اسلام آباد میں جاری دھرنا، وزیر داخلہ اور توہینِ عدالت


اسلام آباد کے دروازے فیض آباد انٹرچینج پر گذشتہ چودہ روز سے تالا لگا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان سنی تحریک کی جانب سے ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ اسلام آباد میں سواری کا نظام درہم برہم ہے، کیا ون وے ہے کیا لیگل وے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس کو جہاں سے رستا ملتا ہے، آ اور جا رہا ہے۔ میٹرو بس سروس مکمل بند ہونے سے جڑواں شہروں کا مین ٹرانسپورٹ سسٹم بیٹھ گیا ہے۔

دوسری طرف انٹرنیٹ ٹیکسی سروس اوبر، کریم اور عام ٹیکسی والے فائدے میں ہیں اور عوام کے ساتھ ویگن والوں کا لہجہ بھی بدل گیا ہے۔ میں نے ایسے کئی وین ڈرائیوروں کو جو اسٹاپ پر زیادہ دیر کھڑے ہوتے ہیں مسافروں کے احتجاج پر ان سے یہ کہتے سنا، بیٹھنا ہے تو بیٹھو ورنہ اترو نیچے۔ کم از کم اسلام آباد میں ویگن ڈرائیور اس سے پہلے اس طرح بات نہیں کرتے تھے کہ کم از کم دارالحکومت میں ان کے خلاف شکایت پر ایکشن ہو جاتا ہے۔

روزانہ آٹھ لاکھ لوگ اس دھرنے سے تکلیف اٹھا رہے ہیں اور دو افراد ٹریفک کی بلاکنگ کی وجہ اسپتال پہچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے ہیں ان میں سے ایک بچہ تھا۔

آج پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے میڈیا روم میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس معاملے پر پریس کانفرنس کی۔ مگر ان کے آنے سے پہلے دو صحافی حضرات اس بات پر الجھے رہے۔ ایک کا کہنا تھا کہ دھرنے والوں کا مطالبہ درست ہے مگر ان کا انداز غلط ہے۔ دوسرے صحافی کا شدت کے ساتھ کہنا تھا کہ مطالبہ بھی درست ہے اور ان کا انداز بھی درست ہے۔ میں نے اس بحث کو خاموشی سے سننے میں ہی عافیت سمجھی۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات کے مختلف دور ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی مذاکرات کئے ہیں۔ پاکستان میں ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم بھی ختم نبوت کے حوالے سے اتنے غیرت مند ہیں، جتنے دوسرے ہیں یا دھرنے والے ہیں۔ ہم نے ہر سطح پر مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی موجودہ یا کوئی بھی حکومت ختم نبوت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ختم نبوت کی محافظ پارلیمنٹ اور عوام ہیں۔ ہے جو شخص نبی کریم کو آخری نبی نہیں مانتا، وہ کسی بھی طرح سے مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ختم نبوت کے حوالے سے عوام کے جذبات بھڑکانے کا تعلق دین سے نہیں بلکہ سیاست سے ہے۔ اگر کوئی جماعت دھرنے کے ذریعے اگلے انتخابات میں اپنا سیاسی کیریئر بنانا چاہتی ہے تو کھل کر اظہار کرے۔ لیکن پاکستان کے معصوم شہریوں کو جذبات بھڑکا کر تشدد کی طرف لے جانا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب نے حدیث ںبوی(صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) بھی سنائی کہ کسی کے راستے سے رکاوٹ ہٹانا اللہ تعالٰی کے نزدیک بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ ان کا اشارہ دھرنا دینے والوں کی طرف سے راستے بند کرنے کی طرف تھا۔

احسن اقبال صاحب نے کہا کہ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی، دھرنا دینے والی تنظیم تحریک لبیک کی درخواست کی سماعت کے دوران دھرنا ختم کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ اور میں عدالت کا حکم نہ مان کر توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہوں، پھر بھی چاہتا ہوں کہ کوئی پرامن حل نکلے۔ انہوں نے عدالت سے کچھ وقت دینے کی درخواست بھی کی۔

وزیر داخلہ سے چند صحافیوں نے مذہبی حوالے سے نا مناسب سوال بھی کیے مگر انہوں نے تحمل اور بردباری سے جواب دیئے۔ بہرحال تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان سنی تحریک کی جانب سے ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنی وزارت سے مستعفی ہوں۔ مگر حکومت اس مطالبے کو اس لئے تسلیم نہیں کررہی کیونکہ سرکاری موقف ہے کہ بات ایک فرد کی نہیں، اصول کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).