خادم رضوی کی گندا گوئی اور خطابت کی احراری روایت۔ ۔ ۔ دوسرا رخ


سوشل میڈیا کے ایک معروف ”انٹلیکچول تھڑے“ ”ہم سب“ پر لطف الاسلام صاحب کا بازاری جگتوں اور پھبتیوں سے ”لیس“ کالم نظر سے گزرا۔ رائٹر موصوف نے بات آغاز تو خادم رضوی سے کی لیکن بہ یک زقند ہاتھ مرحوم بزرگوں کی دستار پر ڈال دیا۔ جی ہاں صاحب نے کچھ اس طرح سید عطاءاللہ شاہ بخاری و شورش کاشمیری پرسب و شتم، الزام و دشنام کے تیر برسائے ہیں اور بے سروپا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ڈاکٹر گوئبلز کی روح انھیں ہاتھ باندھ کر ”پرنام“ کر رہی ہو گی! اگرموصوف شاہ جی اور شورش کاشمیری کی سیاست و خطابت اور دینی و قومی جدوجہد سے اتنے ہی بے خبر ہیں تو انھیں ایسے اذعانی لہجے میں ان بوریا نشین فقیروں پر اتہام باندھنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ بہ ایں صورت انھیں نرم سے نرم الفاظ میں تاریخ سے بے خبر اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر تاریخٰ و سیاسیات سے موصوف اتنے ہی نابلد ہیں تو انھیں کوچہ صحافت میں آوارہ خرامی کرنے کی بجائے کوئی اور ڈھنگ کا کام کرنا چاہیے۔ یوں برسرعام تاریخی حقائق کا منہ چڑانا، اپنے من مرضی کے مطالب اخذ کرنا اور پھر خطابت و حریت کے لیجنڈز کا بوزنوں سے موازنہ، قلم سے ازاربند ڈالنے والے صحافیوں کا شیوہ ہوا کرتا ہے!

موصوف تحریکاتِ ختمِ نبوت کی بابت رقم طراز ہیں:
”ختم نبوت کی تحریکیں ایک عرصہ سے ملک میں جاری ہیں اور اس سے وابستہ مولویوں کی کئی نسلیں اپنی روزی روٹی اسی فن تقریر پر چلاتی رہی ہیں۔ “

ملاحظہ کیجئے کہ ایک سانس میں صاحب کیا کچھ کہہ گئے۔ ختمِ نبوت کی تحریکیں اپنے اپنے وقت کے جید علمائے کرام کی نگرانی و سرپرستی میں چلتی رہی ہیں جن کے تقوی و تدین، درویشی و سادگی کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں، ان رجالِ علم پر یہ اتہام کہ انھوں نے تحریکاتِ ختم نبوت سے اپنی نسلوں کے لیے روزی روٹی کا سامان بہم پہنچایا ہے، انتہا درجے کی جہالت اور حقائق سے ناواقفیت ہے!

یادش بخیر! ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے ”اقبال کے آخری دو سال“ میں جب مفکرِ احرار چودھری افضل حق اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری پر میاں امیرالدین کی سراپا کذب و افتراء تحریرات کا سہارا لے کراسی طرح کے الزامات لگائے تھے تو شورش کاشمیری نے اس کا جواب اپنے مخصوص انداز میں کچھ اس طرح دیا تھا:

”چودھری افضل حق اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بارے میں یہ سوچنا بھی گناہِ عظیم ہے کہ وہ ”جلبِ منفعت“ یا ”حصولِ زر“ کے آدمی تھے، یہ بکنے والے ہوتے تو خریدنے والے خود بِک بِک کر انھیں خریدتے! ایڈیٹر چٹان ان بزرگوں کے ساتھ برسوں رہا، انھیں قریب سے دیکھا۔ ربِ ذوالجلال گواہ ہیں کہ جن بزرگوں کے کفن کو ڈاکٹر صاحب نے میلا کرنا چاہا، وہ ”صحابہ کی مثال“ تھے۔ ان کی غیرتیں جوان اور حمیتیں بے داغ تھیں۔ ایک شخص جو مورخ بننے کے سفر کو نکلا ہو اس کو ان باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو صداقت کے چہرہ پر برص کا داغ ہیں اور جن کی روایت کا شعلہ کجلا گیا ہے۔ شورش کاشمیری مدتوں چودھری افضل حق اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خوانِ رفاقت کا خوشہ چیں رہا ہے، ان سے غیرت و حمیت کے معنیٰ سیکھے، انھیں دیکھا اور بے اختیار ان کے سانچے میں ڈھلنا چاہا۔ وہ کون کباڑیے تھے جن کے مالِ غنیمت پر ان کی نگاہ تھی؟ یہ لوگ فقر و استغناء کا پیکر تھے، انھوں نے عمر بھی دولت سے نفرت کی۔ وہ لوگ جو ان کے اخلاص و استقامت پر حملہ زن ہوتے ہیں انھیں غالبا معلوم ہی نہیں کہ ان لوگوں نے ہمیشہ انھیں اس طرح سمجھا گویا بہ قولِ علامہ اقبال: ”یہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے!“

ایک منصف مزاج شخص جب کسی گروہ یا طبقے پر قلم اٹھاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس گروہ اور طبقے کے صرف ان لوگوں کو ہی مثال کے طور پر پیش نہ کرے جو عامی ہیں یا جن کا ظاہری حلیہ انھیں اس طبقے میں شمولیت کی سندِ جواز مہیا کرتا ہے۔ مذہبی حلقوں میں بھی یقینا اس طرح کے عامی موجود ہیں جو نہ تو دینی علوم میں رسوخ رکھتے ہیں اور نہ ہی مجتہدانہ نگہ و بصیرت! لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کس شعبہ میں ایسے افراد نہیں پائے جاتے؟ کیا ہمارے ہاں کے لبرلز اور سیکولرز اس سے مبرا ہیں؟ کیا ان میں موجود ہر لبرل نے جان لاک، مانٹیسکو، روسو، جے ایس مِل اور پھر جان رالز کو بالاستعیاب پڑھ رکھا ہے؟ کیا سائنس پر ایمانِ بالغیب رکھنے والے ہمارے ان جدیدیت پسنوں نے فلاسفی آف سائنس کے مباحث ازبرکر رکھے ہیں جو فائن مین، اے ایف چامر، لےکا ٹوش اور مارٹن ہائیڈیگر نے چھیڑے ہیں؟ اگر نہٰں اور یقنیا نہیں تو ہدفِ تنقید صرف بیچارہ مُلا کیوں؟ واقعہ یہ ہے کہ اس طرح بغیر امتیاز علماء کے خلاف جو باتیں عام طور پر کہی جاتی ہیں ان کی غرض و غایت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ظاہری طور پر بیان کی جاتی ہیں!
آخر کالی بھیڑیں کس گروہ میں نہیں؟ لیکن زبانِ طعن دراز کرنے کے لیے علماء کو ہی مشقِ ستم بنایا جاتا ہے!

بقول شورش کاشمیری:
”بعض شب کور نقادوں نے اپنی نفسی کوتاہیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے نہ صرف مُلا کو ہدفِ تنقید بنایا بلکہ اس کی آڑ میں ان صلحائے امت کو بھی رگیدا جن کا تنہا قصور یہ تھا کہ وہ انگریزی حکومت اور اس کی بیوروکریسی کے خلاف لڑتے رہے۔ جن علماء نے تکفیر المسلمین میں ظالمانہ حصہ لیا ان کے خلاف سیاست دانوں میں کبھی مزاحمت یا مدافعت کی کوئی آواز نہیں اٹھی مگر جن علماء نے قربانی و ایثار کی زندگی بسر کی یا یورپی دانشوروں کی اس کھیپ کو اس کے اعمال و افعال پر ٹوکا، ان کے خلاف سب و شتم کے بازار میں ہمیشہ ہی رونق رہی ہے“

ملک بھر کی جامعات دیکھ لیجیے، ہر جگہ دوچار ماہرینِ فن کو چھوڑ کر باقی جو ڈھیر آپ کو ملے گا وہ علم کے نام پر بدترین جہل کی مثال ہے اور جہل بھی جہلِ مرکب و بسیط! خود ہمارے ہاں کے سیکولرز و لبرلز کو ہی دیکھ لیجیے، مجال ہے ان کے ”جمِ غفیر“ میں سے سوائے ایک آدھ کے کسی نے لبرلزم پر مغرب میں لکھی جانے والی دو سطریں بھی پڑھ رکھی ہوں، یہ صاحبان کسی تحقیق کے نتیجے میں لبرل ازم کے حلقہ بگوش نہیں ہوئے بلکہ اس معاملے میں یہ ”مقلدِ محض“ واقع ہوئے ہیں کہ دیکھا دیکھی مغرب کے اس دین پر ایمان بالغیب لے آئے ہیں۔ ان مقلدِ محض گھامڑوں کے نزدیک لبرل ازم محض ملا پر زبانِ طعن دراز کرنےاور دین و مذہب اور شعائرِ دین کا ٹھٹھہ اڑانے کا نام ہے۔ ہمیں محترم کالم نگار کے علمی حدوداربعہ بارے معلوم تو نہیں تاہم جو لولوئے لالہ انھوں نے اپنی اس تحریر میں بکھیرے ہیں ان سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ علم و تحقیق سے ان کا تعلق اتنا ہی ہے جتنا گاندھی جی کا دو قومی نظریہ سے!

آگے چل کر موصوف کا قلم پھر گلکاریاں کرتا ہے، سو فرماتے ہیں:
”شاہ جی کو گالی گلوچ کا ملکہ حاصل تھا اور پاکستان کی تحریک کی مخالفت میں شاہ جی نے کئی بار زبان دراز کی۔ “

موصوف کی ”گلفشانی گفتار“ ملاحظہ کی آپ نے! بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب کی بابت کس لہجے میں بہتان تراشا ہے! یہ الزام اس شخض پر لگایا جا رہا ہے، جو اپنے عہد کا فصیح البیان بھی تھا اور زبان جس کے گھر کی لونڈی تھی۔ احباب کو شاد عظیم آبادی تو یاد ہی ہوں گے، شاد عظیم آبادی پٹنہ میں حضرت شاہ جی کی نانی محترمہ سے اشعار اور زبان کی اصلاح لیا کرتے تھے! اردو زبان کا کون سا ایسا بڑا ادیب، شاعر، نقاد ہو گا جس کے شاہ جی سے نیازمندانہ مراسم نہ رہے ہوں اور اس نے شاہ جی کے حضور اپنی عقیدت کے چراغ نہ روشن کیے ہوں۔ نام گنوانے پر آؤں تو ایک طویل فہرست صرف برعظیم پاک و ہند کے ادباء و شعراء کی ہے جنھوں نے شاہ جی ہمہ جہت شخصیت کو اپنے اپنے انداز سے عقیت کا خراج پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ جی کا احترام یکساں طور پر ہر طبقے کے لوگوں میں پایا جاتا تھا، آپس کی نظریاتی بحثیں چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہوں، لیکن شاہ جی کے احترام میں ایک دوسرے کے نظریاتی مخالف بھی ایک صف میں نظر آتے ہیں، اقبال، فیض، حفیظ، ساحر، مہر و سالک، پطرس بخاری، ایم ڈی تاثیر، سبطِ حسن، عدم، سیف الدین سیف، عبداللہ ملک۔ غرض کتنے ہی نام ہیں جنھیں پیش کیا جا سکتا ہے۔

رہی تحریکِ پاکستان کی مخالفت تو عرض یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان ایک سیاسی تحریک تھی، جس کی مخالفت ہرگز کفر و شرک نہیں اور نہ ہی کوئی انسان محض اس لیے قابلِ گردن زدنی ہو جاتا ہے کہ اس کا سیاسی موقف مسلم لیگ کے موقف سے الگ اور جدا تھا۔ شاہ جی ایک صاحبِ بصیرت سیاسی رہنما تھے جنھوں نے علیٰ وجہِ البصیرت مسلم لیگ سے اختلاف کیا اور سیاسی اختلافِ رائے کی بنیاد پر ستر سال گزر جانے کے بعد ایک جماعت یا شخص کو مطعون کرنا بذاتِ خود ایک انتہاپسندانہ رویہ ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ حب الوطنی کی ٹھیکیداری کے جملہ حقوق صاحبِ مضمون یا ان ایسے دیگر ”محققین“ کے نام بہرحال نہیں ہیں!

آگے چل کر صاحبِ مضمون نے تحریکِ ختمِ نبوت 1953 میں شاہ جی اور احرار رہنماؤں پر منیر ان کوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں جو تبرا کیا ہے۔ اس کی حقیقیت بھی ملاحظہ کر لیجیے۔ واقعہ یہ ہے کہ منیر ان کوائری کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر شاہ جی اور دیگر احرار رہنماؤں کی سیرت اخذ کرنا اور پھر اس پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ممدوح ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کی طرف سے پرانوں اور رگ وید سے توحید ”برآمد“ کرنا! طوالت کا خوف حائل نہ ہوتا تو ہم منیر ان کوائری کمیشن رپورٹ پر ایک مفصل تجزیہ اپنے قارئین اور صاحبِ مضمون کی خدمت میں پیش کرتے۔ سرِ دست اتنا کہنے پر ہی اکتفا کریں گے کہ اس رپورٹ کا غالب حصہ جانبدارانہ آلائشوں کا حامل ہے اور کسی لحاظ سے بھی اسے کسی جج کا تجزیہ نہیں کہا جاسکتا لیکن ستم ظریفی تو یہی ہے کہ اس کے مرتبین جج تھے!

ڈاکٹر جاوید اقبال (پسرِ اقبال) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو اسلام کے خلاف خود مسلمان ججوں کو قلم سے نکلی ہے۔ اس کی اشاعت روک لی جائے بلکہ اس کتاب کو ضبط ہونا چاہیے۔ شورش کاشمیری روایت کرتے ہیں کہ ایک بار جسٹس ایم آر کیانی نے عندالملاقات انھیں کہا تھا کہ وہ اس کتاب کی اشاعت سے پریشان و پشیمان ہیں اور جو حصہ اس میں اسلام کے خلاف ہے وہ جسٹس منیر کے قلم سے ہے۔

شورش کاشمیری اس رپورٹ کی بابت لکھتے ہیں:
”تمام رپورٹ میں ضروری شہادت کا مدار زیادہ تر سی آئی ڈی کی رپورٹوں پر ہے اور ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا سی آئی ڈی سے زیادہ ناکارہ عنصر ملک بھر میں شاید ہی ہو۔ ان رپورٹوں کا لب و لہجہ غایت درجہ معاندانہ بلکہ بڑی حد تک احمقانہ تھا۔

سی آئی ڈی نے احرار کو شروع ہی سے ہدفِ مطاعن بنائے رکھا۔ اس نے اصل نزاع کو سمجھنے کی بجائے صرف احرار کو ملزم گرداننےکی کوشش کی۔ اس کا طریق فکر ایک ایسے ناول نگار کا ہے جو ایک خاص ذہنی فضاء تخلیق کر کے اچھے برے کردار پیدا کرتا ہے اور اپنے زورِ بیان کی نمائش کرتا ہے۔ احرار کے باب میں سی آئی ڈی کا قلم جراح کا نشتر نہیں، حلال و حرام سے بے نیاز قصاب کا چھرا ہے۔ اس نے فوٹو گرافی کے بجائے مصوری کے فرائض اپنے اوپر تھوپ لیے تھے اور جس طرح چاہا ویسی تصویر بنا کر بزعمِ خویش اپنےقلم کی داد حاصل کی۔

نظر بہ ظاہر اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ قادیانی، حکومت کے مختلف صیغوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائض تھے اور افسرانِ مجاز ان کے شعوری یا غیر شعوری احترام یا خوف میں محصور تھے۔ دوسری طرف احرار سیاست میں ایک شکست کھائی ہوئی جماعت تھے۔ اس لیے جو بھی ثقہ و غیر ثقہ روایت مل گئی اس کو اس مفروضہ پر جوڑ بٹور لیا کہ تحریک پاکستان کے سلسلہ میں احرار سے لیگ کی ناراضی کا اجتماعی ذہن اس کی توثیق و تسلیم کےلیے کافی ہو گا۔ “

صاحبِ مضمون نے جس نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ ان کوائری رپورٹ کے حوالے سے شاہ جی کے مبینہ جھوٹ اور اشتعال انگیزی پر مبنی جملے ہیں جن میں ملکہ وکٹوریہ اور ملکہ الزبتھ کا غیر محتاط الفاظ میں تذکرہ شامل ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لطف صاحب نے عین وہ نکتہ اعتراض کے طور پر اٹھایا ہے جو اس رپورٹ میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی اٹھاتے ہیں اور بار ہا اس پر اظہارِ خفگی بھی فرماتے ہیں کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ کی ذکر قابلِ اعتراض طریق سے کرتے ہیں۔ لیکن سی آئی ڈی کے اس ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی یاداشتوں میں اس سیاق و سباق کا ذکر سرے سے مفقود ہے جس کے تحت ملکہ کا ذکر کیا جاتا رہا، ہاں ”صاحب بہادر“ کو بہرحال اصرار تھا ملکہ معظمہ کی توہین کی جاتی ہے۔

شورش کاشمیری رقم طراز ہیں:
”خلاصہ یہ کہ سی آئی ڈی کے افسران کو مزرا غلام احمد و سرظفراللہ خان وغیرہ کے بارے میں احرار رہنماؤں کے لب و لہجہ پر اعتراض تھا لیکن اپنی یاداشتوں میں جو گندے الفاظ احرار بالخصوص سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے متعلق استعمال کیے اور ان میں ٹکسالی زبان کے جو نوادر ڈھالے، ان کے بارے میں غالبا کبھی غور نہیں کیا تھا۔ “

قصہ کوتاہ منیر ان کوائری کمیشن رپورٹ مجموعہ اغلاط و تضادات ہے جس سے استدلال کی کوئی علمی حیثیت نہیں!


اسی بارے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).