کمبل لپیٹے سردی میں کانپ رہا ہے، عقیل صاحب ان کی فرمائش کے احترام میں باہر آتے ہیں اور پیدل کم از کم پانچ کلومیٹر دور اس مکان کی طرف جاتے ہیں جہاں وہ دوست رہتے تھے۔ وہاں جانے پر پتا چلتا ہے کہ جن سے ناصر کاظمی کو ملنا تھا‘ وہ صاحب خود لاہور گئے ہوئے ہیں۔ اب یہ اسی بارش اور سردی میں پیدل واپس آتے ہیں۔ کمرے میں جھانکتے ہیں تو ناصر کاظمی غائب۔ ایک رقعہ بستر پر دھرا ہے؛ ”تمہیں ناحق تکلیف دی، مجھے پتہ تھا کہ وہ نہیں آئے گا، میں لاہور جا رہا ہوں، لاہور آؤ تو مجھے ضرور ملنا۔ تمہارا، ناصر کاظمی‘‘۔

اگر اس وقت موبائل ہوتا تو یہ پورا واقعہ جو اصل میں ٹھیک ٹھاک طویل ہے، ہرگز نہ لکھا جاتا۔ کاظمی صاحب ایک فون ان صاحب کو ملاتے، ان سے وقت طے کرتے، ایک فون عقیل کو ملاتے، سٹیشن سے انہی کے ساتھ جنہیں ملنا تھا ان کے ہاں پہنچ جاتے۔ قصہ ختم پیسہ ہضم۔ ہر چیز پری ڈکٹیبل ہو گئی ہے۔ کسی کے اچانک ملنے یا کہیں سرپرائز کے طور پر جانے میں جو چارم تھا کب کا مٹی میں مل چکا۔ بلکہ اب تو اخلاقیات میں شامل ہے کہ بے شک بھائی بہن کے یہاں جانا ہو پہلے فون کرو، پوچھو، وقت طے کرو پھر آؤ۔ بغیر فون کیے کہیں جا کر دکھا دیں، سامنے والا اوپر سے نیچے تک دیکھے گا بلکہ دس منٹ تک معذرت کے علاوہ بات کرنے کو بھی کچھ نہیں ہو گا۔ بغیر وقت لیے کسی دوست سے بھی ملنا اب ناممکنات میں سے ہے۔

ورڈز ورتھ کے پاس اگر بچپن سے موبائل ہوتا تو کیا وہ اس کوئل نما پرندے کی تلاش میں دیوانہ وار گھوم سکتا، مارا مارا پھر سکتا؟ وہ جسے ”ککو کی تلاش‘‘ کہتا تھا وہ کوئی پوکے مان گو قسم کی گیم ہوتی۔ وہ کبھی ڈیفوڈلز نہ لکھ سکتا، اسے موبائل میں کنٹراسٹ بڑھا کر وہ سارے رنگ مل جاتے جنہیں دیکھنے وہ جھیل کے کنارے جایا کرتا تھا۔ وہ غلطی سے پھول لہلہاتے دیکھتا بھی تو زیادہ سے زیادہ اسے وہ گانا یاد آ جاتا، میں ہوں خوش رنگ حنا۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا تھا؟ یہ ہیمنگوے چچا کیا تب بھی اتنی ہی مستقل مزاجی سے ٹائپ کرنے میں لگے رہتے؟ اور لکھ لکھ کے پورا مسودہ پھاڑتے رہتے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چھتیس مرتبہ انہیں دہی لینے جانا پڑتا، دو سو اسی دفعہ ”ہور کی حال اے‘‘ کا جواب دینا ہوتا‘ اور وہ جو صرف ایک دوست رات کو دو بجے فون کی گھنٹی بجانا فرض سمجھتا ہے، ویسا کوئی مہربان ان کا بھی ہوتا۔ ہاں وان گوف نر بچہ تھا وہ شاید موبائل سے تنگ آ کے اپنا دوسرا کان بھی کاٹ لیتا، باقی سب نے رل ہی جانا تھا۔

ہر دوسرے لکھنے والے کا ہر دسواں کالم اسی موضوع پہ ہوتا ہے۔ نہ یہ ہڈی اگلی جاتی ہے نہ اسے نگلا جا سکتا ہے۔ موبائل کنسنٹریشن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ آپ کو فوکس نہیں کرنے دیتا۔ کھانا تک بندہ ڈھنگ سے نہیں کھا سکتا۔ ادھر پہلا نوالہ منہ میں جائے گا‘ ادھر کسی انتہائی ضروری کام سے حال چال پوچھنے والے کا فون آ جائے گا۔ کھانے کا معاملہ تو یوں ہے کہ موبائل سے بچنے کی سب سے پہلی کوشش کھانے کے دوران کی جا سکتی ہے۔ یہ وقت ایسے ہوتا ہے کہ انسان ریلیکس کر رہا ہوتا ہے۔ دماغ تھوڑا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ کھاتے وقت موبائل سائلینٹ ہو تو روٹی سالن بڑے مزے کا لگتا ہے۔ اگلے دن تک ذائقہ یاد رہتا ہے۔ کھانا ہوتا ہی کتنا ہے یار، ایک روٹی، دو روٹی؟ سارا دن اسی کھانے کے چکر میں کماتے پھریں اور نوالہ توڑنے بیٹھیں تو موبائل اسے اچک کر لے جائے، یہ ناانصافی ہے۔

اس کے علاوہ موبائل کی عادت یوں بھی کم ہو سکتی ہے کہ اسے واش روم مت لے کر جائیے۔ پہلے دنیا کے بہت سے بڑے بڑے مسائل وہیں حل ہوا کرتے تھے۔ اچھے وقتوں میں جو یکسوئی اور خلوت ادھر میسر ہوتی تھی وہ شاہانہ تخلیے میں بھی نہیں تھیں (کنیزیں یا مورچھل بردار ہر جگہ ہوتے تھے کم بخت، وہ محاورہ بھی تبھی بنا تھا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں) تو کافی مسئلے مفت میں سیدھے ہو جایا کرتے تھے۔ تیسرا اور آخری حل ان دونوں مشکل مرحلوں کے بعد آئے گا۔ وہ یہ ہے کہ وائی فائی یا ڈیٹا پیکج (سادہ لفظوں میں انٹرنیٹ) پانچ منٹ کو آن کیجیے۔ اس کے بعد اسے بند کرکے سارے واٹس ایپ اور فیس بک پیغامات دیکھ لیں اور رپلائی کر دیجیے۔ ایک تو آپ آن لائن سامنے نہیں ہوں گے، دوسرے یہ کہ اس وقت جو جواب لکھا جائے گا وہ دوبارہ نیٹ آن کرنے پر ہی مطلوبہ جگہ جائے گا۔ یعنی ہر وقت کی ٹوں ٹوں سے کچھ بچت رہے گی۔ باقی اب چلتے فون کی گھنٹی رکوانا دینا تو اپنے بس میں بھی نہیں ہے، اگے تیرے بھاگ لچھیے۔

پرانا لطیفہ ہے، ایک آدمی نے بابا جی سے پوچھا کہ بابا جی، بتائیے گھر والی کو سمجھایا کیسے جائے کہ وہ میری مرضی پہ چلے، بابا جی کہنے لگے بیٹا، بابے کو پتا ہوتا تو وہ بابا کیوں ہوا ہوتا؟ تو اس ڈیجیٹل مسئلے کا مزید بہتر حل خود ڈھونڈئیے، بابے کو پتہ ہوتا تو بابا ٹیبلیٹ پہ رات کے دو بجے یہ کالم نہ لکھ رہا ہوتا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain