جماعت اسلامی: ایم ایم اے یا پی ٹی آئی؟


کیا جماعت اسلامی کو متحدہ مجلس عمل میں شامل ہو نے سے زیادہ فائدہ ہوگا یا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنانے سے؟
جماعت اسلامی کے متعلقین کی اکثریت کا خیال ہے کہ صرف اپنے انتخابی نشان ترازو پر ہی الیکشن لڑا جائے۔ تاہم ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو جماعت کے لیے اتحادی سیاست کو مجبوری یا لازمی سمجھتے ہیں۔ یہ اتحاد کس سے ہو، ایم ایم اے یا پی ٹی آئی یا کسی دوسری پارٹی سے، اس بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

جماعت اسلامی اب بھی تنہا الیکشن لڑنے پر اصرار کرے گی تو جلد انتخابی وقعت کھو دے گی۔ یہ ایک المیہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے جماعت اسلامی وقت گزرنےکےساتھ سکڑ رہی ہے۔ یہ کبھی کراچی میں کچھ انتخابی طاقت کی حامل تھی لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی۔ پنجاب کے کچھ شہری علاقوں مثلاً لاہور میں بھی یہ کبھی قابل لحاظ سیاسی و انتخابی قوت تھی مگر اب وہاں اس کو 500 تک ووٹ پڑنے لگے ہیں۔ ( حیران کن طور پر اپنے مضبوط احتسابی نظام کی دعویدار جماعت اسلامی کے اندر کسی ذمہ دار کے خلاف اس خراب کارکردگی پر کارروائی یا بازپرس نہ ہوئی ) بلوچستان میں یہ پہلے سے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پشاور سے بھی، جہاں یہ ماضی میں نشستیں لے اڑتی تھیں، ابھی ابھی اس کو بہت کم ووٹ پڑے ہیں۔ امیر جماعت سراج الحق کی تمام تر مساعی کے باوجود نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جماعت اسلامی اب خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ لیکن وہاں بھی پچھلے انتخابات میں اس کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں مایوس کن رہی۔ سوات میں تحریک انصاف نے اس سے نشستیں چھین لیں، بونیر میں بھی اے این پی اور پی ٹی آئی نے اس کو نشستوں سے محروم کر دیا تھا۔

عمران خان نے پچھلے دنوں دیر میں عوامی طاقت کا جیسا بھرپور مظاہرہ کیا، اس کے بعد وہاں کے حالات پر براہ راست نگاہ رکھنے والے ذرائع کے مطابق وہاں بھی جماعت اسلامی کی بالاستی پی ٹی آئی کی جانب سےشدید خطرے سے دوچار ہے اور کہا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں جماعت کا باقی رہ جانے والا یہ واحد گڑھ بھی شاید اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کہا جاتا ہے عمران خان کے اس دورے نے ان تمام لوگوں کو با الآخر ایک قابل بھروسہ متبادل سیاسی قوت فراہم کر دی ہے جو بہ امرمجبوری اب تک جماعت سے اس لیے وابستہ رہے ہیں کہ دیر میں جماعت کو شکست دینے کی طاقت رکھنے والی کوئی یقینی متبادل قوت تا حال دستیاب نہیں تھی۔ جماعت اسلامی عمران خان کے اس اقدام سے یقیناً خوش نہیں ہوئی۔ عمران خان کے شدید مخالف اور زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور سراج الحق سے مل کر ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان خود سراج الحق سے ہی کروالیا۔

ایم ایم اے نے 2002 کے انتخابات میں بوجوہ زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ یوں تواس اتحاد میں شامل سب پارٹیوں کو فائدہ ہوا تھا لیکن بطورخاص جماعتِ اسلامی کو اس سے پہلی بار مختلف صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں اپنے سیاسی وزن سے زیادہ نمائندگی مل گئی تھی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ فوائد اس اتحاد کے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کے حصے میں آئے۔ اس کے طفیل جےیو آئی (ف) کے اکرم خان درانی تب صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بن گئے، بلوچستان میں بھی جے یو آئی کی اتحادی حکومت بن گئی جبکہ مولانا قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد بن گئے تھے۔

جمعیت علماءاسلام (ف) خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اب بھی ایک بڑی انتخابی قوت ہے۔ ان حالات میں ایم ایم اے بحال ہو بھی گئی تو بھی اس کا زیادہ تر اثر صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہی ہو گا۔ جبکہ ممکنہ طور پراس کا زیادہ تر فائدہ ماضی کی طرح مولانا فضل الرحمٰن ہی لے اڑیں گے۔ دوسری پارٹیوں کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور جوڑتوڑ کی صلاحیت کی وجہ سے وہ اپنے سیاسی امکانات میں اضافہ کرنے میں کیونکہ وہ ماہر ہیں۔

جبکہ جماعت اسلامی کے امیدواروں کو چند ایک نشستیں ٹکٹ کے لیے مل جائیں گی۔ یہ انہیں ایم ایم اے کی برکت سے جیت پائیں یہ یقینی نہیں البتہ جماعت کو ایم ایم اے میں شامل ہونے کا فوری فائدہ یہ مل جائےگا کہ منبر و محراب سے اس کے بانی مولانا مودودیؒ اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ بند رہے گا۔

یہ بات ابھی واضح نہیں کہ کیا ایم ایم اے کی بحالی کے لیے دوڑدھوپ کرنے والے واقعی اسے بحال کرنا چاہتے ہیں یا وہ دیگر بڑی پارٹیوں کے ساتھ کسی ممکنہ انتخابی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کے لیے اپنی بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین بھی مستقبل میں کسی سیاسی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت جاری ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن ایک شاطر سیاسی کھلاڑی ہیں۔ مذہبی قائدین کے ساتھ اِس بیٹھک اور ایم ایم اے کی مجوزہ بحالی کا اعلان کرواکر انہوں نے کئی فوائد پہلے ہی سمیٹ لیے ہیں۔

مثلاً وہ فاٹا کےصوبہ خیبر پختونخوا سے ادغام کے معاملے اور اپنی اتحادی مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے قانونِ ختمِ نبوت میں ترمیم کی کوشش پر تنہائی کا شکار ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس اقدام سے نہ صرف اپنی سیاسی تنہائی کو ختم کردیا اور دوسری پاٹیوں کے ساتھ اپنی سودےبازی کے امکانات کو بھی وسیع کردیا۔

علاوہ ازیں اپنے سخت ترین حریف عمران خان کےایک حکومتی حلیف امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے ذریعے ایم ایم اے کی بحالی یعنی اپنے ساتھ اتحاد کا اعلان خود اُن سے کروا کر اس امکان کا اپنے تئیں سد باب کرنے کی کوشش کی کہ جماعت اسلامی مستقبل قریب میں تحریک انصاف کی اتحادی بن سکے اور یوں دوبارہ کے پی کے میں حکومت بنا سکے۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف صوبائی حکومت میں اتحادی ہیں۔ دونوں صاف و شفاف جمہوریت اور احتساب کے علمبردار ہیں، طالبان اور دہشت گردی پر ان کے موقف تقریباً یکساں ہیں، امریکہ، افغانستان اور ہندوستان وغیرہ پر بھی ان کی آراء میں کوئی فرق نہیں، اس لیے دونوں فطری اتحادی بنتے ہیں۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں دونوں کے درمیان اتحاد یا ایڈ جسٹمنٹ خارج از امکان نہیں۔ یہ دونوں کے مفاد میں بھی ہے۔

لیکن جماعت اسلامی کے کارکن کہتے ہیں پی ٹی آئی جماعت اسلامی کو اکامو ڈیٹ کرنے کو تیار نہیں اس لیے جماعت مجبوراً دوسرے اتحادی ڈھونڈ رہی ہے۔

پی ٹی آئی کو گلہ ہے دھرنا ہو یا نواز حکومت کے خلاف ان کی تحریک، جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور عمران خان کے بقول وکٹ کے دونوں طرف کھیلتی رہی۔ جماعت کو بھی اسی طرح کئی پی ٹی آئی سے گلے شکوے ہیں مثلاً ان کے وزیر خزانہ پر الزامات لگانےوالے خیبر بینک کے ایم ڈی کے خلاف ایکشن لینے میں بہت تاخیر کی گئی۔ دونوں کے درمیان بےاعتمادی اور بد گمانی کی یہ خلیج ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور ایک دوسرے کے رہنماٶں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے سے بھی بڑھتی رہی۔

تاہم پی ٹی آئی کی وسیع عوامی حمایت اور اس کے سربراہ عمران خان کے طرز سیاست کی وجہ سے مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی دوسری پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد ممکن ہو سکے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی بھی ضمنی انتخابات میں مسلسل خراب کارکردگی کے باوجود مقبول ترین جماعت ہونے کے زعم میں مبتلا ہے اور ہر اتحاد میں شامل ہونے کے لیے کچھ زیادہ ہی قیمت لگاتی ہے، اس لیے اس کو بھی شاید ایم ایم اے میں شامل ہونا پڑے یا تنہا انتخاب لڑنا پڑے۔ تنہا انتخاب تو جماعت اسلامی کو رہی سہی عزت سادات سے بھی عزت سادات سے محرومکر دے گاجبکہ ایم ایم اے کے لیے بھی ماحول سازگارنہیں اور اس سے بھی اسے زیادہ نشستیں نہیں مل سکیں گی۔

چنانچہ جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر لینا چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ جماعت اسلامی چونکہ بہرحال پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک چھوٹی پارٹی ہے تو اگریہ پی ٹی آئی سے بات کرے اور اپنی حیثیت کے مطابق کم نشستیں لینے پر تیار ہو تو ان کا اتحاد ہو جائے گا۔ یہ اتحاد تحریک انصاف کی بھی اولین ترجیح ہوگی کیونکہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور جعیت العلماء اسلام (س) کے سوا تیسری کوئی پارٹی نہیں جس کے ساتھ عمران خان شاید خوشی سے اتحاد کے لیے تیار ہو۔ یوں اس پی ٹی آئی جماعت اتحاد کا فائدہ عمران خان کو بھی ہوگا کیونکہ ان کی مخالف ساری پارٹیاں شاید ان کے خلاف اتحاد بنا لیں۔ لیکن اس میں جماعت اسلامی کو بھی اپنی حیثیت سے شید بہت زیادہ نشستیں مل جائیں گی۔ اس سے تو بہرحال زیادہ نشستیں جتنی وہ اکیلے یا ایم ایم اے کے تحت انتخاب لڑنے کی صورت میں حاصل کر سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).