اقبال سے ناراض ایک دیسی دانشور سے انٹرویو


سوال : سنا ہےآپ اقبال سے نالاں ہیں؟ آپ کی اقبال سے ناراضگی کی شروعات کیسے اور کب سے ہوئیں؟

دد: اقبال سے ناراضگی کی ابتدا دو واقعات سے ہوئی۔ ان میں سے ایک طربیہ اور دُوسرا المیہ واقعہ ہے۔ میرا خیال ہے مجھے طربیہ سے شروع کرنا چاہیے کیونکہ میں اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی کوئی دل ہلادینے والا اور رونے دھونے پر مجبور کردینے والا واقعہ نہیں سنانا چاہتا کیونکہ میں میلو ڈرامہ پسند نہیں کرتا۔

پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آج سے تیس برس پہلے ہمارے گاؤں کے ایک ان پڑھ نوجوان عاشق نے اپنی میٹرک پاس محبوبہ کو میرے ایک دوست سے خط لکھوایا۔ خط لکھنے کے بعد وہ دوست میرے پاس پہنچا تو ہنس ہنس کر دہرا ہوا جارہا تھا۔ میرے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ عاشق نے محبت نامے میں اشعار لکھنے کو کہا تو میں نے اقبال کے اشعار لکھ دیے۔

یہ سن کر محفل پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ یہ کیسی شاعری ہے جو اگر محبت ناموں میں لکھ دی جائے تو لوگ قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ یہ شاعری نہ محبت ناموں میں لکھی جاسکتی ہے، نہ اسے اچھے موسم میں پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی اُس وقت بھلی لگتی ہے جب دل کا موسم اچھا ہو۔ ہاں یہ شاعری اُس وقت خوب کام آتی ہے جب آپ فسادِ فی سبیل اللہ کے لئے پرتول رہے ہوں، آپ پر علتِ تکفیر کا دورہ پڑا ہو یا پھر اس سے ملتا جلتا کوئی اور عارضہ یا بدہضمی ہو۔ میں ان سوالات پر غور کرتے کرتے اقبال سے نالاں ہوگیا۔ پھر میں نے سارتر کا یہ قول پڑھا کہ’’ اچھا ادب وہ ہے جو بُرے ادب سے بیزار کردے‘‘ تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ شاید اقبال سے صرف وہی لوگ خوش ہیں جنہیں اچھا ادب پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی یا موقع نہیں ملا۔

اب میں وہ دردناک واقعہ سناتا ہوں جو اقبال سے میری دائمی ناراضگی کا باعث بنا۔ میرے ایک دوست اقبال پرست تھے اور وہ ان کا شعر ’شہادت ہے مطلوبِ و مقصودِ مومن ‘ ہر وقت دہراتے دہراتے اس نتیجے پر جا پہنچے کہ انسان شہید ہونے کے لئے پیدا ہوا ہے۔ میں نے اُسے لاکھ سمجھایا کہ شہادت ایک وسیع المعانی اصطلاح ہے اور اس کے غیر عسکری اور پُرامن معانی بھی ہیں لیکن وہ میری اس بات کے جواب میں اقبال کے دیگر اشعار سنا کر قائل کرتا رہا کہ اقبال صرف شہادت کے عسکری معانی پر زور دیتے ہیں۔ شہادت کے شوق میں اس دوست نے ملک اس کے واحد ادارے سے رجوع کیا جس کا مقصد جذبہ شہادت کی تسکین ہے لیکن ہر بار ناکام لوٹا۔ کبھی چھاتی کم نکلی تو کبھی رفتار۔ کافی عرصہ تک مایوس رہا مگر ایک روز خوش خوش میرے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ ملک میں شہادت کی نجی فرینچائزز کھل چکی ہیں اور وہاں پستہ قامت، پچکی چھاتی والے اور یہاں تک کہ لنگڑے لولے سب چلتے ہیں۔

شہادت کی نجی فرینچائزز سے اس کی مُراد عسکری تنظیمیں تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں جتنے نوجوانو ں میں عسکری جذبہ شہادت پیدا کردیا گیا ہے اُس کی تسکین ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ اس لئے آپ نے دیکھا کہ نوجوان قطا ر اندر قطار عسکری تنظیموں میں شامل ہوئے۔

ہمارے وہ دوست بھی ایسی ہی ایک تنظیم میں شامل ہوئے اور پھر وہ نہیں ایک روز ان کی والدہ کو شہادت کا سرٹیفکیٹ ملا جس پر قرآنی آیات سے اُوپر اقبال کا وہی شعر لکھا تھا جو میرے دوست کو بے حد پسند تھا۔ وہ سرٹیفکیٹ ہاتھ میں لے کر اُس کی گونگی بہری ماں ، جو پہلے ہی بیٹے کی جُدائی میں ادھ موئی ہوچکی تھی، کسی پڑھے لکھے آدمی کے پاس گئی اور اُس نے اشاروں میں بتایا کہ تمہارا بیٹا لڑائی میں مارا گیا ہے۔ وہ عورت گونگی اور بہری ضرور تھی لیکن مامتا تو گونگی نہیں ہوتی۔ یہ خبر سنتے ہی وہ زمین پر ڈھیر ہو گئی، مرتے دم تک مفلوج رہی اور اس کی نظریں اُس وقت تک دروازے پر جمی رہیں جب تک پتھرا نہیں گئیں۔

آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ پاکستان کے کتنے غریبوں نے یہ دن دیکھا۔ کتنی ماؤں پر یہ قیامت ٹوٹی۔ کیا دیگر نام نہاد علما کی طرح یہ درس اقبال نے بھی اپنے بچوں کو دیا کہ وہ شہید ہونے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور شہادت کا مطلب صرف جنگ میں مارا اجانا ہے؟ ہرگز نہیں! ورنہ ڈاکٹر جاوید اقبال جسٹس ہوتے؟

اس پر اگر آپ اسلام کی بات کریں تو مجھے بتائیں کیا پیغمبرِ اسلام نے اپنے بچوں سے یہ کہا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ محض دوسروں کے بچوں کے لئے ہے؟ نہیں! تو یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لئے نہیں کہ انہیں اپنی تعلیمات پر خود شک ہوتا ہے؟ اقبال کے بعد خود مولانا مودودی کے فرزند بتاتے ہیں کہ مولانا اپنے بچوں کو اپنے جلسوں میں شامل ہونے پر کان پکڑا دیتے تھے۔ یعنی اپنے بچوں کے لئے زندگی کی تعلیم اور دُوسروں کے بچوں کے لئے موت کی؟ قاضی حسین احمد جس امریکہ کے خلاف غریب بچوں کی رگوں میں نفرت کا زہر بھرتے رہے ان کا اپنا بچہ اُسی امریکہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ کیوں؟ غریبوں کے بچے ویرانوں میں مریں، ان کی لاشوں کی شناخت بھی نہ ہوسکے اور آپ کے بچے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پائیں؟ کیوں؟
(یہ فرماتے ہوئے دیسی دانشور رو پڑے )

سوال : چلیں ماحول غم سے بوجھل ہوچلا ہے۔ کوئی اور سوال پوچھتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ اقبال پر کچھ مغربی مفکرین اور دانشوروں نے بھی لکھا ہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اقبال ایک عظیم شاعر اور مفکر تھے؟

دد : یقیناً مغربی مفکرین اور دانشوروں سے آپ کی مُراد جرمن محققہ این میری شمل اور برطانوی مستشرق آر۔ اے۔ نکلسن ہیں۔
ڈاکٹر میری شمل نے اپنی نمائندہ کتاب Mystical Dimensions of Islam میں پیر پرستی کے لئے انگریزی کی اصطلاح اقبال سے مستعار لی۔ باقی ماندہ کتاب میں اقبال کا ذکر کہیں کہیں دکھائی دیا مگر زیادہ تر ابن عربیؒ، مولائے رومؒ، بایزید بسطامیؒ جیسے دیوقامت صوفیائے کرام کا تذکرہ رہا ہے۔ جہاں تک میری شمل کی کتاب Gabriel’s Wings کا تعلق ہے، تو یہ کتاب نہ تو میری شمل کی نمائندہ کتب میں شامل ہے اور نہ ہی انہیں فلسفی ثابت کرنے کے کی سعی۔ تعارف میں میری شمل خود لکھتی ہیں کہ اقبال یورپین فلسفے سے کس حد تک متاثر ہوئے اور وہ فلسفی ہیں یا نہیں، یہ طے کرنا فلسفیوں کا کام ہے اُن کا نہیں۔

میری شمل کی طرح پروفیسر نکلسن بھی پیر رومیؒ کی تلاش میں نکلے توکہیں سے مرید ہندی مل گئے۔ اس طرح میری شمل ہوں یا پھر پروفیسر نکلسن، دونوں کے ہاں اقبال کا اکلوتا حوالہ تصوف ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اقبال کو متصوف (صوفی نما) بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ تصوف سے بھی اقبال کی ہمدردیاں مشکوک ہیں۔ اقبال کا لوگوں کو ”حافظِ صہبا گسار“ سے ہوشیار کرنا اور پھر معافی مانگنا تو سبھی جانتے ہیں لیکن دیکھتے ہیں غلام احمد پرویز اپنی کتاب ”تصوف کی حقیقت“ میں اسلام پر اقبال کا سب سے بڑا احسان کیا قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :

’’اسلام صدیوں سے مذہب کی شکل اختیار اور تصوف کا پیرہن زیب تنکیے چلا آرہا تھا۔ ان تصورات نے ایسی پختگی اختیار کرلی تھی کہ کسی کو اس کا خیال تک نہیں آسکتا تھا کہ یہ سب اسلام کے خلاف سازش کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے اسلام پر پڑے ہوئے ان سحر انگیز اور نگاہ فریب پردوں کو بڑی جرأت سے اٹھایا ‘‘۔

ایسے میں اگر آپ مغربی مفکرین کو سند مانتے ہیں، جیسے بغیر سوچے سمجھے ایک ٹی وی پروگرام میں احسان الہٰی ظہیر کے صاحبزادے جو خود تصوف کے خلاف ہیں اقبال کی حمایت میں میری شمل کا حوالہ دے رہے تھے، تو آپ اقبال کو ایک صوفی مان رہے ہوں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مقامی صوفی شعرأ کا قد اقبال سے کہیں بڑا ہے اور عوام کے دلوں میں ان صوفی شعرأ کی عزت بھی ان سے کہیں زیادہ۔ اس لئے اقبال کو ایک عام سطح کے شاعر کے طور پر درسی کتب وغیرہ میں مقامی صوفی شعرأ سے زیادہ جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ اس طرح ہماری مقامی زُبانیں اور ثقافت بھی تقویت پائے گی۔

سوال: امیرِ جماعت ِ اسلامی سراج الحق نے کہا تھا کہ اقبال اگر زندہ ہوتے تو جماعتِ اسلامی میں ہوتے۔ کیا آپ ان سے متفق ہیں؟

دد: انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا۔ جماعت نے یہ حقوق غصب کیے ہیں یا چرائے ہیں یہ الگ بحث ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال کے اشعار و افکار سے جس قدر فائدہ جماعت نے اٹھایا ہے اتنا فائدہ اقبال کا خاندان اور مُسلم لیگ بھی نہیں اٹھا پائی۔

مثال کے طور پر اقبال نہ ہوتے تو جماعت کی رگوں میں خون جم جاتا۔ جماعت نے ان سے پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کی کلا سیکھی۔ ہم سب نے یہ دیکھا ہے کہ ”لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی“ کا ورد کرتے ہوئے جماعت سے وابستہ نوجوان خواتین کو کبھی کرکٹ روکتے ہیں اور کبھی لڑکوں کے ساتھ مل بیٹھنے سے تاکہ قوتِ بازوئے مُسلم خُدا پر نت نئے احسانات چڑھا سکے۔
جماعت نے اقبال کے اُن اشعار کا خوب چرچا کیا ہے جن میں وہ شہادت کے عسکری تصور پر زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکوہ جواب شکوہ جیسی نظمیں زُبان زدِ عام کرانے میں جماعت کا بھرپور کردار ہے۔ یہ نظمیں تو جوانوں میں شوقِ شہادت کا سیل رواں کرتی ہیں تو جماعت نوجوانوں کی سہولت کے لئے گلی گلی شہادت کی نجی فرینچائزز کھول دیتی ہے۔ اگر جماعت کا دُنیا پر چھا جانے کا خواب پورا ہوجاتا تو شاید اقبال بھی جماعتی اصحابِ لولاک کے کندھے پر سوار ہوکر دُنیا پر چھاجاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور دُنیا کچھ اور ہی نظارہ پیش کررہی ہے۔

یہ نظارہ جماعت کے لئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ اقبال ہوں مولانا مودودی یا پھر حسن البنا، سبھی سیاسی اسلام کے پرچارک تھے مگر اس وقت دُنیا بھر میں سیاسی اسلام کی صفیں لپیٹی جارہی ہے۔ بنگلادیش میں جماعتِ اسلامی کو تخت کے خواب کی تعبیر میں تختہ ملا ہے۔ انڈیا میں جماعت کی حالت اُس ضرب المثالی غنچے کی ہے جو بن کھلے مرجھا چکا ہے۔ انڈیا میں جماعت سیکولرازم کی محافظ ہے اور پاکستان میں سیکولرازم سے حفاظت کے لئے سڑکوں پر نکلتی ہے۔ مصر میں جماعت کے نظریاتی بھائی بندناپید ہورہے ہیں۔ سعودی عرب امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ماڈرن ہورہا ہے۔ اب مظلوم مُسلمان تلاش کرکے چندے اور بھرتی کا دھندہ بھی مندا پڑ تا جارہا ہے۔ اب انٹرنیٹ پول کھول دیتا ہے کہ جلتا ہوا آدمی برما کا روہنگیا مُسلمان نہیں بلکہ ہالی وڈ کا ایکسٹرا ہے۔

اگر جماعت اپنے آپ کو اقبال کا وارث قرار دے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان پیٹھ پھیر لیں؟ تحریک کے نمائندے شاہد اللہ اپنے ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں پلٹنے جھپٹنے اور پہاڑوں کی چٹانوں پر پناہ لینے کا درس انہیں اقبال کے ہاں زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے ملا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سکولوں کو تباہ کرنے کا حرف راز بھی انہوں نے اقبال کے جنوں سے سیکھا ہے۔ آخر میں میں ایک بات کروں گا کہ زندہ آدمی اپنی صحبت اور مرا ہوا آدمی اپنی وراثت سے پہچانا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال نے ایک خطرناک وراثت چھوڑی ہے اور دوسرا یہ کہ اقبال فکری لحاظ سے کئی ٹوپیاں پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے ان کی فکر اور شاعری کو عمروعیار کی زنبیل بنادیا ہے جس سے ہرکوئی اپنی مرضی کی چیز نکال سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں مبتادل بنانیے کی بات ہورہی ہے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا گذشتہ بیانیہ بہت حد تک اقبال سے اخذ شدہ ہے۔ ہم سیاست سے دین اور دین سے سیاست جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو اس کے پیچھے بھی اقبال ہیں۔ اگر ہم شمشیر و سناں کو اولیت دے کر، اس خطے کی جمالیات کو زہر پلا کر اپنی ثقافت تباہ کربیٹھے ہیں تو یہ فارمولہ دینے والے بھی اقبال تھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).