عامر لیاقت حسین  کی سیاسی، مذہبی اور صحافتی عظمت


18 نومبر 2017ء کا دن ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ مہینہ اسموگ اور نیب عدالتوں کی کارروائی کے باعث بے یقینی اور بحران کی لپیٹ میں تھا۔ عظیم انسان مثلاً نپولین بونا پارٹ، مسولینی، اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت حسین تاریخی قدم اٹھانے کے لئے ایسے ہی لمحات کا انتخاب کیا کرتے ہیں۔ تاریخ گواہی دے گی کہ عامر لیاقت حسین نے نومبر 2017 میں بول چینل سے استعفیٰ دے کر اس مہینے کو امر کر دیا۔ بول چینل پاکستان کا سب سے بڑا چینل تھا اور حب الوطنی کی ایک عظیم روایت کا حامل تھا۔ قوم کو بول کی خوبیوں کی خبر عامر لیاقت حسین ہی نے دی تھی۔ واضح رہے کہ عامر لیاقت حسین اکیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند نیز جنوبی ایشیا کے ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔ انہوں نے دین  کے علم میں ایک بلند مقام پایا تھا۔ عالم آن لائن کے نام سے آن لائن دنیا میں دین کا نام روشن کرنے کا سہرا بلا شک و شبہ عامر لیاقت حسین کے سر باندھا جاتا ہے۔

عامر لیاقت حسین نے ٹرنٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے 2002ء میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 2002ء ہی میں ٹرنٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ٹرنٹی کالج اینڈ یونیورسٹی اکیسویں صدی میں بذریعہ ڈاک علم کے فروغ کا ایک عظیم ادارہ تھا جس کی عمارت ہسپانیہ کے تاریخی طور پر اسلامی ملک میں تھی تاہم اس ادارے کی رجسٹریشن امریکہ کے شہر ڈوور (ڈیلاویئر) میں ہوئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یونیورسٹی مذکور کی تعلیمی  کاوشوں کا دائرہ زمان و مکان کی حدود سے بے نیاز تھا اور اوقیانوس سمندر کے دونوں طرف پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عامر لیاقت حسین کی ذات گرامی پر ہسپانیہ سے جعلی ڈگریاں خریدنے کے الزامات لگائے گئے۔ کئی برس بعد عامر لیاقت حسین کا صحافتی چینل “بول” بھی ایک غیر متعلقہ ادارے ایگزیکٹ  کے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کی وجہ سے الزامات کا نشانہ بنا۔

عامر لیاقت حسین کی ذات گرامی میں قدرت نے ان گنت خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھیں۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ جس بات کو حق سمجھتے تھے، اس پر علیٰ اعلان اور ببانگ دہل ڈٹ جاتے تھے۔ عامر لیاقت حسین کی اس خوبی کو مثالوں سے واضح کرنا مناسب ہو گا۔

2008 میں محترم عامر لیاقت حسین نے ایک خصوصی پروگرام میں ایک مذہبی گروہ کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس گروہ کے ارکان کو واجب القتل قرار دیا۔ اتفاق سے اس پروگرام کے دو ہی روز بعد اس مذہبی گروہ کے دو افراد پراسرار حالات میں قتل ہو گئے۔ حاسدین نے ان اموات کا ذمہ دار عامر لیاقت حسین کو ٹھہرانے کی مذموم کوشش کی۔ اس الزام میں حقیقت نہیں تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جس وقت یہ قتل ہوئے، عامر لیاقت حسین جائے واقعہ سے کئی سو میل دور بھارتی فلم “غالب” دیکھ رہے تھے۔

2010 میں پاکستان کی کرکٹ یکے بعد دیگرے متعدد میچ ہار گئی۔ اس زمانے میں کچھ ایسے لوگ بھی کرکٹ میچوں پر تبصرہ کیا کرتے تھے جن کی واحد اہلیت یہ تھی کہ وہ کسی زمانے میں ٹیسٹ اور فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے تھی ۔ ایسے کوتاہ بین حضرات کے تبصرے کھیل کے تیکنیکی پہلوؤں تک محدود ہوتے تھے۔ عامر لیاقت حسین نے کرکٹ کمنٹری کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے رائے دی کہ کرکٹ ٹیم کے جوتوں کے تلوے سبز رنگ کے ربڑ سے بنے ہوئے ہیں۔ سبز رنگ پاکستان کے پرچم میں شامل ہے اور تاریخی طور پر سبز رنگ اسلامی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ چنانچہ کرکٹ ٹیم کی شکستوں کا اصل سبب یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم نے غلط جوتے پہن کر قوم کی تذلیل کا سامان کیا ہے۔

https://www.dawn.com/news/813142

2011ء میں ایک حریف ٹی وی چینل نے عامر لیاقت حسین کی ایسی وڈیو فوٹیج جاری کر دی جس میں عامر لیاقت حسین مذہب کے بارے میں غیر محتاط گفتگو کرتے سنائی دے رہے تھے۔ اس فلم میں عامر لیاقت حسین نے اپنے مہمان علمائے دین کی تضحیک بھی کی۔ انہیں اس موقع پر ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کے بارے میں غیر حساس جملے کستے بھی سنا جا سکتا تھا۔ اپنے دفاع میں عامر لیاقت حسین نے اخبارات میں ایک مضمون لکھ کر بتایا کہ ایک حریف ٹی وی چینل نے ان کی ساکھ تباہ کرنے کے لئے جعلی وڈیو تیار کی ہے۔ تاہم نیو یارک ٹائمز نے ایک خبر میں اطلاع دی کہ کچھ دوسرے مواقع پر مبینہ جعلی فلم کے بارے میں عامر لیاقت حسین نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ فلم ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ہلکے پھلکے پہلو کی آئینہ داری کرتی ہے۔

https://tribune.com.pk/story/233544/delusion-denial-and-dr-liaquat/

2013 میں عامر لیاقت حسین کی رمضان نشریات کی مقبولیت سے خائف ٹیلی ویژن چینلوں نے بے پرکی اڑائی کہ عامر لیاقت حسین کسی قانونی اختیار کے بغیر اور پیشہ وارانہ تقاضوں کی پروا کئے بغیر ٹیلی ویژن پروگراموں میں لاوارث بچے مختلف بے اولاد خاندانوں میں بانٹ رہے ہیں۔ عامر لیاقت حسین کے حامیوں کا کہنا تھا کہ تاریخ میں اولیائے کرام کی دعاؤں سے بے اولاد جوڑوں کی گود ہری ہونے کی روایت قدیم ہے۔ تاہم عامر لیاقت حسین قدیم اور جدید کا امتزاج پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ بے اولاد جوڑوں میں پہلے سے پیدا ہوئے بچے تقسیم کر رہے ہیں۔

http://www.ibtimes.com/pakistani-tv-game-show-awards-contestants-abandoned-babies-prizes-during-ramadan-ratings-wars

2014 میں عامر لیاقت حسین بغیر کسی مالی لالچ کے محض دین کے فروغ کی غرض سے ایک ٹیلی ویژن پروگرام کی میزبانی کر رہے تھے۔ ان کے مہمان عالم دین نے ایک خاص مذہبی گروہ کو دین کا دشمن اور واجب القتل قرار دیا۔ عامر لیاقت حسین نے تائید میں منڈیا ہلائی اور معنی خز نظروں سے حاضرین کی طرف مڑ کر دیکھا۔ جس پر مجمع تالیوں سے گونج اٹھا۔ عامر لیاقت حسین کی بے پناہ پذیرائی سے ان کے مخالف بوکھلا اٹھے اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ عامر لیاقت حسین مذہبی اشتعال پھیلا رہے ہیں۔ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں تھی کیونکہ اس پروگرام کے صرف پانچ روز بعد مذکورہ فرقے سے تعلق رکھنے ایک شخص گوجرانوالہ میں قتل ہو گیا۔ کراچی میں مقیم عامر لیاقت حسین پر گوجرانوالہ میں ہونے والے قتل کا الزام محض افترا پردازی تھا۔

https://in.reuters.com/article/pakistan-ahmadis/corrected-man-from-ahmadi-religious-minority-killed-in-pakistan-after-muslim-leader-calls-them-enemy-idINL6N0UB09O20141227

جون 2016ء میں پیمرا نے عامر لیاقت حسین کے مقبول ترین پروگرام پر محض اس بنیاد پر پابندی لگا دی کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں ایک خاتوں کی خود کشی کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی تھی۔ اس موقع پر عامر لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ پیمرا نامی ادارہ انہیں ٹیلی ویژن پروگراموں میں ھقیقت کا رنگ بھرنے سے روک رہا ہے۔ ان کے آزادی اظہار کے حق کا گلا اسی طرح گھونٹا جا رہا ہے جس طرح ان کے پروگرام میں خاتون کا گلا گھٹنے کا منظر دکھایا گیا تھا۔ ناظرین کے پرزور اصرار پر عامر لیاقت حسین کا پروگرام کچھ روز بعد پھر سے شروع کر دیا گیا۔

https://www.dawn.com/news/1267598

جنوری 2017 میں جبران ناصر نامی ایک مشکوک کردار کے حامل نام نہاد سماجی کارکن نے پیمرا میں شکایت داخل کی کہ عامر لیاقت حسین ان کی کردار کشی کی مہم چلا رہے ہیں جس سے ناصر جبران کی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ عامر لیاقت حسین نے بھارتی اداکار اوم پوری کی طبعی موت کو بغیر کسی شواہد کے قتل قرار دیا ہے۔ عامر لیاقت حسین نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور خفیہ ادارے کے سربراہ اجیت ڈوول کو اوم پوری کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پیمرا نے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عامر لیاقت حسین کے عالمی سطح پر مقبول پروگرام “ایسے نہیں چلے گا” پر عارضی پابندی عائد کر دی۔ عامر لیاقت حسین پر دونوں الزامات جھوٹے تھے۔ ثبوت یہ ہے کہ اوم پوری بدستور منظر عام سے غائب ہیں جب کہ ناصر جبران نامی شخص ابھی تک زندہ ہے۔

https://www.indiatimes.com/news/india/pakistani-journalist-aamir-liaquat-goes-nuts-says-pm-modi-ajit-doval-are-behind-om-puri-s-death-269104.html

مارچ 2017ء میں ایمنسٹی انٹر نیشنل نامی ایک عالمی سازشی ادارے نے الزام لگایا کہ حکومت پاکستان عامر لیاقت حسین کے خلاف موثر کارروائی کرنے سے قاصر رہی ہے جو بقول ایمنسٹی انٹر نیشنل، صحافیوں، بلاگرز اور سماجی کارکنوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے تھے۔ اس کے ردعمل میں پیمرا نے عامر لیاقت حسین کو اپنے ناظرین سے معافی مانگنے کا حکم دیا۔ غیر ملکی قوتوں کے اشارے پر پیمرا کا یہ اقدام بذات خود آزادی صحافت پر شرمناک حملہ قرار پایا۔

http://www.bbc.com/news/world-asia-39406034


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).