کیا امام حسنؑ کمزور تھے؟


تاریخِ اسلام میں صلح حسنؑ ایک ایسا موڑ ہے جس کے اثرات سے امتِ مسلمہ آج بھی باہر نہیں آسکی۔ بہت سے ناواقف اور کم علم لوگ اس صلح کی بنا ء پر امام حسنؑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کچھ انہیں امام حسین ؑ سے کمتر بھی تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ صرف اور ذہن کی تنگ نظری کے سبب ہے کہ آپ حالات وواقعات کا مشاہدہ کیے بغیر کسی غلط گردانیں تا آنکہ وہ شخص امام ہو اور امام بھی ایسا کہ جس کے لیے رسول خداﷺ کی حدیث ہو کہ میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں چاہے کھڑے ہوں یا بیٹھ جائیں۔ علماء کے نزدیک کھڑے ہونے کا مطلب جنگ ہے اور بیٹھ جانے کا مطلب صلح ہے۔

اگر آپ نے صلح نامے کا مطالعہ نہیں کیا تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ امام حسن ؑ کے بارے میں کوئی گمان رکھیں۔ اور اگر کیا ہے لیکن تاریخ کے مشہور ترین صلح نامے نہیں پڑھے تب بھی آپ کا تبصرہ لاحاصل ہی رہے گا کہ جب تک آپ کو صلح نامے کی سائنس کی سمجھ نہیں، اس کے جزیات، اس کے محرکات اور کسی بھی شرط کے پیچھے موجود وجوہات کا علم نہیں تو خود ہی خیال کیجئے کہ آپ کیسے اس صلح نامے میں رکھی جانے والی شرائط، ان کی وجوہات اور ان کے اثرات کا جائزہ لے سکیں گے۔

جب بھی کبھی صلح نامہ لکھا جاتا ہے تو اصول یہ ہے کہ فاتح اس کی شرائط مرتب کرتا ہے، مفتوح انہیں قبول کرلیتا ہے۔ صلح نامہ حسن ؑ کی تمام شرائط امام حسن ؑ کی تجویز کردہ ہیں جنہیں اس وقت من و عن تسلیم کیا گیا۔ بعد میں عمل درآمد کا ہونا یا نہ ہونا ایک الگ بحث ہے لیکن صلح نامہ حسن اگر پڑھیں اور اسے سمجھ پائیں تو شاید آپ کو عالمِ اسلام کے تمام تر مسائل سمجھ آجائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی مولانا مودودی کی، خلافت وملوکیت، بھی خاصے کی چیز ہے اگر آپ ایک منٹ کے لیے اپنی آنکھوں سے مسلک کا چشمہ اتار کر اسے پڑھیں تو آپ کو بہت ساری تاریخی حقیقتیں بہتر انداز میں سمجھ آئیں گی۔ آپ کی سہولت کے لیے صلح نامے کی شرائط یہاں نقل کردی ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمیں صحیح سمت کے انتخاب کی صلاحیت دے۔

صلح نامے کی شرائط۔

معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی کتاب، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے نیک جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کرے گا۔

معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی اور امام حسن علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود نہ ہونے کی حالت میں حکومت امام حسین علیہ السلام کو سونپی جائے گی۔

نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی علیہ السلام پر ہونے والا سب وشتم ختم کیا جائے اور آپ کو ہمیشہ اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے۔

کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاویہ کاکوئی حق نہ ہوگا، معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن علیہ السلام کو بھیجے کا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دے گا، جنگ جمل وصفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کیے جائیں اور یہ رقم ایران کے دارب گرد نامی صوبہ کی درآمد سے حاصل کیے جائیں۔

اللہ کی زمین پررہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہیے، چاہے وہ شام کے رہنے والے ہوں یا یمن کے، حجاز میں رہتے ہوں یا عراق میں، کالے ہوں یا گورے، معاویہ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے، اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے، حضرت علی علیہ السلام کے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام و پیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).